0
Monday 17 Feb 2014 00:01

جوہری مذاکرات کے نئے دور کے آغاز پر امریکہ کے بیہودہ دعوے

جوہری مذاکرات کے نئے دور کے آغاز پر امریکہ کے بیہودہ دعوے

اسلام ٹائمز- ایران اور ۵+۱ گروپ کے درمیان جوہری مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ مذاکرات کے گذشتہ دور میں طے پانے والے ۶ ماھہ معاہدے کے مطابق ایران پر بعض ذمہ داریاں عائد کئے جانے کے بدلے میں مغربی طاقتوں کی جانب سے اس کے خلاف جاری اقتصادی پابندیوں میں کچھ حد تک نرمی کر دی گئی۔ اسی طرح یہ بھی طے پایا کہ عنقریب حتمی معاہدے کے حصول کیلئے مذاکرات کا فائنل راونڈ بھی جلد شروع کر دیا جائے گا۔ ایسے مذاکرات جس کا مقصد دونوں فریقین کے بقول ایران کے خلاف جاری تمام بین الاقوامی پابندیوں کا خاتمہ ہے جن میں ایک طرفہ اور چند طرفہ پابندیاں بھی شامل ہیں۔

اب جبکہ ان جوہری مذاکرات کا نیا دور ۱۸ فروری بروز منگل کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں منعقد ہونے والا ہے امریکی حکام نے بحسب عادت نت نئے دعوے کرنا شروع کر دیئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان مذاکرات میں مخلص نہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کی نائب ترجمان نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران کے خلاف جاری پابندیوں کی اصل وجہ ایران کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور دہشت گردی کی حمایت ہے !

میری ہارف نے واشنگٹن میں صحافیوں کی موجودگی میں کہا:
"اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے اس وقت اپنی تمام تر توجہ اگلے ہفتے ویانا میں انجام پانے والے جوہری مذاکرات پر مرکوز کر رکھی ہے۔ مذاکرات کا یہ نیا دور ۱۸ فروری کو شروع ہونے والا ہے۔ بے شک ان مذاکرات میں بین الاقوامی جوہری توانائی کی ایجنسی کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔ ایجنسی ایران کے ساتھ تعاون کرنے میں مصروف ہے۔ ہم ان جامع مذاکرات کے دوران ایران سے تمام مسائل اور بین الاقوامی برادری کے تمام تحفظات کے بارے میں بات کریں گے۔ یہ وہ تحفظات ہیں جو بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور دوسرے اسناد و مدارک میں واضح طور پر بیان کئے گئے ہیں۔ لہذا ہم جانتے ہیں کہ کن مسائل پر بات کرنی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں بہت زیادہ کام انجام دینا ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ اگلے ہفتے کتنا کام انجام دے پائیں گے"۔

امریکی وزارت خارجہ کی نائب ترجمان نے ان مذاکرات کی مدت کے بارے میں کہا:
"میری نظر میں ہم چند محدود دنوں کیلئے وہاں جا رہے ہیں۔ ہمیں دیکھیں گے کہ عملی میدان میں کیا صورتحال پیش آتی ہے۔ گذشتہ دور میں مذاکرات صرف چند دن میں ہی ختم ہو گئے تھے۔ ویانا مذاکرات کے بعد ہماری مذاکراتی ٹیم اپنے ملک واپس آئے گی اور دوبارہ مذاکرات کیلئے وہاں سفر کرے گی۔ میرے پاس ان مذاکرات کو کوئی فکسڈ ٹائم ٹیبل موجود نہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ کچھ دن تک ہم وہاں رکیں گے"۔

لیکن ہارف کی گفتگو کا سب سے زیادہ اہم حصہ اس وقت سامنے آیا جب ایک صحافی نے اس سے امریکی وزیر خزانہ کی جانب سے بیان کئے گئے اس موقف کی وضاحت طلب کی کہ ایران عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے ساتھ ہمکاری اور تعاون کر رہا ہے اور ایران کے خلاف لگائی گئی پابندیوں کی اصلی وجہ بھی یہی ہے۔ اسی طرح اس صحافی نے آئندہ مذاکرات کے موضوعات کے بارے میں بھی سوال کیا۔ امریکی وزارت خارجہ کی نائب ترجمان نے یوں جواب دیا:
"ایرانی حکام اور ویندی شرمن کے درمیان انجام پانے والی گفتگو ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ہے۔ ہم بہت واضح انداز میں اور اعلانیہ طور پر کہ چکے ہیں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور دہشت گردی کی حمایت کی وجہ سے ایران کے خلاف موجودہ اقتصادی پابندیوں کو جاری رکھیں گے۔ میرا خیال ہے آپ کا سوال ان سے متعلق ہے جن پر گذشتہ ہفتے پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ ہم نے یہ نئی پابندیاں عائد کرنے سے پہلے ایرانی حکام کو اس بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔ لیکن ویندی شرمن کے ایرانی حکام سے مذاکرات صرف اور صرف ایران کے جوہری مسائل سے مربوط ہیں"۔

امریکی حکام کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور دہشت گردی کی حمایت کے بہانے ایران کے خلاف لگائی گئی پابندیوں کو جاری رکھنے کا کھلم کھلا اعلان اور اصرار، وہ بھی ایک جامع اور فائنل معاہدہ منعقد کرنے کی غرض سے مذاکرات کا نیا دور شروع ہونے سے چند ہی دن پہلے اپنے اندر انتہائی واضح اور البتہ انتہائی اہم پیغام لئے ہوئے ہے۔

جیسا کہ اس سے پہلے سیاسی ماہرین کئی بار مغربی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات انجام دینے اور امریکی حکام پر اعتماد کرنے سے متعلق وارننگ دے چکے تھے، امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے ان بیانات نے یہ سوال پیدا کر دیا ہے کہ اگر ایران کے خلاف لگائی گئی پابندیوں کو کسی نہ کسی بہانے جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے تو پھر فائنل معاہدے کی غرض سے برگزار ہونے والے مذاکرات کے اس دور میں کس بارے میں بحث اور گفتگو کی جائے گی؟ البتہ صرف میری ہارف کے بیانات ہی نہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جوہری مذاکرات کے مثبت نتائج سے زیادہ امید رکھنا حقیقت پسندی کے خلاف ہے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ایران کے ساتھ وائٹ ہاوس کے اختلافات کا دائرہ ہر گز جوہری پروگرام اور سرگرمیوں تک محدود نہیں ہوتا بلکہ جوہری تنازعہ درحقیقت اس عظیم اور بنیادی نظریاتی اور آئیڈیالوجیکل اختلاف اور تضاد کا بہت چھوٹا سا حصہ تشکیل دیتا ہے جو ایران اور امریکہ کے درمیان پایا جاتا ہے۔

اس امریکی رویئے کا ایک اور نمونہ چند دن پہلے امریکی حکام کی جانب سے ایران کے میزائل پروگرام سے متعلق بیانات میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایران کی جانب سے انقلاب اسلامی ایران کی ۳۵ ویں سالگرہ کے موقع پر کئی نئے میزائل ٹیسٹ فائر کئے گئے۔ امریکی حکام نے ان تجربات کے بارے میں انتہائی شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ایران کے ساتھ جاری مذاکرات میں ایران کا میزائل پروگرام اور اس کی فوجی صلاحیتوں جیسے موضوعات کو بھی گفتگو میں شامل کیا جائے اور ایران کو اس بارے میں ذمہ دارانہ رویہ اپنانا چاہئے۔

اس سے قبل امریکہ کی نائب وزیر خارجہ ویندی شرمن نے سینٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کی ایک میٹنگ میں تقریر کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف الزامات کی ایک لمبی چوڑی فہرست پیش کی اور امریکی سینٹ اراکین کو یہ یقین دہانی کروائی کہ آئندہ مذاکرات میں ایران کو ان تمام مسائل کے بارے میں جواب دینے پر مجبور کیا جائے گا! امریکی نائب وزیر خارجہ کی جانب سے اعلان کئے گئے ایران کے غیرقانونی اقدامات میں ایران کا میزائل پروگرام، لبنان اور افغانستان سمیت مشرق وسطی میں جاری سیاسی کشمکش اور بدامنی میں ایران کا ملوث ہونے، ایران کے اندر فتنہ انگیز عناصر کے ساتھ حکومتی برتاو، حزب اللہ لبنان اور فلسطین کے جہادی گروہوں کی حمایت وغیرہ شامل تھے۔

ان تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ امریکی حکام کی جانب سے جنیوا میں طے پانے والے عارضی معاہدے پر عملدرآمد اور ایران کے ساتھ جوہری تنازعہ سے متعلق ایک جامع اور فائنل معاہدے کے انعقاد پر اصرار اور ساتھ ساتھ اپنے تحفظات کے اظہار کی حقیقی وجہ اس امر میں پوشیدہ ہے کہ وہ ایک طرف تو اس معاہدے کی مدد سے اپنے بہت سے مطالبات منوانے میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اور دوسری طرف جب ان کی اپنی جانب سے معاہدے کی رو سے عملی اقدامات اٹھانے کی باری آتی ہے تو وہ آسانی سے یہ کہ کر اس سے خود کو بری الذمہ ظاہر کر سکتے ہیں کہ ایران کے خلاف لگائی گئی پابندیوں کا تو ایران کے جوہری پروگرام سے کوئی تعلق ہی نہیں، بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور ہیں۔ لہذا اس دوغلی پالیسی کی بنیاد پر وہ ایران کے خلاف پیدا کردہ سیاسی اور اقتصادی دباو کو مزید جاری رکھ سکتے ہیں۔ ایسے میں وہ آسانی سے یہ دعوی بھی کر سکتے ہیں کہ ایران کے ساتھ انجام پانے والے جوہری معاہدے کی پابندی کر رہے ہیں اور موجودہ اقتصادی پابندیوں یا سیاسی دباو کا ایران کے جوہری پروگرام سے کوئی تعلق نہیں۔

یہاں پہنچ کر امریکی کانگریس کے ۱۰۰ سے زائد اراکین کی جانب سے امریکی صدر براک اوباما کو لکھے جانے والے خط کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ انہوں نے اس خط میں جس پر ۱۰۴ اراکین کے دستخط موجود ہیں، امریکی صدر براک اوباما سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ انجام پانے والے جوہری مذاکرات کو جاری رکھیں۔ ان اراکین نے اس ضمن میں صدر براک اوباما کو یہ یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ وہ ایران کے خلاف نئی جوہری پابندیاں لگانے کی مخالفت کریں گے۔ امریکی کانگریس کے اراکین نے اپنے اس خط میں تاکید کی ہے کہ ہر ایسا اقدام کرنے سے گریز کیا جائے جو ایرانی حکام کو مذاکرات معطل کرنے کا بہانہ فراہم کر سکے۔
http://kayhan.ir/fa/news/5640

 

خبر کا کوڈ : 351826
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش