0
Monday 13 Feb 2012 00:28

بحرین، خون اور تلوار کی جنگ

بحرین، خون اور تلوار کی جنگ
 تحریر: سید اسد عباس تقوی 

اپنے گزشتہ مضمون میں بحرین کے حالات کے تجزیے کی کوشش کے بعد کوئی ایسا لمحہ نہیں گزرا کہ میں بحرین کے حالات سے آگاہ نہ رہا ہوں۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جسمانی طور پر میں پاکستان میں ہوں لیکن روحانی طور پر دوار الولو (پرل اسکوائر) میں ہوں۔ کبھی بحرین کی ریلیوں کے حالات میرے سامنے آتے ہیں تو کبھی بزرگ بحرینی عالم الدین شیخ عیسٰی قاسم کی پرسکون مگر قلوب کو گرما دینے والی بوڑھی آواز کانوں میں گونجتی ہے۔ ان کی منہ سے جب "ھیھات منا الذلة" کا شعار حسینی سنتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقت کا حبیب ابن مظاہر یزیدیت کے ظلم و جور اور دہشت و وحشت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے ضعیف و ناتواں جسم پر کفن پہنے مخلوق کے حق کی نصرت کے لیے آمادہ کھڑا ہے۔
 
بحرینی نوجوانوں نے بھی اپنے اتحاد، حمیت اور عمل کے ذریعے ایسی مثال قائم کر دی کہ جس کی نظیر بحرین کی حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ان بابصیرت نوجوانوں کے ذہن و قلب میں اس کہنہ مشق پدر بزرگ کی صدائے رندانہ یوں سرایت کر چکی ہے کہ اب ان کے لیے واپسی یا حالات سے مصالحت کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ زہریلی گیس، موت، گولی، تشدد بحرینی نوجوان کے لیے کھلونوں کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ شہداء کے پاکیزہ لہو کے وہ پہلے قطرے جو میدان الولوة میں ٹپکے بحرینی نوجوانوں کے رگ و پے میں یوں سرایت کر چکے ہیں کہ ان کے سامنے آل خلیفہ کی بربریت، عالمی حکومتوں کی بے حسی، میڈیا کی بے اعتنائی اور اپنوں کی مصلحتیں اور سازشیں بے معنی ہو چکی ہیں۔

جیسے جیسے 14 فروری یعنی شہداء میدان الولوة کی سالگرہ کا دن قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے لہو اس میدان الشہداء کی جانب کھنچ رہا ہے۔ فیس بک، یو ٹیوب پر خلیجی اور بحرینی سکیورٹی اداروں کی جانب سے بحرینیوں پر کیے گئے مظالم کی تصاویر اور ویڈیوز کو دیکھیں تو اس تحریک میں شرکت تو دور گھر سے نکلنے کا تصور کرنا ہی مشکل ہے لیکن دس، گیارہ اور بارہ فروری کو ائتلاف الشباب الثورة کے اعلان کے عین مطابق ملک بھر میں کفن پوش ریلیاں منعقد کی گئیں۔ ان ریلیوں میں مرد و زن، بوڑھے بچے سبھی شریک تھے۔ ملک میں حزب اختلاف کی پانچ بڑی سیاسی جماعتیں جنہیں ملک میں سیاست کرنے کا حکومتی لائسنس حاصل ہے، بھی ان مظاہروں میں شریک رہیں۔
 
بحرینی انقلاب کے محبوب قائدین جو قبل ازیں الوفاق کا حصہ تھے اور اب الگ جماعتیں بنا کر عوام کے درمیان رسوخ حاصل کر چکے ہیں، بھی ایک مرتبہ پھر میدان عمل میں اتر چکے ہیں۔ شیخ حبیب مقداد، شیخ حسن المشیمع، شیخ عبدالوہاب حسین، شیخ سعید الشہابی، شیخ عیسٰی الجودرجو انقلابی نوجوانوں کے لیے عزم و حمت کی مثالیں تھے، آج ان کے مابین موجود ہیں۔ ایسا کیونکر نہ ہو، جہاں مرد و زن کے حوصلے اس قدر بلند ہو چکے ہوں کہ ایک جواں سال شاعرہ آیات القرمزی حکومت کی صعوبتیں سہنے کے بعد جب رہا ہوئی تو اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔

لا نریدالعیش فی قصر ولانھوی رئاسة
نحن شعب یقتل الذل ویغتال التعاسة
نحن شعب یھدم الظلم بسلم من اساسة
نحن شعب لا نرید الشعب یبقی فی التکاسة
"ہم محلوں کے عیش عشرت نہیں چاہتے اور نہ ہی ہمیں حاکمیت سے کوئی غرض ہے، ہم ذلت کو قتل کرنے والے اور بے چارگی کو مار دینے والے ہیں۔ ہم ظلم کو امن کے ذریعے اس کی بنیادوں سے منہدم کرنے والے ہیں، ہم وہ لوگ ہیں جو نہیں چاہتے کہ دوسرے پستی میں رہیں۔" 

کلنا راجعین یا میدان الشھداء، سلمیہ سلمیہ، لبیک یا بحرین، اللہ اکبر، ھیھات منا الذلة اور اشعب یرید اسقاط النظام کے فلک شگاف نعر ے منامہ، دیر، سند اور بار بار کے درو دیوار کود ہلائے دیتے ہیں۔ بزرگ اور حکومتی لائسنس یافتہ جماعتوں کے باغی سیاستدان جنہیں بحرینی نوجوان الاستاذ کے لقب سے یاد کرتے ہیں جہاں ایک جانب ان نوجوانوں کے ہمنوا ہیں، وہیں ان پر فخر بھی کر رہے ہیں کہ اس غیرت مند نسل کی استقامت نے آج بحرین کو وہ بیداری بخشی جس کا وہ ہمیشہ خواب دیکھا کرتے تھے اور جس کے لیے انہوں نے اپنی زندگیاں قید و بند اور بے وطنی کی صعوبتیں برداشت کرتے گزار دیں۔ 

شیخ محمد حبیب مقداد نوجوانوں کو پیغام دیتے ہیں:
”اے نوجوانوں! اس انقلاب کی تم نے اپنے لہو سے آبیاری کی ہے۔ اس وقت یہ انقلاب تمھاری گردنوں پر ایک امانت ہے اور تم اس امانت کی حفاظت کے اہل ہو۔ تم اس قابل ہو کہ اپنے ثبات قدم، اپنی حمت اور اپنے ارادے سے اس امانت کی حفاظت کرو۔“
اسی طرح ”حرکة الحق“ کے جلاوطن جرنل سیکریٹری شیخ حسن مشمیع جو 2011ء کے بعد وطن واپس آئے کہتے ہیں:
”تم اس ملت کے آزاد لوگ ہو، امید اور کامیابی انشاءاللہ اسی راہ میں ہے۔ تم مستقبل ہو، تم ہی سے امیدیں وابستہ ہیں۔ مجھے تم سے شرم آتی ہے۔۔۔۔بتحقیق تم بہت سے لوگوں آگے بڑھ گئے، تم وہ قوم ہو جو پہل کرنے میں مستعد ہے اور وہ لوگ جو موت کے لیے آمادہ ہوتے ہیں انہیں شکست دینا ممکن نہیں۔“
 
شیخ عبد الوہاب حسین جو ”الوفا “کے سربراہ ہیں اور ”رجل الثورة“ کے عنوان سے جانے جاتے ہیں نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں:
”دین، وطن، عزت، کرامت، مقدسات کے دفاع اور حقوق کے لیے جان کی قربانی (شہادت) اسلام کے نظر میں افضل ترین عمل ہے۔ اسلام اس امر کی ترغیب دیتا ہے اور مومنین اس کی جانب میلان رکھتے ہیں۔ ہر وہ مومن جس کا ایمان اور جذبہ حب الوطنی کامل ہے شہادت اس کی آرزو ہے۔“ 

ان قائدین میں سے اکثر یا تو گرفتار ہیں یا نظر بند، تاہم وہ کام جو اس قیادت نے اپنے کلام اور تعلیمات کے ذریعے کرنا تھا،کرچکی۔ اب بحرینی نوجوان کو آزادی، حقوق اور کرامت سے کمتر کسی بات پر قائل کرنا ممکن نہیں رہا۔ حکومت نے گزشتہ پورا سال اس تحریک کو قوت کے بھرپور استعمال کے ذریعے دبانے کے تمام حربے استعمال کئے، تاہم یہ تحریک آج بھی اسی عزم سے جاری ہے جس سے اس کا آغاز کیا گیا تھا۔ شیخ حمد بن عیسٰی آل خلیفہ کی حمایت میں ایک مرتبہ پھر قطیف کے زہیر عبداللہ سعید کے قاتلوں کا لشکر بحرین میں داخلے کے لیے تیار ہے۔ ایک مرتبہ پھر تلوار اور خون کا اک معرکہ امت مسلمان کو درپیش ہے۔ اس میں کتنا وقت اور کس قدر وسائل استعمال ہوتے ہیں، اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
 
شاہ بحرین شام کے صدربشار الاسد کو تو مشورہ دیتے ہیں کہ اپنی عوام کی خواہشات کا احترام کریں لیکن نہیں معلوم انہیں اپنی عوام کی خواہشات کیوں نظر نہیں آ رہیں۔ دوار الولوة، جو اب میدان شہداء کے نام سے جانا جاتا ہے کی جانب جانے والے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ سکیورٹی فورسز منامہ کے اردگرد واقع دیہاتوں میں چھاپے مار رہی ہے۔ ایک مرتبہ پھر خوف و وحشت کا راج ہے۔ لیکن آخر کب تک؟ کب تک آزادی کی صدا کو گلے میں گھونٹا جا سکے گا؟ آخر کب تک ظلم کے ساتھ حکومت جاری رہے گی؟ آخر کب تک یہ توقع کی جاتی رہے گی کہ حقوق بھی نہ دیئے جائیں اور کوئی ان کا تقاضا بھی نہ کرے؟ آخر کب تک دھونس اور وحشت کے بل بوتے پر عوام کی امنگوں کے خلاف ان پر حکومت کی جاتی رہے گی ؟آخر کب تک۔؟
خبر کا کوڈ : 137293
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش