0
Monday 28 Jul 2014 15:04

جامعۃ النجف اسکردو کے زیراہتمام المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنیوالے بلتستان کے 3 علماء کے اعزاز میں تقریب

جامعۃ النجف اسکردو کے زیراہتمام المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنیوالے بلتستان کے 3 علماء کے اعزاز میں تقریب
رپورٹ: میثم بلتی 

المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی سے حال ہی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے تین دانشوروں علامہ ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی، علامہ ڈاکٹر فدا حسین عابدی اور علامہ ڈاکٹر شبیر حسین فصیحی کے اعزاز میں جامعۃ النجف اسکردو میں ایک محفل تجلیل کا اہتمام کیا گیا، جس میں علاقے کے محققین اور دانشوروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ افتتاحی خطاب میں جامعۃ النجف کے پرنسپل شیخ محمد علی توحیدی نے کہا کہ بلتستان کے جوانوں کے اندر زبردست صلاحتیں پائی جاتی ہیں لیکن تعلیمی و علمی مواقع فراہم نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں جوان ضائع ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر عابدی، ڈاکٹر فصیحی اور ڈاکٹر بشوی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان شخصیات کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جی بی کے لوگوں میں کس قدر صلاحیتیں پوشیدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تین شخصیات درجنوں تحقیقی کتابوں کے مصنف اور عالمی مقابلوں میں اولین پوزیشن حاصل کرنے والے ہیں۔ اس محفل سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ڈاکٹر یعقوب بشوی نے اپنے تحقیقی موضوع کے بارے میں کہا کہ میں نے جس موضوع پر تحقیق کی تھی وہ ایک جدید موضوع تھا اس لیے مطلوبہ مواد کا حصول بہت کڑا مرحلہ تھا۔ اسی وجہ سے میری اس تحقیق کو تخلیق علم قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے موضوع کا تعلق معاشرتی تبدیلیوں سے تھا جو بہت اہم موضوع ہے کیونکہ معاشرے کو پہچانے بغیر ہم معاشرے میں کوئی کام نہیں کر سکتے۔ میں نے اپنے مقالے میں معاشرتی تبدیلیوں کے اسباب و عوامل اور آثار و نتائج کا تحقیقی جائزہ لیا ہے اور ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے طریقوں کی نشاندہی کی ہے۔

دوسرے مہمان علامہ ڈاکٹر شبیر فصیحی نے کہا کہ اس محفل میں حاضر ارباب علم و تحقیق کی زیارت سے میری حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے موضوع کا تعلق اسلام کے عالمگیر تصور حکومت سے تھا۔ انہوں نے کہا کہ سافٹ وئیر کی جنگ ہتھیاروں کی جنگ سے زیادہ اہم اور سخت ہوتی ہے۔ میں نے شیعہ و اہل سنت کے نظریات کی روشنی میں عالمی حکومت کے تصور پر تحقیق کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا بنیادی تصور گھریلو زندگی سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ ایک باپ یا گھر کا سرپرست اور گھر کی سطح پر ایک مختصر سی حکومت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ جب ایک مثالی گھر کے لیے مثالی مینیجمنٹ کی ضرورت ہے تو پھر ایک بڑے ملک اور اس سے بڑھ کر پوری دنیا پر حکومت کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پوری دنیا کو ایک قیادت، ایک قانون، ایک نظام اور ایک پرچم تلے جمع کرنا اور اسے فلسفی و عقلی لحاظ سے ثابت کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ میں نے اپنے مقالے میں اسی تصور کا تحقیقی جائزہ لیا ہے کہ کیا قرآن و حدیث کی روشنی میں عالمی حکومت کا تصور ثابت ہوتا ہے یا نہیں؟ ہم نے اسی نکتے کو قرآن و سنت سے ثابت کیا ہے۔ دوسرا مرحلہ یہ تھا کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عالمی حکومت کے تصور پر کس قدر عمل ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہو رہی ہے جو ایک عالمگیر حکومت کے تصور کو عملی شکل میں ڈھال رہی ہے کیونکہ آج ایک آدمی ایک بند کمرے میں رہ کر بھی پوری دنیا سے مربوط ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا ایک دور میں عالمی حکومت کا اسلامی تصور ایک خواب اور محال تصور نظر آتا تھا لیکن جدید عالمی تبدیلیاں اس امکان کو حقیقت کا روپ دے رہی ہیں۔ انہوں نے معصوم کا یہ قول نقل کیا کہ تمامتر اختلافات کے باوجود دنیا ایک گھر کی طرح ہے۔ انہوں نے کہا عالمی حکومت کے لیے یقیناََ ایک سپر حاکم کا تصور ذہنوں میں آتا ہے جو قرآن و سنت کی روشنی میں "مہدی" ہے اور مہدویت کا تصور در اصل عالمگیر اسلامی حکومت کا تصور ہے۔

آخر میں علامہ ڈاکٹر فدا حسین عابدی نے اپنے مقالے کا تصور پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں سب سے پہلے جامعۃ النجف کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہماری حوصلہ افزائی کے لیے اس محفل کا اہتمام کیا۔ میرا موضوع تھا "اہل بیت کی علمی مرجعیت" میرا موضوع اختلافی موضوع رہا ہے لیکن میں نے اپنے مقالے میں تمام اختلافات کو مٹا کر تمام مسلمانوں کے نقطہ نظر کو ایک محور پر جمع کر کے وحدت اور الفت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں ابتدائی رہنمائی آیت اللہ بروجردی اور علامہ شرف الدین عاملی وغیرہ نے کی تھی۔ اس موضوع پر مقالے لکھے گئے تھے لیکن تفصیلی کتاب موجود نہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس سلسلے میں علامہ طاہر القادری کے گرانقدر افکار کا بھی جائزہ لیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ خلافتِ باطنی میں امام علی خلیفہ بلافصل ہے اور آخری خلیفہ امام مہدی ہیں جبکہ حضرت ابوبکر سیاسی طور پر خلیفۂ بلافصل ہیں۔ اس طرح انہوں نے امامت و خلافت پر موجود اختلاف کو دور رکھنے کی احسن کوشش کی ہے۔ آغا عابدی نے کہا کہ ہمارے مقررین امامت سے مراد صرف حکومت لیتے ہیں جس کی وجہ سے مذہبی اختلاف جنم لیتا ہے لیکن اگر امامت کا وسیع تر مفہوم لیا جائے جو حکومت سے ماوراء ہے تو اختلافات ختم ہو جاتے ہیں کیونکہ اہل بیت کی علمی و روحانی و دینی مرجعیت کو سارے مسلمان تسلیم کرتے ہیں۔ بلتستان کی علمی و تحقیقی شخصیت جناب محمد حسن حسرت نے اس محفل تجلیل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ہمارے علمائے کرام روایتی طریقہ علم سے نکل کر اب تحقیقی طریقہ علم کی شاہراہ پر گامزن ہو گئے ہیں۔ انہوں نے ان تین محققین کو تمام اہل دانش کی طرف سے ہدیہ تبریک پیش کیا اور جامعۃ النجف کا شکریہ ادا کیا کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے یہ قومی فریضہ ادا کر کے قوم کی ترجمانی کی ہے۔ آخر میں شیخ احمد علی نوری نے ان فاضل علمائے کرام اور دانشوران قوم کا اس پر وقار تقریب میں شرکت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
خبر کا کوڈ : 401983
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش