2
0
Monday 21 Apr 2014 23:14

کراچی میں بے امنی کا پس منظر (1)

کراچی میں بے امنی کا پس منظر (1)
تحریر: عرفان علی 

باوجود اس حقیقت کے کہ بندہ شہروں کی دلہن (عروس البلاد) کے گذشتہ 26 سال کے حالات کا چشم دید گواہ ہے، اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ کراچی کی صورت حال پر لکھنا کوئی آسان کام نہیں۔ سبب اس کا یہ ہے کہ کراچی کے مسائل کی تاریخ اس سے زیادہ پرانی ہے۔ دلاور فگار نے 1990ء کے عشرے میں ایک زبردست شعر کہا تھا : ’’حالات حاضرہ کو کئی سال ہوگئے!‘‘ 1988ء میں کراچی کے حالات اور ان کے اسباب پر وہ یہ لکھنے پر مجبور ہوئے:
اخلاق کی پستی میں اگر یونہی گرا شہر 
اندیشہ ہے بیروت نہ بن جائے میرا شہر

بشریٰ زیدی کی حادثاتی موت کے بعد جو لسانی کشیدگی پیدا ہوئی تھی وہ 1986ء میں سہراب گوٹھ پر فائرنگ سے مزید شدید ہوئی اور سانحہ علی گڑھ اورنگی ٹاؤن نے اس آگ کو اتنی ہوا دی کہ سب خاکستر ہوگیا۔ اسی لئے خاور نظامی یہ لکھنے پر مجبور ہوئے:
حالات حاضرہ کا سبب کچھ نہ پوچھئے
کیا ہو رہا ہے شہر میں اب کچھ نہ پوچھئے 
لبنان کا سماں تھا کراچی میں اس گھڑی 
ہرسو دھواں دھماکے تھے جب، کچھ نہ پوچھئے


ملاحظہ فرمائیں، کیا ایسا نہیں لگتا جیسے یہ اشعار آج ہی لکھے گئے ہوں۔ ہم پاکستان کے کماؤ پوت کراچی کی پرانی تاریخ کی بات کر رہے تھے، جس کے بارے میں صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک میں پیدا ہونے والے سابق گورنر سندھ لیفٹننٹ جنرل (ر) جہانداد خان نے ’’پاکستان: قیادت کا بحران‘‘ میں لکھا کہ یہ آباد کار جنہیں مہاجر کہا گیا، بہتر تعلیم یافتہ تھے، سرکاری ملازمت پر مہاجر مقرر تھے۔ بینکوں، بیمہ کمپنیوں اور متعدد خود مختار اداروں کی آسامیاں بھی انہی کے قبضے میں تھیں۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کے دور میں بیشتر عہدوں پر مہاجر ہی فائز تھے۔ انکی شہادت اور سیاسی صورتحال میں تبدیلی کے بعد کراچی پر مہاجرین کا تسلط خطرے میں پڑگیا۔ ’’مہاجروں کو سب سے پہلا صدمہ اس وقت پہنچا، جب ایک یونٹ کا قیام عمل میں آیا اور کراچی کی صوبائی صدر مقام کی حیثیت ختم ہوگئی۔ سیاسی اور انتظامی مرکز لاہور منتقل ہوگیا اور لوگوں کو مقامی مسائل کے حل کے لئے بھی لاہور جانا پڑا، جس سے مہاجروں پر نہایت ہی برا اثر ہوا۔ کراچی جسے وہ اپنا شہر سمجھتے تھے، اپنی اہمیت کھو چکا تھا۔ وہاں مسائل کے انبار لگتے رہے۔‘‘

’’وہ دوسرے صدمے سے اس وقت دوچار ہوئے، جب ایوب خان نے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد پاکستان کے صدر مقام کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا۔ بیشتر وفاقی ملازمتوں کو شمال کے لوگوں سے پر کیا گیا۔ صدر مقام کی تبدیلی کے سبب ہزاروں مہاجر ملازمتوں سے محروم ہوگئے۔ صورت حال اس وقت مزید ابتر ہوگئی جب غیر ہنرمند، ہنر مند بلکہ دفاتر میں کام کرنے والے افراد کا ایک سیلاب شمال سے کراچی آنے لگا اور مہاجروں کو مقامی ملازمتوں میں بھی سخت مقابلہ کرنا پڑا۔ مغربی پاکستان کے قیام اور لاہور صدر مقام ہونے کے سبب صوبائی ملازمتوں میں بھی مہاجروں کو ملازمتیں ملنا دشوار ہوگئیں۔‘‘

جہانداد خان مزید لکھتے ہیں کہ ’’اس کے ساتھ ساتھ شمال سے آنے والوں نے احساس برتری کا اظہار شروع کر دیا۔ وہ کراچی کے باشندوں کو بہ نظر حقارت دیکھنے لگے۔ اس طرح مہاجروں اور شمال خصوصاً پنجاب اور صوبہ سرحد سے آنے والوں کے مابین تعصب کی خلیج جو پہلے سے موجود تھی، روز بروز وسیع تر ہوتی گئی۔ محنت مزدوری کے مواقع بھی ان کے لئے کم ہوتے گئے۔‘‘ انہوں نے بھٹو دور کی پی پی پی حکومت کو مہاجروں کے لئے تیسرا صدمہ قرار دیا، کیونکہ اس دور میں لسانی بل اور کوٹہ سسٹم متعارف کروایا گیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مہاجروں کے خلاف وزیراعلٰی سندھ ممتاز بھٹو کے شدید اقدامات کے حامی نہیں تھے۔ مزید لکھا کہ اسی کشیدگی اور دھمکیوں کے ماحول میں الطاف حسین مہاجروں کے رہنما کی صورت میں سامنے آئے۔

اس کے بعد کی تاریخ سب کے سامنے ہے کہ کیسے جنرل ضیاء کے دور میں مہاجر سیاست کا نعرہ بلند کیا گیا۔ جہاں تک بندہ سمجھ پایا ہے، پورے پاکستان ہی میں یہ مسئلہ موجود ہے کہ ملک کا کنٹرول ’’ہمارے‘‘ ہاتھ میں ہو، کراچی شہر بھی اسی نوعیت کی صورت حال سے دوچار ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قیام سے پہلے اردو زبان بولنے والوں کی شناخت کے لئے مہاجر کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی، کراچی کے یہ مہاجر جمعیت علمائے پاکستان اور جماعت اسلامی کو سیاسی مینڈیٹ دیتے تھے۔1987ء کے بلدیاتی اور 1988ء کے عام انتخابات سے لے کر پچھلے عام انتخابات تک جتنے بھی الیکشن میں ایم کیو ایم نے حصہ لیا، اردو زبان عرف مہاجر مینڈیٹ اسی کو ملا۔ لہٰذا الطاف حسین کی ایم کیو ایم، اردو بولنے والی آبادی کے لئے شاہ احمد نورانی کی جے یو پی اور سید مودودی کی جماعت اسلامی کا متبادل قرار پائی۔

یعنی لسانی تعصبات نے اردو زبان بولنے والوں کو لسانی بنیادوں پر سوچنے پر مجبور کر دیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایم کیو ایم کی بانی تنظیم اے پی ایم ایس او (آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) نے اپنے تنظیمی لٹریچر میں مہاجر شناخت اپنانے کی توجیہ کی تھی کہ انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان میں آباد ہونے والوں کو پاکستان میں پناہ گیر، مکڑ، بھیا، تلیر اور مٹروا کہا گیا۔ ایک اور اصطلاح بھی تھی جسے وہ بھول گئے ،،’’ہندوستانی‘‘! تعلیمی اداروں میں داخلہ اور ملازمتوں کے حصول میں مشکلات نے اے پی ایم ایس او کو مستحکم کرنے میں بنیادی عامل کا کردار ادا کیا۔ پھر یہ ہوا کہ اردو زبان بولنے والوں کے نام پر سیاست کرنے والوں کا تقریباً تمام لسانی گروہوں سے تصادم ہوا۔ کوئی مانے یا نہ مانے جس طرح سندھ کارڈ پی پی پی سے کوئی چھین نہیں سکا، اسی طرح اردو کارڈ کی سیاست پر ایم کیو ایم کا قبضہ ہے۔

فوجی، نیم فوجی اور پولیس آپریشن اور مہاجر نظریے کی ملک گیر ناکامی کے پیش نظر ایم کیو ایم نے خود کو متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل کرلیا، جبکہ مہاجر قومی موومنٹ کا نام آفاق احمد استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے گروپ کو ایم کیو ایم حقیقی کہا جاتا تھا۔ اردو سیاست کا خوفناک انجام یہ نکلا کہ خود اردو زبان بولنے والے ایک دوسرے کے مقابلے پر اتر آئے اور کراچی کے گلی کوچوں میں ایک دوسرے کا خون بہانے لگے۔ ایم کیو ایم، پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کی حکومتوں میں اتحادی بھی رہی، مال بھی کھاتی رہی اور ساتھ ساتھ مار بھی۔ اقتداری سیاست ایم کیو ایم کی مجبوری قرار پائی۔ پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے سے پہلے ایم کیو ایم اپنی مظلومیت کا رونا روسکتی تھی، لیکن پرویز مشرف کے دور اقتدار میں اسے وہ سب کچھ مل گیا جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ حتیٰ کہ سندھ کے وزیر داخلہ کا اہم عہدہ بھی انہیں دیا جانے لگا۔ آصف زرداری کے دور صدارت میں پی پی پی، ایم کیو ایم مثالی تعلقات قائم ہوئے۔ پرویز مشرف نے کہا تھا کہ انہوں نے ایم کیو ایم سے ڈیل کرکے کراچی کا امن خرید لیا ہے۔ صدر زرداری کا کہنا تھا کہ (نادیدہ قوتوں کی سازشوں کے سبب) 15 ہزار انسانوں کے قتل کا خدشہ تھا، اسی لئے انہوں نے قومی مفاہمت کے ذریعے سازشی عناصر کو ناکام بنانے کی حکمت عملی وضع کی۔ ایم کیو ایم کو بہت کچھ ملا، لیکن کراچی میں امن قائم نہ ہوسکا۔

کراچی کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود ایم کیو ایم بعض علاقوں میں داخل نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح ایم کیو ایم کے مضبوط گڑھ میں دیگر جماعتیں داخل نہیں ہوتیں۔ کراچی کی بلا شرکت غیرے دوسری بڑی جماعت پی پی پی ہوا کرتی تھی، لیکن اب اس دوسری بڑی جماعت کی بغل میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز بھی کراچی میں بعض اراکین اسمبلی منتخب کروانے میں کامیاب ہوچکی ہیں۔ یہ جماعتیں مار دھاڑ کی سیاست کی قائل نہیں ہیں، لیکن پی پی پی کے مضبوط گڑھ میں لیاری امن کمیٹی نے ڈیرہ جما لیا ہے۔ وہ چاہے تو پی پی پی کو بھی لیاری میں داخلے سے روک سکتی ہے۔ پی پی پی کے صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کی لیاری امن کمیٹی سے بڑی دوستی تھی، لیکن اب ان کے متحارب گروہ مصالحت کے لئے رسول بخش پلیجو کے بیٹے ایاز لطیف پلیجو کے پاس جاتے ہیں۔ لیاری میں بلوچ بلوچ سے بھی لڑ رہا ہے اور بلوچ کچھی برادری کے سندھیوں کو بھی نقل مکانی پر مجبور کرچکا ہے۔ پولیس اور رینجرز بھی بعض علاقوں میں نہیں جاتے۔ میڈیا لیاری گینگ وار کی بھرپور کوریج کر رہا ہے۔ لیاری میں کبھی بابو ڈکیت مشہور تھا، پھر رحمان ڈکیت آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مجید دھوبی، غفار ذکری، بابا لاڈلا، ارشد پپو اور ان سب سے اوپر عزیر بلوچ کا نام آگیا۔ کئی مارے گئے، پکڑے گئے اور کئی باہر ہیں۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 375163
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
بے امنی غلط ہے
صحیح لفظ نا امنی ہے
Salam. mae ne naa amni he likha thha magar aik Urdu akhbar ke editor ne daikh kr aitraz kiya keh be amni likhaen.unki baat bhu durust hay kyookeh pakistani sahafat mae bad amni jaisa ghalat lafz bhi istemal hota hay aur ab be amni ka istemal shuroo hua hay. qissa mukhtasar mae bhi isko naa amni he kehta hoo magar majboori hay.lehaza maazarat.
ہماری پیشکش