9
1
Friday 22 Aug 2014 02:10

کیا پاکستانی سیاست شیعہ مسلمانوں کیلئے شجر ممنوعہ ہے؟

کیا پاکستانی سیاست شیعہ مسلمانوں کیلئے شجر ممنوعہ ہے؟
تحریر: عرفان علی 

پیامبر معصوم خدا حضرت یوسف علیہ السلام اگر بت پرست کاہنوں کی مملکت مصر کے عزیز کے مشیر ہوجائیں یا معصوم امام کے شیعہ علی بن یقطین بنو عباس کے بادشاہ کے وزیراعظم، ان کی حقانیت پر حرف نہیں اٹھایا جاسکتا۔ ان کا ان حکومتوں کا حصہ ہونا نہ ان حکومتوں کے حق ہونے کی دلیل بنتا ہے اور نہ ہی ان کا ایسا کرنا انہیں باطل پرست کرتا ہے۔ یہی سیرت انبیاء (ع) و اولیائے خدا (ع) رہی ہے۔ ہر دور کی امت اور امت کے سربراہ اپنے دور کے مخصوص ماحول اور حالات میں اپنی حکمت عملی وضع کرتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنا حق طلب کرنے کے لئے دربار میں جانا اور اپنا موقف بتانا، یا وقت کے حکمران کو مشورہ دینا کہ یہ کرو یہ مت کرو، جناب سیدہ سلام اللہ علیہا اور مولائے متقیان علی علیہ السلام کی وہ سیرت طیبہ ہے کہ جو تاقیامت اہل تشیع کے لئے مشعل راہ ہے۔ پریکٹیکل لوگ انسانوں کو خیالی، کتابی باتوں میں نہیں الجھاتے، راہ حل سجھاتے ہیں، عملی بنا دیتے ہیں۔

اگر قوم بنی اسرائیل کی ہی مثال سے سبق لیا جائے، جیسا کہ بعض ایسے دوستوں کی رائے ہے، جو مجھ سے متفق نہیں یا میں ان کے نظریئے سے اختلاف کرتا ہوں اور بعض مقالوں میں دلائل سے ان کی بات کو رد کرچکا ہوں، تب بھی اس امت کی مثال گوسالہ پرست بنی اسرائیل جیسی نہیں ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ حضرت موسٰی علیہ اسلام نے امت کو حضرت ہارون (ع) کی پیروی کی تاکید کی تھی اور گوسالہ پرستی اس حکم کی عدم تعمیل کی وجہ سے ہوئی۔ آج غیبت امام زمانہ (عج) کے اس پر فتن دور میں امت کے درمیان فقہائے عظام، مراجعین کرام بھی ہیں اور منجی عالم بشریت کے نائب برحق امام خامنہ ای بھی موجود ہیں۔ جن رہنماؤں اور ان کے پیروکاروں کو گوسالہ پرستوں سے تشبیہ دی جاتی ہے، ان میں سے کون ہے جو مرجعیت کا مخالف ہے یا ولی فقیہ کے مقابلے میں نیا مکتب ایجاد کر رہا ہے؟ اس کے لئے انسان خود کو آئینے میں دیکھے۔

اس تمہید کے بعد، عرض یہ کہ کیا پاکستان جیسے ملک میں شیعہ مسلمانوں کا کوئی سیاسی کردار بنتا ہے یا نہیں، اس سوال کے جواب سے ہی شیعہ مسلمانوں کا موجودہ پاکستانی سیاست کے بارے میں کنفیوژن دور ہوسکتا ہے۔ امام خامنہ ای کی ایک تصنیف معصوم آئمہ علیہم السلام کی سیاسی جدوجہد کے بارے میں ہے اور اس کا اردو ترجمہ ہوچکا ہے۔ دور کیسا بھی ہو، آئمہ معصومین علیہم السلام کے دور سے زیادہ مشکل نہیں ہوسکتا، اور اس پرفتن دور میں بھی آئمہ علیہم السلام اور ان کے ثابت قدم شیعوں نے سیاست کا میدان خالی نہیں چھوڑا تھا۔ حتیٰ کہ اقتداری سیاست پر بھی ان کی نظر تھی اور امت اسلام ناب محمدی کے مفاد میں علی بن یقطین جیسے لوگوں کا بنو عباس کے دور میں حکومت کا حصہ ہونا، اسی سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھا، جو مولا علی (ع) کے دور میں ساتھ تھا، ان میں سے کوئی امام حسین (ع) کے خلاف میدان میں آیا، کوئی مولا علی (ع) کے دور میں ان کے ساتھ نہیں تھا، لیکن امام حسین (ع) کی حمایت میں آیا۔ پریکٹیکل زندگی کی یہ حقیقت کنفیوزڈ افراد کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔

لبنان میں امام موسٰی ال صدر کی حزب مستضعفین سے موجودہ حزب اللہ تک، عراق میں آیت اللہ باقر الصدر کی حزب الدعوہ سے موجودہ شیعہ دینی جماعتوں تک، بحرین کے شیخ عیسٰی قاسم کی علماء تنظیم سے شیخ علی سلمان کی الوفاق تک، پریکٹیکل شیعہ خیالی پلاؤ پکانے کے بجائے حالات کی بہتری کے لئے سیاسی میدان میں فعال ہیں۔ ان کے اتحادی کب کب کون کون ہوتے ہیں، اور کب وہ تبدیل ہوجاتے ہیں؟ ہمیں ان سارے پہلوؤں پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایران کا تذکرہ کیوں نہیں کیا، تو یہ واضح کر دوں کہ شہید مرتضٰی مطہری، شہید جواد باہنر وغیرہ بھی جماعتوں اور تنظیموں کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد میں مصروف رہے تھے۔ امام خامنہ ای بھی باہنر شہید کی حزب جمہوری اسلامی کے پلیٹ فارم پر کافی عرصہ متحرک رہے۔

انقلاب اسلامی کی کامیابی تک ایران کے سیاسی اتحادوں کی تاریخ پڑھ لیں، بنی صدر کون تھا؟ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد صدر بننے تک یہ کس کا اتحادی تھا، وہ لوگ جنہوں نے حکومت اسلامی کے قیام کے اوائل میں خیانت کی، وہ کون تھے؟ بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں آیت اللہ حسن مدرس اور 1950ء کے عشرے میں آیت اللہ کاشانی کس طرح بادشاہی حکومت کے دور میں پارلیمانی سیاست میں فعال کردار ادا کرتے تھے۔ کیا وہ حکومتیں حسینی حکومتیں تھیں؟ کیا وہ نظام حسینی نظام تھا؟ کیا لبنان، بحرین میں حسینی حکومت ہے؟ وہاں پاکستان سے زیادہ خراب صورتحال ہے۔

اتحاد مشترکات پر بنتے ہیں، اختلافی معاملات میں اتحادی آزاد ہوتے ہیں یا کوئی ضابطہ ترتیب دیتے ہیں۔ امام خمینی کے بت شکن فرزند پاکستان کے خمینی علامہ عارف حسین الحسینی کی حکمت عملی کے عنوان کے تحت بندہ ایک مقالہ لکھ چکا ہے۔ اس کی روشنی میں کوئی آدمی یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ پاکستانی سیاست سے یا الیکشن سے لاتعلق ہوجائے۔ لہٰذا وہ شیعہ تنظیمیں اور جماعتیں جو ملکی سیاست میں کسی بھی حد تک فعال ہیں، ان سے عوام کو بیزار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو تھوڑی بہت یزیدی نظام کی مخالفت ہو رہی ہے وہ بھی ختم ہوجائے! اگر یہ مکتب جنرل ضیاء کے دور میں ہوتا تو وہ بخوشی اس کی سرکاری سرپرستی کرتے۔ شیعوں کو یہی نظریہ دے کر گمراہ کیا جاتا رہا ہے کہ سیاست ان کے کس کام کی؟ امام خمینی (رہ) کو بھی تو شہنشاہ ایران کے چمچوں نے یہی کہا تھا کہ آپ اس گند میں کیوں ہاتھ ڈالتے ہیں۔

بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر رضا تقوی امریکی قونصلیٹ پر لبیک یارسول اللہ (ص) کا پرچم نصب کرتے ہوئے شہید ہوجاتا ہے تو اسے جذباتی کام قرار دے کر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، دیگر تنظیمیں ریلیاں اور عوامی اجتماعات کرتے ہیں تو ان پر تنقید ہوتی ہے، لیکن خود بھی ویسا ہی اجتماع کرتے ہیں۔ یہ قول و فعل کا ایک ایسا تضاد ہے جس کی مکتب اہلبیت (ع) میں کوئی اجازت نہیں۔ کسی کے عادل ہونے کی کم سے کم نشانی یہ ہے کہ وہ دوسروں کو ایسی بات سے منع نہیں کرتا جو وہ خود کرتا ہے۔ شہید رضا تقوی مجلس وحدت مسلمین کے ایک شیعہ سیاسی کارکن تھے۔ علامہ عارف حسینی کی تحریک جعفریہ کے مجاہد شیخ الشہداء مظفر کرمانی کی پوری زندگی سیاسی شیعت پر گذری۔ اپنی ذات میں انجمن اس عظیم آدمی نے کبھی بھی خیالی پلاؤ نہیں پکائے اور لوگوں کو کنفیوزڈ نہیں کیا بلکہ واضح صراط مستقیم دکھا دی۔ بعد میں جس بات پر ان کا اختلاف ہوا وہ بھی ولایت فقیہ کی اطاعت میں ہوا تھا، ذاتی اختلاف کسی سے نہیں تھا۔ لیکن تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ شیخ الشہداء مظفر کرمانی کے جنازے میں ان کے قریب تصور کئے جانے والی ایک اہم شخصیت نظر نہیں آئی!

شہید محمد علی نقوی بھی تحریک جعفریہ کے سیاسی کارکن تھے۔ مفتی جعفر حسین سے لے کر علامہ صفدر نجفی تک، علامہ ضیاءالدین رضوی شہید سے علامہ علی موسوی تک، علامہ حیدر علی جوادی سے علامہ شیخ حسن صلاح الدین تک نامور و بزرگ علماء بھی سیاسی شیعہ رہنما تھے اور ہیں۔ جنرل ضیاء سے اپنا حق مانگنے وہ بھی گئے۔ علامہ حسن ترابی شہید کو دیکھیں، ان کے سیاسی کردار کی برکت تھی کہ دیوبندی علماء بھی کسی شیعہ عالم کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے، ایسا علامہ عارف حسینی کے جنازے میں بھی نہیں دیکھا گیا۔ علامہ عارف حسینی دیوبندی مولویوں سے بھی رابطے کر رہے تھے، تاکہ مکتب قرآن و اہلبیت (ع) کا وہ روشن چہرہ غیر شیعہ حضرات پر واضح کریں جو کہ اصل میں ہے، لیکن غلیظ پروپیگنڈا نے اس پر غلاف چڑھا دیا تھا۔

کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، لیکن میں نے یہ بروقت لکھ دیا کہ میں اس مارچ کو انقلاب مارچ نہیں سمجھتا۔ اس کا انجام میری بات کو ثابت کرے گا۔ بندہ عرض کرچکا کہ اس کا مثبت پہلو شیعہ سنی اتحاد ہے، تکفیریوں کی تنہائی ہے، شیعہ مسلمانوں کی قومی دھارے کی سیاست میں واپسی ہے۔ اس مارچ کی کامیابی اس کا اسلام آباد پہنچنا، پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دینا اور آج 21 اگست کی رات تک ثابت قدمی سے میدان عمل میں موجود رہنا ہے۔ مولا علی (ع) کا یہ قول لکھا جاتا ہے کہ ظالم کی ہرحال میں مخالفت کرو اور مظلوم کی ہر حال میں مدد کرو، کیا سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بے گناہ مسلمانوں کا ماورائے عدالت قتل ظلم نہیں، کیا اس ظلم کے خلاف مظلوم کا ساتھ دینا غلط عمل ہے؟ مجلس وحدت مسلمین نے اپنے 4 مطالبات اتحادیوں سے منوائے ہیں اور ان کے دس نکات کی حمایت کی ہے۔ علامہ ساجد نقوی نے مطالبات کو جائز قرار دے کر افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے کی تاکید کی ہے۔ علامہ حامد موسوی نے بعض خدشات ظاہر کئے ہیں، جو صحیح بھی ثابت ہوسکتے ہیں، لیکن غیب کا علم اللہ جانتا ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سیاست ہی نہیں بلکہ اقتدار بھی پاکستانی شیعوں کے لئے شجر ممنوعہ نہیں ہے، یہ ایک ذریعہ ہے اہداف کے حصول کا۔

امت اسلام ناب محمدی کے عظیم فرزندوں سے درخواست ہے کہ اللہ سے پرامید رہیں، حسن ظن رکھیں۔ لیکن زیادہ لمبی امیدیں نہ باندھیں، مجھے انقلاب نظر نہیں آرہا۔ اگر حکومت تبدیل بھی ہوجائے تو یہ نقلاب نہیں کہلائے گا۔ شہنشاہ وفا قمر بنی ہاشم حضرت عباس علمدار علیہ السلام کا علم پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے بلند ہوا اور لہرایا، اس میں لبیک یاحسین علیہ السلام کے نعرے لگے اور سنی بریلویوں نے شیعہ مسلمانوں کی وفا پر اظہار تشکر کیا۔ ہمارا زاویہ نظر یہ ہے کہ یہ اتحاد امت کا ایک عظیم الشان مظاہرہ ہے۔ پریکٹیکل لوگ میدان عمل میں رہتے ہیں۔ جو دوست کہتے ہیں کہ یہ نظام یزیدی ہے تو پھر اس کے مقابلے میں فیس بک کی خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری کے لئے کربلا میں حاضر و موجود رہنا ہوگا۔ تحرک پیدا کرنے کے لئے شریعتی کی تحریریں ہی بہت ہیں، جو میری رائے کے مخالف ہیں وہ متبادل بتائیں؟ یہ بھی غلط، وہ بھی غلط، صحیح کیا ہے؟ کان کو چہرے کے سامنے سے پکڑنا غلط اور وہی ہاتھ سر کے پیچھے سے گھما کر پکڑنا شاید درست ہے!
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے ہر زماں جو اپنے عمل کا حساب
خبر کا کوڈ : 406096
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سلام
اب کوئی یہ نہ کہے کہ ربط نہیں ہے۔ ربط یہ ہے کہ اگر شیعہ اس نظام میں شامل ہوجائیں تب بھی ان پر تنقید جائز نہیں، چہ جائیکہ ابھی تک تو حزب اختلاف بن کر سیاست کر رہے ہیں۔ ثاقب
جی ہاں شہید مظفر کرمانی نے بھی الیکشن میں حصہ لیا تھا اور غالباً تحریک جعفریہ کے سارے امیدواروں میں سب سے زیادہ ووٹ بھی حاصل کئے تھے، یہ سنت کرمانی شہید ہے کہ سیاست میں شیعہ کردار ادا کریں۔
ہاہاہا۔ تحرک پیدا کرنے کے لئے شریعتی کی تحریریں ہی بہت ہیں، مکتب لفاظی کوئی عمل بھی کرکے دکھائے۔ علی بن یقطین نے امام معصوم کے حکم پر رسم شبیری ہی انجام دی ہوگی۔ یا فیس بک کی خانقاہ میں بیٹھ کر شریعتی بننے کی ناکام کوشش کرنا رسم شبیری ہے۔ ناصر
مکتب لفاظی کی یہ رائے سامنے آئی کہ بنو امیہ کے خلاف بنو عباس کا دھرنا، اب اگر یہ بنو عباس کے حامی ہیں تو پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ اس دور میں علی بن یقطین اور ان جیسے دیگر بھی تھے۔ اور پھر اس سیاست میں شیعوں کا بڑا اہم کردار بھی تھا۔ فہیم
کیا مکتبیوں کی طرف سے انقلابی سیاست کو راه حل کے طور پر پیش نہیں کیا گیا تھا؟
بہرحال اب بھی موقع ہے کشتیاں جلا کر حسینی سیاست کیلئے تگ و دو شروع کر دی جائے۔
ہاہاہا۔ بھائی آپ ذرا بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق والی کیفیت میں میدان عمل میں تو آئیں، تھیوری ہر کوئی پیش کر دیتا ہے، عمل کہاں ہے؟ پوری دنیا میں امت حزب اللہ کی ایک ہی روش اور آپ کی خیالی انقلابی سیاست دوسری طرف، آپ پریکٹیکل کرکے دکھائیں، کوئی تو ایسی چیز ہو جو دوسروں سے منفرد ہو۔ میگزین شایع کرنا، فیس بک پر فعالیت، نشتر پارک، دیگر مقامات پر برسی و کانفرنس، آپ کریں تو انقلاب آجاتا ہے، علامہ ساجد نقوی اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے چاہنے والے کریں تو جذباتی کام ہوجاتے ہیں، جمود آجاتا ہے! فاعتبرو یا اولی الابصار، ہمارے پاس جلانے کے لئے کشتیاں بچی ہی کہاں ہیں، آپ کو جو جبل الطارق نظر آرہا ہے اور آپ نے جو کشتیاں جلائی ہیں وہاں کی لوکیشن بتائیں، تاکہ پوری ملت آکر دیکھ لے۔ اسلام اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے، دوسروں کے آسرے پر نہیں، ہم نے پوری زندگی اپنے آپ پر اور اللہ پر بھروسہ کیا ہے، حکمت عملی دوسروں کے آسرے پر نہیں بنتی۔ معذرت اگر کوئی بات بری لگے مگر دلیل سے بات کریں۔ علامہ عارف حسینی کی سیاست اگر حسینی ہے تو پھر بات واضح ہے میرے بھائی۔
سید رضا
میں کسی جماعت یا تنظیم میں فی الوقت شامل نہیں لیکن اس تعمیری فکر کو سراہوں گا، منطقی و مدلل زاویہ نظر پر عرفان علی صاحب کی تعریف نہ کرنا بخل ہوگا۔ یہ ایک اہم ایشو ہے، مجھے یہاں ایک رائے نظر آئی وہ کمزور ہے کیونکہ کشتیاں جلانا اور حسینی سیاست کے لئے تگ و دو کرنا والی بات جو کر رہا ہے وہ یہ کہہ رہا ہے کہ موجودہ شیعہ قائدین ایسا نہیں کر رہے تو پھر آپ خود بتائیں کہ کرنا کیا ہے، کس کے پیچھے کرنا ہے، کہاں کرنا ہے، کب کرنا ہے؟ متبادل تو پیش کریں، اس کا عملی نمونہ تو بتائیں۔ خود ہی بتا دیں کہ علی بن یقطین کی سیاست حسینی نہیں تھی؟ ذرا سنبھل کے بھائی، یہاں معصوم ہستیوں کی روش بھی بیان کی گئی ہے، اب اس کے مقابلے میں مبہم بات نہ کریں، اللہ سے ڈریں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے خدانخواستہ کیا کوئی غلط کام کر دیا تھا، ایسی بات سوچنا بھی آپ کو شیعت سے خارج کر دیتا ہے۔
عباس علی
کشتیاں جلانے والے بھائی کی خدمت میں ایک لطیفہ کہ ایک سردار صاحب کو خودکش حملے کی تربیت دی گئی، وہ بار بار موبائل پر ماسٹر مائنڈ کو بتا رہا تھا اور اسے کہا جا رہا تھا کہ جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ موجود ہوں، وہاں حملہ آور ہوجائے، اس نے بازار میں رش والی جگہ جا کر نعرہ لگایا اور اپنی کرپان سے خود کو مار ڈالا، یہ ہوتا ہے خودکش حملہ جس سے دوسرا کوئی نہیں مرتا۔
Pakistan
عرفان بھائی اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے۔ بے حد اہم ایشو ہے اور آپ نے یہ تحریر لکھ کر ملت کی بڑی خدمت کی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ سیاست اسلام کا جز لاینفک ہے، ہر حال میں سیاست کے عملی میدان میں حاضر رہنا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اپنی من مانی کی وجہ سے آپ سیاست سے دور رہیں یا ساقط کرکے بیٹھ جائیں یہ حماقت و بزدلی ہے اور خانقاہیت اپنا کر فقط بڑی بڑی عمارتیں بنانے میں مصروف رہیں، اپنی ذاتی تشہر کی خاطر کروڑوں روپے خرچ کر ڈالیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ اور غریب عوام و مومنین بھوک سے مریں، ایک ایک روپے کو ترسیں، ہمیں ہر حال میں ہر سیاسی نظام میں اپنے حقوق کا خیال رکھنا ہوگا۔ ویسے شیعہ خون کی قیمت کا ڈھول پیٹنے والے نے کیا کیا ہے ملت کے لیے؟ آئے روز مومنین کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا جاتا ہے۔۔۔۔اخلاق کا درس دیتے کہیں تھکتے نہیں اور ایک مسلک کے عالم کو مداری اور نا جانے کیا کیا کہا جاتا ہے؟ کیا یہی ہے سیرت معصومین [ع]۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ اپنے سوا ہر عالم دین و پوری دنیا کو غلط کہنا کہاں کی عقل مندی ہے۔۔۔؟؟؟
محمد وسیم علی
ہماری پیشکش