0
Saturday 11 Oct 2014 21:40

امریکی اسلام اور حقیقی محمدی (ص) اسلام

امریکی اسلام اور حقیقی محمدی (ص) اسلام
تحریر: محمد ایمانی

امریکی اسلام کی کیا خصوصیات ہیں؟ وہ کون سے مشترکہ نکات ہیں جو امریکی اسلام کے مختلف شعبوں کو ایک تشخص عطا کرتے ہیں؟ یہ انحرافی گروہ کیونکر تشکیل پاتے ہیں اور ان کا تشکیل پانا اور ان کی تعداد میں اضافہ ہونا کس حقیقت کی طرف اشارہ ہے؟ امام خمینی (رہ) وہ مسلمان رہنما تھے جنہوں نے پہلی بار "امریکی اسلام" کی اصطلاح کو متعارف کروایا۔ وہ گذشتہ چند صدیوں کے دوران عالم اسلام اور مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر گہری نظر رکھتے تھے۔ وہ اس بارے میں فرماتے ہیں: "عالمی استعماری طاقتوں نے مسلمان معاشروں کے اندر اپنے ایسے بھیدی گھسا رکھے ہیں جو قومیت پسند، روشن خیال اور عالم دین کی صورت میں موجود رہتے ہیں۔ یہ افراد انتہائی خطرناک ہیں اور بعض اوقات 30 یا 40 برس تک یونہی مسلمانوں کے درمیان مسلمان بن کر رہتے ہیں اور سب یہی سمجھتے ہیں کہ وہ ان کے اپنے لوگ ہیں لیکن مناسب وقت آنے پر اپنے آقاوں کی جانب سے بنائے گئے منصوبوں کے مطابق ان کے دستورات کی پیروی کرتے ہوئے اپنا کام کر جاتے ہیں۔" (صحیفہ نور، جلد 21، صفحہ 189)  
 
امام خمینی (رہ) تاریخی حقائق پر مبنی اپنے اس فہم کے ذریعے امریکی اسلام کا چہرہ بے نقاب کرتے ہوئے کہتے ہیں: "کیا مسلمان نہیں دیکھ رہے کہ آج دنیا کے مختلف حصوں میں موجود وہابیت کے مراکز فتنہ اور جاسوسی کے مراکز میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ وہ ایک طرف تو اشرافیہ اسلام، ابوسفیان والے اسلام، پست درباری ملاوں والے اسلام، دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کے ناسمجھ اور خشک مقدس متحجر افراد والے اسلام، ذلت اور بیچارگی والے اسلام، طاقت اور پیسے والے اسلام، فریب، ساز باز اور گرفتاری والے اسلام، مظلوم اور پابرہنہ افراد (ننگے پاوں) پر سرمائے اور سرمایہ داروں کے تسلط والے اسلام یا دوسرے الفاظ میں امریکی اسلام کی ترویج کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے آقا یعنی امریکہ کے دروازے پر سرتسلیم خم کرتے ہیں۔" (صحیفہ نور، جلد 20، صفحہ 230)  
 
امام خمینی (رہ) امریکی اسلام کو "مقدس مآب متحجر افراد کا اسلام، خدا سے غافل سرمایہ داروں اور انسانیت کا درد نہ رکھنے والے اشرافیہ کا اسلام اور ابوسفیان کا اسلام" قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقی محمدی (ص) اسلام کو محروم اور پابرہنہ افراد کا اسلام کہتے ہیں۔ اگر ماضی میں امریکی اسلام اور اس سے قبل برطانوی اسلام کی تشکیل عالمی استعماری قوتوں کیلئے اہم اور ضروری تھی، تو آج ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اس کی روز بروز بڑھتی ہوئی ترقی کی روشنی میں اس جعلی اور نقلی اسلام کی اہمیت اور ضرورت ان کیلئے کئی برابر زیادہ ہوچکی ہے۔ طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت شیعہ یا سنی نقاب کے ساتھ جعلی اسلام کی بے سابقہ ترویج اس اہم حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ عالمی استعماری قوتیں حقیقی محمدی (ص) اسلام کے تیزی سے بڑھتے ہوئے پھیلاو اور ترقی کا یقین کرچکی ہیں، لہذا اس کی روک تھام کیلئے تگ و دو میں پڑ گئی ہیں۔ 
 
امریکہ، برطانیہ اور صہیونیزم کی منحوس اور شیطانی مثلث نے خطے میں جنم لینے والی اسلامی بیداری کی تحریک اور اسلامی مزاحمت کا مقابلہ کرنے کیلئے قینچی شکل کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے جو دو بنیادوں پر استوار ہے: 
1۔ "مسیحی صہیونیزم" کے پرچم تلے اسلامی سرزمینوں پر کھلم کھلا جارحیت، جس کا نام صلیبی جنگ، چوتھی عالمی جنگ، جدید امریکی صدی اور جدید مشرق وسطٰی رکھا گیا۔ اسی پالیسی کے تحت مغربی دنیا میں یکے بعد دیگرے قرآن کریم اور نبی مکرم اسلام حضرت محمد (ص) کی شان میں کھلم کھلا گستاخی جیسے اقدامات انجام پائے۔ 
2۔ اسلامی ممالک میں پراکسی وار شروع کرنا۔ اس پالیسی کے اجراء کیلئے دو راستے مقرر کئے گئے:
الف)۔  خطے میں غیر متوقع اور تباہ کن جنگوں کا آغاز جو گذشتہ چند سالوں سے مغرب کے پیدا کردہ دہشت گرد گروہوں کی جانب سے شروع کی جا چکی ہیں، اور 
ب)۔ خطے میں نرم جنگ کا آغاز۔ جیسے چند سال قبل ایران میں سبز تحریک کی صورت میں انقلاب اسلامی ایران کے خلاف فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی گئی۔ 
 
حقیقی محمدی (ص) اسلام کے تیزی سے پھیلاو اور ترقی کی وجہ سے مغربی دنیا کی بوکھلاہٹ اور اسے روکنے کیلئے امریکی اسلام کے مختلف ورژن (لبرل اور متحجر اسلام) کو متعارف کروانے کی کوششوں کو سمجھنے کیلئے انہیں کے ایک پٹھو کی باتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ مسٹر عبدالکریم سروش وہ شخص ہے جسے امریکہ کی فارین ریلیشنز کونسل نے گذشتہ دس برس کے دوران انحرافی افکار پھیلانے کے انعام کے طور پر 6 میلین ڈالر تحفے کے طور پر دیئے ہیں۔ سروش 23 فروری 2010ء کو ہالینڈ کی ڈیلفٹ یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہے:
"سیکولرازم کے حامیوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا دین اور حکومت میں جدائی کی جانب گامزن ہے اور دین صرف افراد کی انفرادی زندگی تک محبوس ہو کر رہ گیا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، کیونکہ ہم ایرانیوں کی زندگی میں دین کے اثرورسوخ اور مغربی دنیا میں دین کی واپسی کو محسوس کر رہے ہیں۔ جس کے بارے میں گمان کیا جا رہا تھا کہ وہ مر چکا ہے یا مرنے کے قریب ہے، دوبارہ زندہ ہو رہا ہے۔ سیکولرازم جسے مختلف ادیان کی نسبت بے طرف ہونا تھا، دین کے دشمن سیکولرازم میں تبدیل ہوچکا ہے اور بعض ادیان کے مقابلے میں صف آرائی کر رہا ہے۔ حالات ایسی جانب جا رہے ہیں جس کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔ وہ دینی افکار جنہیں خرافات قرار دے دیا گیا تھا اور اعلان کر دیا گیا تھا کہ ان کی تاریخ تنسیخ گزر چکی ہے، دوبارہ جڑیں پکڑ رہے ہیں۔ سیکولرازم رفتہ رفتہ مسلحانہ اقدامات پر اتر آیا ہے۔ آج ادیان کے کمزور ہونے کا مفروضہ غلط ثابت ہوگیا ہے۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ سیکولرازم اور لبرل ازم کمزور ادیان کو نگل جائیں گے لیکن اب دین اس قدر طاقتور ہو چکا ہے کہ اس نگلنا مشکل ہوگیا ہے۔ امریکہ نے افغانستان اور عراق پر حملہ کیا لیکن اس کے بعد تشکیل پانے والی دونوں حکومتوں نے اپنے آئین میں لکھا کہ ہم قوانین کو اسلامی شریعت سے لیں گے۔ یہ وہ چیز تھی جس کا تصور امریکی خواب میں بھی نہیں کر رہے تھے۔ وہ ہرگز تصور نہیں کر رہے تھے کہ صدام دور کا سیکولرازم ختم ہونے کے بعد دینی حکومت برسراقتدار آجائے گی۔"  
 
اقوام عالم میں اسلام کے تیزی سے پھیلاو اور دین مبین اسلام میں امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی صلاحیت نے عالمی طاقتوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ گذشتہ 14 برس کے دوران امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کی جانب سے عالم اسلام کے خلاف لڑی جانے والی تمام جنگیں بری طرح شکست کا شکار ہوچکی ہیں اور وہ ان جنگوں میں نہ صرف مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ انہیں اربوں کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔ لہذا اب ان کے ہاتھ میں صرف ایک ہتھکنڈہ رہ گیا ہے جو "شدت پسند اسلام" اور "ساز باز کرنے والا اسلام" متعارف کروانا ہے۔ امریکی اسلام کے مختلف شعبے بعض اوقات اس قدر ایکدوسرے سے مختلف ہوتے ہیں کہ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ آپس میں تضاد رکھتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام مہرے ان گراریوں کی طرح جو برعکس سمت میں گھوم رہی ہوتی ہیں، ایک مشترکہ ہدف کی خاطر سرگرم عمل ہیں۔ مثال کے طور پر تکفیری دہشت گرد گروہ "داعش" سے وابستہ عناصر ایک طرف تو خطے میں نیٹو کی پیادہ فوج کا کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اپنے غیرانسانی اور سفاکانہ اقدامات کی بدولت اسلام کے چہرے کو بگاڑ کر پیش کر رہے ہیں، جس کی مدد سے مغربی میڈیا یورپی عوام کو اسلام سے متنفر کرنے میں مصروف ہے۔ اسی طرح داعش کی درندگی ایران، مصر، عراق، ترکی وغیرہ جیسے مسلمان ممالک میں سیکولر اور لادین قوتوں کو بھی مناسب بہانہ فراہم کر رہی ہے، تاکہ وہ عوام کو اسلامی گروہوں اور جماعتوں سے دور کر سکیں۔ مغربی طاقتیں چونکہ کھلم کھلا عالم اسلام کو اپنی جارحیت اور بربریت کا نشانہ نہیں بنا سکتیں، لہذا نام نہاد اسلامی شدت پسند گروہوں کو تشکیل دے کر اسلام کے نورانی چہرے کو خراب کرنے اور اسلام کے خلاف کیچڑ اچھالنے میں مشغول ہیں۔ 
 
ایران میں ایم کے او (مجاہدین خلق آرگنائزیشن یا منافقین)، آزادی موومنٹ اور جدید روشن خیال گروہوں اور مغربی ایشیا میں سیکولر اور لبرل جماعتوں اور تحریکوں سے لے کر داعش اور القاعدہ کی شکل میں وہابی، سلفی اور تکفیری گروہوں کو بعض مشترکہ خصوصیات کی بنا پر "امریکی اسلام" کے مختلف شعبے قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان تمام گروہوں کی مشترکہ خصوصیت "اشداء علی الکفار رحماء بینھم" اور "اذله علی المومنین اعزۃ علی الکافرین" پر مبنی اسلامی اصول کے برعکس عمل کرنا ہے۔ یہ گروہ امت مسلمہ کے خلاف شدت پسندی، دہشت گردی اور مسلحانہ اقدامات انجام دے رہے ہیں جبکہ عالمی استعماری قوتوں اور شیطان بزرگ امریکہ کے خلاف ساز باز، خوفزدہ یا کم از کم مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ خطے کی بعض رجعت پسند عرب حکومتیں بھی اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے خلاف ایسا ہی رویہ اپنائے ہوئی ہیں۔ یہ حکومتیں حتی اسرائیل کی حمایت کرنے کی حد تک بھی جاچکی ہیں۔ القاعدہ اور داعش بھی بالکل ایسی ہی پالیسی پر گامزن ہیں۔ داعش نے اسلامی ممالک کے اندر شدید بدامنی پھیلا رکھی ہے جبکہ حال ہی میں غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں خاموش تماشائی بنے رہے اور حتی صرف زبان سے مذمت کی حد تک بھی اسرائیل کی مخالفت کا اظہار نہیں کیا۔ داعش اور القاعدہ جیسے گروہوں کو امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسیز کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور یہ گروہ دنیا کے مختلف حصوں میں امریکہ اور مغربی ممالک کو فوجی مداخلت کا مناسب بہانہ فراہم کرتے آئے ہیں۔ 
 
ایران میں سرگرم دہشت گرد گروہ مجاہدین خلق آرگنائزیشن یا MKO کا نعرہ یہ تھا کہ درست ہے ہم لبرل ازم اور شاہ کے خلاف سرگرم عمل ہیں لیکن وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ سب سے پہلے امام خمینی کے حامی مسلمانوں کا خاتمہ کریں۔ کیا ایم کے او نے آج تک ایک امریکی یا اسرائیلی کو مارا ہے؟ لیکن سینکڑوں بیگناہ مسلمانوں کو قتل کرچکے ہیں۔ عالم اسلام میں سرگرم منافق تحریکیں جو امریکی اسلام کا حقیقی نمونہ ہیں، ایک مشترکہ خصوصیت کی حامل ہیں۔ وہ عالمی استعمار کے خلاف مقابلے کا نعرہ لگاتے ہوئے خود مسلمانوں کو ہی نشانہ بناتی ہیں۔ ان کا اصلی ہدف امت مسلمہ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے۔ یہ گروہ فریب اور دھوکہ دہی کے ذریعے مسلمانوں کو آپس میں لڑوا کر انہیں کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ ان کا اسلام امت مسلمہ کے اندر پھوٹ ڈالنے اور مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے والا اسلام ہے۔ آج مغربی طاقتیں اسی قسم کے اسلام کو ایران، پاکستان، افغانستان اور دوسرے اسلامی ممالک میں رائج کرنے کیلئے اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہیں۔ البتہ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکی اسلام کے مختلف شعبوں کے معتبر ہونے کی مدت بہت مختصر ہوتی ہے، لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ نت نئے شدت پسند نام نھاد اسلامی گروہ بنتے اور ختم ہوتے رہتے ہیں۔ 
 
کون سے معاشرے امریکی اسلام کیلئے افرادی قوت مہیا کرنے کیلئے زیادہ مناسب ہیں؟ وہ معاشرے جن کے حکمران عالم کفر اور استعماری قوتوں سے گھل مل چکے ہیں اور نہ صرف ان سے دوری اختیار نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات تو ان کی پالیسیوں کی مکمل حمایت کرتے ہوئے انہیں ہر قسم کا تعاون فراہم کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں اسی قسم کے مسلمان حکمرانوں کو منافق قرار دیا گیا ہے اور ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ "الذین فی قلوبھم مرض"۔ یہ وہ افراد ہیں جو منافقت جیسی بیماری کا شکار ہوچکے ہیں اور ہر لحظہ اسلامی معاشروں کو گمراہی کی اتھاہ گھاٹیوں میں دھکیل سکتے ہیں۔ قرآن کریم سورہ آل عمران کی آیات 118 سے 120 تک انتہائی واضح الفاظ میں مسلمانوں کو خبردار کر رہا ہے کہ اے ایمان والو، اغیار کو اپنا ہمراز اور ہمدم نہ بناو کیونکہ وہ تمہارے دشمن ہیں اور تمہیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ وہ منہ سے کھلم کھلا تمہارے ساتھ دشمنی کا اظہار کرتے ہیں اور جو چیز ان کے دلوں میں ہے، وہ اس سے بھی کہیں زیادہ بدتر ہے۔ اگر تمہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو وہ غمگین ہوجاتے ہیں اور جب تمہیں کوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں۔ اگر تم لوگ صبر اور تقوی اختیار کرو گے تو ان کی سازشیں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔
خبر کا کوڈ : 414196
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش