0
Sunday 23 Feb 2014 11:35

بھارت کی عام آدمی پارٹی

بھارت کی عام آدمی پارٹی
   

    45 سالہ کیجریوال سمجھتے ہیں کہ تبدیلی ہمیشہ چھوٹے چھوٹے کاموں سے آتی ہے، وہ سابق سرکاری ملازم ہیں، بدعنوانی کے خلاف جدوجہد اور سماجی خدمات کے اعتراف کے طور پر 2006ء میں ان کو ’رومن میگسیسے انعام‘ ملا۔ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کرتے ہوئے ’پریورتن‘ (تبدیلی) کے نام سے ایک تحریک چلائی، اس منفرد تحریک کے ذریعے انکم ٹیکس کی ادائیگی، بجلی اور راشن جیسے معاملات میں عام لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں ایک فاؤنڈیشن بھی قائم کی۔ ’رومن میگسیسے انعام‘ کے ضمن میں جو انعامی رقم ملی اسے بھی فاؤنڈیشن میں لگا دیا۔ انھوں نے ’رائٹ ٹو انفارمیشن‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے کرپشن کے خلاف غیرمعمولی جدوجہد کی۔ دو برس قبل کرپشن کے خلاف ایک سخت قانون بنانے کی غرض سے’بھارت ہے کرپشن کے خلاف‘ کے نام سے ایک گروپ بھی تشکیل دیا تھا۔ اس جرم کی پاداش میں کیجریوال کو جیل بھی دیکھنا پڑی۔ انا ہزارے نے اسی گروپ کے پلیٹ فارم سے غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال شروع کی تھی۔

اس مہم نے محض چند گھنٹوں میں پورے بھارت کو اپنی پشت پر کھڑا کر لیا تھا۔ کانگریس اور بی جے پی اس مہم کو غیر معمولی طور پر مقبول دیکھ کر پریشان ہو گئی تھیں۔ کیجریوال اور ان کے بعض ساتھیوں نے گذشتہ برس 2 اکتوبر کو، بھارتی قوم کے باپو مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش کے موقع پر ’عام آدمی پارٹی‘ قائم کئی۔ اس کے بانیوں میں انا ہزارے شامل نہیں تھے۔ انّا ہزارے کا خیال تھا کہ گندی سیاست میں شامل ہونے کی بجائے پاک صاف احتجاج ہی کرنا چاہیے۔ انتخابات سے پہلے ہی انا ہزارے نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ کیجریوال ان کا نام استعمال کریں گے نہ ہی تصویر۔ انھیں جو کچھ بھی کرنا ہے وہ اپنے بل بوتے پر کریں۔ 

قیام کے بعد عام آدمی پارٹی اس انداز میں میدان سیاست میں متحرک ہوئی کہ بھارتی تجزیہ نگاروں نے اسی وقت خبردار کر دیا تھا کہ نئی سیاسی جماعت پہلے سے موجود بڑی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کے لیے خطرہ بنے گی۔ پھر وہی ہوا جس کا دونوں بڑی جماعتوں کو ڈر تھا، انتہائی کم بجٹ سے انتخابی مہم چلا کر کیجریوال کی پارٹی نے دہلی کی 70 ریاستی سیٹوں میں سے 28 سیٹیں جیتیں۔ 

جب کیجری وال دہلی میں انتخابی مہم چلا رہے تھے تو ان کی انتخابی حکمت عملی مسحور کن تھی۔ انھوں نے غیر روایتی مہم چلائی۔ درست پالیسی، صحیح تشہیر اور بہترین انتخابی نظم و ضبط۔ اس کے زیادہ تر امیدوار سچ مچ کے عام آدمی تھے۔ کوئی حلوائی، کوئی سافٹ ویئر انجینئر، کوئی چھوٹا تاجر، زیادہ تر نوجوان۔ 

عام آدمی پارٹی کو سب سے زیادہ حمایت متوسط طبقے سے ملی۔ ان میں زیادہ تر سرکاری ملازم ، چھوٹے تاجر، ڈاکٹر، ٹیچر، وکیل اور صحافی تھے۔ یہ طبقہ بدعنوانی اور مہنگائی کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان تھا، یہ سرکاری محکموں سے ناراض ، بجلی کے بلوں سے تنگ آیا ہوا تھا، پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے پریشان، ہسپتالوں اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کے بارے میں بھی شدید شاکی تھا۔ عام آدمی پارٹی کو کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازموں کی بھی بھرپور حمایت ملی کیونکہ وہ بہت عرصہ سے مستقل ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے، عام آدمی پارٹی پہلی جماعت تھی جس نے انھیں مستقل کرنے کا وعدہ کیا۔ یاد رہے کہ صفائی کرنے والا عملہ، ٹیچرز، مزدور، ڈرائیور، میٹرو میں کام کرنے والے ملازمین زیادہ تر ٹھیکے پر ہی کام کرتے ہیں، یہ سب دہلی میں ایک بڑی آبادی شمار ہوتے ہیں۔ پارٹی کو این جی او، سماجی کارکنوں کی بھی بھرپور حمایت ملی، ان میں ہر مکتبہ فکر والے لوگ تھے۔

دہلی کا وزیراعلی بنے انھیں پچاس دن بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ انھوں نے استعفیٰ دیدیا۔ سبب یہ تھا کہ وہ ریاستی اسمبلی میں کرپشن کے خلاف قانون ’جین لوک پال‘ منظور نہیں کرا سکے تھے، جس کا انہوں نے اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا۔ 70رکنی اسمبلی میں ان کے پاس اپنے 28ووٹ تھے، قانون کی منظوری کے لئے انھیں دیگر جماعتوں کی حمایت بھی درکار تھی لیکن دونوں بڑی جماعتوں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے حمایت سے انکار کر دیا تھا۔ کیجریوال کہہ چکے تھے کہ وہ یہ قانون منظور نہ کرا سکے تو استعفیٰ دیدیں گے۔ چنانچہ عام آدمی پارٹی کے سربراہ نے اپنے کئے پر عمل کر دکھایا۔ 

اگرچہ دونوں بڑی جماعتیں عوام کو باور کرانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ عام آدمی پارٹی دہلی میں حکومت چلا نہیں سکی اور گھبرا کے بھاگ اٹھی۔ تاہم حال ہی میں سامنے آنے والے رائے عامہ کے جائزے ثابت کرتے ہیں کہ کیجریوال کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مثلاً ہندوستان ٹائمز کے جائزے میں پوچھے گئے مختلف سوالات کے جواب میں لوگوں کی اکثریت نے کیجریوال کے استعفیٰ کو درست اقدام قرار دیا ہے۔ 52فیصد لوگوں کے خیال میں کیجریوال کے اس اقدام کی وجہ سے انھیں عام انتخابات میں خوب فائدہ ملے گا۔ 56فیصد کا کہنا تھا کہ کیجریوال کے استعفیٰ کی وجہ سے عام آدمی پارٹی دہلی کے اگلے ریاستی انتخابات میں زیادہ تعداد میں سیٹیں جیت سکے گی۔ 

76فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ اگلے ریاستی انتخابات میں دہلی میں عام آدمی پارٹی کے علاوہ کسی جماعت کی حکومت قائم ہو گئی تو وہ کیجریوال حکومت کے اقدامات کو واپس لے سکتی ہے۔ کیجریوال حکومت کی ریٹنگ کے ضمن میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں 57فیصد لوگوں نے اسے ’اچھی پارٹی ‘  قرار دیا ہے۔ رائے عامہ کا جائزہ لینے والے ایک دوسرے ادارے C-Fore کے مطابق دہلی کے 59فیصد لوگ کیجریوال کے استعفیٰ پر مایوس ہوئے لیکن 58فیصد کا خیال ہے کہ عام آدمی پارٹی اگلے ریاستی انتخابات میں پہلے سے زیادہ سیٹیں لے کر حکومت سازی کرے گی۔ یہ جائزے بخوبی ظاہر کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں بھارت کے سیاسی منظرنامے میں عام آدمی پارٹی کہاں کھڑی ہو گی۔
خبر کا کوڈ : 354652
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش