0
Monday 15 Sep 2014 23:03

دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ملک بھر کے صحافی متحد ہیں، بلوچستان یونین آف جرنلسٹس

دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ملک بھر کے صحافی متحد ہیں، بلوچستان یونین آف جرنلسٹس
اسلام ٹائمز۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے زیراہتمام شہدائے صحافت کے قاتلوں کی گرفتاری کے لئے کوئٹہ پریس کلب سے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر ریلی نکالی گئی۔ ریلی کے شرکاء مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے صوبائی اسمبلی اور ہائی کورٹ کے سامنے پہنچے۔ جہاں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ، صدر بی یو جے عرفان سعید، جوائنٹ میڈیا ایکشن کمیٹی کے چیئرمین شہزادہ ذوالفقار، پریس کلب کوئٹہ کے صدر رضا الرحمن، پی ایف یو جے کے نائب صدر سلیم شاہد، رکن ایگزیکٹیو کمیٹی عیسیٰ ترین، بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر قیوم لہڑی، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر عبداللہ جان کاکڑ اور بلوچستان بار کونسل کے چیئرمین منیر احمد کاکڑ نے کہا کہ صحافیوں کا قتل مظلوم طبقات کی حق کی آواز کو دبانے کی سازش ہے۔ بلوچستان کے صحافی اپنے شہداء کی لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں، بلوچستان کے صحافی اکیلے نہیں۔ ملک بھر کے صحافی اور وکلاء ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ارشاد مستوئی، عبدالرسول، محمد یونس کے قاتلوں کی گرفتاری تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔

مرکزی صدر افضل بٹ نے کہا کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس بلوچستان کے صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہے اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف مل کر ملک بھر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر صحافیوں کے قاتلوں کو گرفتار نہ کیا گیا تو ملک بھر کے پریس کلبوں کے باہر صحافی بھوک ہڑتال شروع کریں گے۔ اگر پھر بھی قاتل گرفتار نہ ہوئے تو ملک بھر کے صحافیوں کو چلو چلو بلوچستان چلو کی کال دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ چند ماہ قبل پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے چاروں صوبائی اسمبلیوں کے سامنے احتجاجاً دھرنے دیئے تھے۔ جس میں آکر مرکزی حکومت اور صوبائی وزرائے اعلیٰ نے صحافیوں کے مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ مرکزی اور صوبائی حکومت اپنے وعدوں کا پاس رکھتی تو ارشاد مستوئی اور دیگر صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ پیش نہ آتا۔ افسوس کی بات ہے کہ 15 دن سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود نہ قاتل گرفتار کئے گئے اور نہ ہی ان کا سراغ لگایا گیا بلکہ سکیورٹی ادارے اور حکومت صحافیوں سے پوچھتی ہے کہ قاتلوں کے بارے میں بتائیں۔

انہوں نے کہا کہ قاتلوں کی گرفتاری اور نشاندہی بھاری مراعات لینے والی سکیورٹی فورسز کے افسران اور اہلکاروں کی ذمہ داری ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومت کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ "چلو چلو بلوچستان چلو" تحریک کے تحت کوئٹہ پہنچنے والے صحافیوں کے تمام مطالبات کی منظوری تک صوبائی اسمبلی کے سامنے پرامن احتجاج کریں گے اور اس دھرنے کے ذریعے ہمارا دہشت گردوں کو کھلا پیغام ہوگا کہ بلوچستان کے صحافی اکیلے نہیں ہیں بلکہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ملک بھر کے صحافی متحد ہیں۔ احتجاج کے ذریعے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو بھی پیغام دیں گے کہ وہ صحافتی اداروں کو تحفظ فراہم کرے اور صحافیوں پر تشدد اور ان کو قتل کرنے والوں کا سراغ لگائے۔ تیسرا پیغام ہم سیاسی پارٹیوں کو دیں گے۔ جنہوں نے ڈبل اسٹینڈرڈ اپنا رکھا ہے جن کے مسلح ونگز بھی موجود ہیں۔ مرکزی حکومت اور اسلام آباد میں دھرنا دینے والی دونوں سیاسی پارٹیوں نے ایک د وسرے کے خلاف مقدمے تو درج کروائے مگر صحافیوں پر تشدد کرنے والے پولیس اہلکاروں اور سیاسی پارٹیوں کے ورکروں کے خلاف مقدمہ درج نہیں کرایا گیا۔ صحافی تنظیمیں اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھے پرامن احتجاج کے ذریعے اپنے تحفظ کا حق حکمرانوں سے چھین لیں گی۔ وکلاء رہنماؤں نے کہا کہ وکلاء کی تحریک صحافیوں کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی تھی جس طرح صحافیوں نے وکلاء تحریک میں ہمارا بھرپور سا تھ دیا اسی طرح وکلاء تنظیمیں صحافیوں کے احتجاج میں ان کا بھرپور ساتھ دیں گی۔
خبر کا کوڈ : 409859
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش