0
Friday 28 Mar 2014 21:35

انسانی حقوق مغرب کا منفرد ہتھیار

انسانی حقوق مغرب کا منفرد ہتھیار
تحریر: محمد علی نقوی

انسانی حقوق کا مسئلہ ایران اور دین اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کے ایک حربے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر احمد شہید کی مخاصمانہ رپورٹ جاری ہونے کے بعد انسانی حقوق کونسل میں یورپی یونین کے نمائندے کوئسٹینن  koistinen نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے سلسلے میں تعاون کرے۔ انھوں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں احمد شہید کی رپورٹ میں ذکر شدہ بعض جھوٹے دعووں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایران میں سزائے موت کے واقعات میں اضافے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کوئسٹینن koistinen نے مزید کہا ہے کہ یورپی یونین کو ایران میں متعدد سیاسی قیدیوں اور اقلیتوں کے دینی حقوق کی پامالی پر تشویش لاحق ہے۔

انسانی حقوق کا ناقدانہ جائزہ ایک مفید اور اچھا موضوع ہے، اور اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی بارہا ثابت کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق حقیقی تشویش کو دور کرنے کے لئے ضروری صلاحیتوں کا حامل ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام بھی کوشاں ہیں کہ انسانی حقوق کی اقدار کے ارتقاء میں مؤثر اور مفید نظریات کے ظہور کا راستہ ہموار کیا جائے۔ ایران کی عدلیہ کے حکام نے بارہا اس نکتے پر تاکید کی ہے کہ یورپ انسانی حقوق کے مسئلے کے بارے میں سیاست بازی سے اجتناب کرے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف یہ ہے کہ انسانی حقوق کا مسئلہ بین الاقوامی اہمیت کا حامل ہے، لیکن اس مسئلے کے بارے میں اس کے اپنے نظریات ہیں، جن کو وہ عالمی پلیٹ فارموں سے بیان اور حقیقی انسانی حقوق کا دفاع کرچکا ہے۔
 
ایران میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی رپورٹر احمد شہید نے بھی اب تک بزعم خویش ایسی رپورٹیں پیش کی ہیں، جن میں ان کے بقول ایران میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بیان کیا گيا ہے، لیکن ہمیشہ ان رپورٹوں اور یورپ کے ایران مخالف اقدامات کے درمیان ایک تعلق رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دوسری اقوام کے ذخائر کی لوٹ مار کرنے والے ممالک کس طرح دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کے دفاع کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ یورپ کی اس پالیسی کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ انسانی حقوق کے موضوع سے ناجائز سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔ دنیا بھر کی اقوام جانتی ہیں کہ انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والے امریکہ اور یورپی ممالک نے انسانی حقوق اور دہشتگردی کے سلسلے میں دوہرا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام، وقار اور مساوات پر مبنی ہے،جبکہ انسانی حقوق کے حوالے سے مغرب کا اپنا مخصوص معیار اور اس میں ایسا کھلا تضاد موجود ہے جسے ہر باشعور انسان بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔
 
اسی حوالے سے رہبر انقلات اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بڑا خوبصورت تبصرہ کیا تھا، آپ نے کہا تھا۔ "امریکیوں کو شرم نہیں آتی انسانی حقوق کی بات زبان پر لاتے ہوئے۔ دنیا میں کوئی بھی انسانی حقوق کی پاسداری کی بات کرتا ہے تو کرے، لیکن امریکیوں کو تو یہ دعویٰ کرنے کا حق نہیں ہے، کیونکہ انسانی حقوق کے سلسلے میں ان کا ریکارڈ سیاہ ہے۔ انسانی حقوق کو جس انداز سے انہوں نے پیروں تلے روندا ہے، اس کا غالباً نوے فیصدی یا اسی فیصدی حصہ دنیا کے لوگوں کی نگاہ سے پوشیدہ ہے۔ وہی دس بیس فیصدی جس سے لوگ واقف ہیں، ایک ضخیم کتاب کے اوراق کو سیاہ کر دینے کے لئے کافی ہے۔ گوانتانامو جیل سے سب واقف ہیں، عراق کی ابو غریب جیل کے بارے میں سب کو معلوم ہے، بلیک واٹر کمپنی کو سب دیکھ چکے ہیں، وعدہ خلافیوں کا تماشا سب دیکھ چکے ہیں، دروغگوئی سے سب واقف ہیں، ساری دنیا نے یہ چیزیں دیکھی ہیں اور وہ ہیں کہ اب بھی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں اور انہیں شرم بھی نہیں آتی! واقعی ان کے رویئے کا یہ گھٹیاپن بڑی عجیب چیز ہے۔"

بہرحال اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندے محسن نذیری اصل نے احمد شہید کی اس بے بنیاد رپورٹ کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے احمد شہید کی رپورٹ کو عالمی معیارات کے منافی قرار دیا اور کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ ان عالمی معیارات کی پابندی کرتا ہے اور وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ اور ان کی ترویج کا پابند رہا ہے۔ 
جیسے کے پہلے کہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران انسانی حقوق کے تحفظ اور ان کی ترویج کے سلسلے میں سنجیدہ ہے اور اس کی وجہ ایران کی اقدار اور نظریات ہیں۔ اسی موقف کی بنیاد پر ایران عالمی اداروں میں انسانی حقوق کے حقیقی دفاع کے لئے تجاویز پیش کرنے اور انسانی حقوق کا دفاع کرنے کے سلسلے میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔ سنہ دو ہزار تیرہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تشدد اور انتہا پسندی سے پاک دنیا کے سلسلے میں ایک تجویز پیش کی تھی، جس کو اکثریت کے ووٹوں کے ساتھ منظور کر لیا گيا تھا۔ یہ تجویز نہ صرف ملت ایران بلکہ دنیا کی تمام اقوام کے لئے بہتر مستقبل پر مبنی ایران کے نظریئے کا نتیجہ ہے۔
 
اس کے مقابلے میں یورپ کا رویہ کبھی بھی غیر جانبدارانہ اور مفید نہیں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق یورپ کی رپورٹیں نیک نیتی پر مبنی نہیں ہوتی ہیں۔ احمد شہید کی رپورٹ میں ایک پہلو سے ایران میں انسانی حقوق کا جائزہ لیا گيا ہے اور ایران نے بارہا احمد شہید کی رپورٹوں کا جواب دیا ہے۔ ایران میں سنگین جرائم کے لئے سزائے موت دی جاتی ہے۔ ان جرائم میں قتل، دہشتگردی، منشیات کی اسمگلنگ، ٹارگٹ کلنگ اور اغواء جیسے جرائم شامل ہیں۔ امریکہ سمیت یورپ میں بھی ایسے جرائم کی اسی سے ملتی جلتی سزا دی جاتی ہے۔ ایران میں اگر ان جرائم کی بناء پر سزائے موت دی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ایران دہشتگردی، انتہا پسندی اور  منشیات کی اسمگلنگ جیسے جرائم کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں پرعزم ہے۔ 

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں برطانیہ، کینیڈا، امریکہ اور فرانس کے نمائندوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا اور ایران کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیا، حالانکہ ان ممالک کے نامۂ اعمال انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ عراق اور افغانستان میں ابو غریب، بگرام نیز گوانتانامو جیل میں امریکی مظالم نیز کینیڈا، برطانیہ اور فرانس میں کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ایسے حقائق ہیں جن کے بارے میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں بات کی جانی چاہئے تھی، لیکن اقوام متحدہ کے رپورٹر نے انہی ممالک کے کہنے پر ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے، تاکہ یورپ کے لئے انسانی حقوق سے ناجائز فائدہ اٹھائے جانے کا راستہ بدستور ہموار رہے۔ ایران کے خلاف لگائے گئے الزامات کے پیچھےحقیقت وہی ہے جسکا رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے درج ذیل بیان میں ذکر فرمایا ہے، آپ فرماتے ہیں۔

"استکباری حکومتیں اور ان میں سرفہرست امریکہ وسیع و پیشرفتہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنے اصلی چہرے کو چھپا لیتے ہیں اور انسانی حقوق اور جمہوریت کی پاسبانی کے دعوؤں سے قوموں کی رائے عامہ کے سامنے فریب دینے والا برتاؤ کرتے ہیں۔ وہ ایسے عالم میں اقوام کے حقوق کا دم بھرتے ہیں کہ جب مسلم اقوام ہر دن اپنے جسم و جان سے ان کے فتنوں کی آگ کی تپش کا پہلے سے زیادہ احساس کرتی ہیں۔ مظلوم فلسطینی قوم پر ایک نظر جو دسیوں سال سے روزانہ صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کے جرائم کے زخم کھا رہی ہے، یا افغانستان، پاکستان و عراق جیسے ممالک پر ایک نظر جہاں استکبار اور اس کے علاقائی ہمنواؤں کی پالیسیوں کی پیدا کردہ دہشت گردی سے زندگی تلخ ہوکر رہ گئی ہے، یا شام پر ایک نظر جو صیہونیت مخالف مزاحمتی تحریک کی پشت پناہی کے جرم میں بین الاقوامی تسلط پسندوں اور ان کے علاقائی خدمت گزاروں کے کینہ پرستانہ حملوں کی آماجگاہ بنا ہے اور خونریز خانہ جنگی میں گرفتار ہے، یا بحرین یا میانمار پر ایک نظر جہاں الگ الگ انداز سے مصیبتوں میں گرفتار بے اعتنائی کا شکار ہیں اور ان کے دشمنوں کی حمایت کی جا رہی ہے، یا یا دیگر اقوام پر ایک نظر جنہیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے پے در پے فوجی حملوں، یا اقتصادی پابندیوں، یا سکیورٹی کے شعبے سے متعلق تخریبی کارروائیوں کے خطرات لاحق ہیں، تسلط پسندانہ نظام کے عمائدین کے اصلی چہرے سے سب کو روشناس کرا سکتی ہے۔ عالم اسلام میں ہر جگہ سیاسی، ثقافتی اور دینی شخصیات کو چاہئے کہ ان حقائق کے افشاء کی ذمہ داری کا احساس کریں۔ یہ ہم سب کا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔"
خبر کا کوڈ : 366866
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش