0
Tuesday 22 Apr 2014 13:18

ضلعی حکومتوں کی اپنی رعایا کے ساتھ زیادتیاں

ضلعی حکومتوں کی اپنی رعایا کے ساتھ زیادتیاں
رپورٹ: ایس این حسینی

ہماری حکومتیں خصوصی ضلعی حکومتیں اپنے متعلقہ عوام کے ساتھ اکثر زیادتیوں کی مرتکب ہوتی ہیں۔ ہر ظالم کے ساتھ یا کم از کم انکے ظلم پر خاموش رہتی ہیں اور مظلوم اور مستحق کو اپنے حق سے محروم رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں، پورے ملک کی طرح کرم ایجنسی کی بھی حالت یہی ہے۔ مقامی انتظامیہ یہاں رہائش پذیر مقامی اقوام کے ساتھ عرصہ دراز سے زیادتیاں کررہی ہیں۔ مقامی اقوام کا حق کبھی طالبان کو، کبھی نان لوکل افغانوں کو دینے میں شرم تک محسوس نہیں کرتیں۔ 2007ء سے کرم ایجنسی فرقہ ورانہ فسادات کا شکار رہی ہے، جس میں آج تک مقامی افراد یعنی طوری بنگش اقوام کے لگ بھگ 1800 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جس میں بچوں اور خواتین کی بھی ایک خاص تعداد شامل ہے، ان میں سے کچھ دو بدو مقابلے میں، جبکہ دو بدو مقابلے کی تاب نہ لاکر راستوں میں نہتے مسافروں کو چن چن کر قتل کیا گیا، اسکے علاوہ کچھ کو خودکش بم دھماکوں کے ذریعے شہید کردیا گیا اور یہ سب کچھ حکومت کی دیکھا دیکھی ہوا ہے۔ جبکہ حکومت کی کاہلی بلکہ جانبداری کے لئے یہی کافی ہوگا کہ ان واقعات میں ملوث افراد حتی کہ درجنوں افراد کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے والے افراد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی، بلکہ اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر انتظامیہ نے مقامی متاثر افراد پر اپنا غصہ نکالا ہے۔ یعنی مقامی اقوام نے جب کبھی اپنے ہی دفاع کے لئے معمولی سا قدم بھی اٹھایا ہے یا روڈ بلاک کیا ہے تو مقامی کٹھ پتلی انتظامیہ نے اکثر اوقات انکے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔ انہیں قید کرکے بھاری جرمانے عائد کئے ہیں۔

ایسے واقعات ویسے تو بہت زیادہ ہیں تاہم مشت از خروارے کے مصداق چند ایک کا یہاں ذکر کرتے ہیں۔
شورکو میں کئی دفعہ مقامی افراد کے مویشی چرائے گئے، چوری کے مرتکب افراد کا تعلق کوچی سے تھا، مقامی افراد نے حکومت سے کاروائی کا مطالبہ کیا تو انہیں ڈرایا دھمکایا جانے لگا، حتی کہ کئی افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔ جو بندہ جتنا زیادہ آواز بلند کرتا تھا انکی سزا اتنی ہی سخت نکلی، جن کے گھروں پر چڑھائی کرکے گھروں سے قیمتی اسلحہ اور نقدی لینے کے علاوہ مطالبہ کرنے والوں کو تین چار ماہ تک بغیر کسی وجہ کے حراست میں لیا گیا۔
شورکی ہی کے علاقے کے رہنے والے بعض لوگ ایک سال سے زیادہ عرصے سے قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں۔ رشتہ دار وجہ پوچھتے ہیں، حکومت کے پاس کوئی جواز نہیں جو بتا سکے۔ بالش خیل کے شیعہ سنی مقامی افراد کی ملکیتی زمین پر علاقہ غیر کے پاڑہ چمکنی قبائل کا قبضہ اور آباد کاری مسلسل جاری ہے، جبکہ سات ماہ قبل بالش خیل نے اپنی ہی زمین میں احتجاجا آبادکاری شروع کی تو انہیں جیل بھیج دیا گیا، جو آج تک جیل کاٹ رہے ہیں۔ بوشہرہ میں طوری قبیلے کے لوگ اپنے کھیتوں میں کام کررہے تھے، کہ ان پر طالبان نواز قبیلے کے شرپسندوں نے فائرنگ کردی۔ جس سے طوری قبیلے کے کچھ افراد زخمی بھی ہوئے، نتیجے میں لڑائی بھی شروع ہوئی، حکومت نے موقع پر پہنچ کر لڑائی تو بند کرائی، فریقین کو گرفتار کر لیا، مگر مخالف کو چھوڑ کر طوری قبیلے کو آج تک حراست میں رکھا ہے۔

چند ہی دن قبل ایک اور واقعے میں مزید طوریوں کو گرفتار کیا گیا۔ وہ یوں کہ زمین کی ملکیت کے سلسلے میں طوری قبیلے محکمہ مالیات سے رجوع کیا۔ پٹواری آئے، زمین طوریوں کی نکلی جس پر کئی سال سے طالبان کا ناجائز قبضہ تھا۔ نتیجے میں حکومت نے کاروائی کرکے طوری قبیلے کو مجرم قرار دے کر حراست میں بھی لیا۔ کہ تم لوگوں نے یہ حقیقت کیوں آشکار کی۔ چند دن قبل مالی خیل کے ملکیتی علاقے میں بوشہرہ کے بنگش قبیلے نے آباد کاری کی حامی بھری، جہاں پر آباد کاری سرے سے ممنوع ہے، اور عجیب بات یہ کہ انکے ساتھ اے پی اے اور تحصیلدار کا سارا عملہ بھی ساتھ تھا۔ مقامی مالی خیل قبائل نے احتجاج کیا تو اب انکے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے گئے ہیں۔ مقامی چیک پوسٹوں پر فوج اور ایف سی نے زیادتی شروع کردی ہے۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ مقامی قبائل سے کوئی خطرہ نہیں۔ مگر وہ افغانوں کے صرف شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں جبکہ مقامی افراد کے چھوٹے بڑوں اور بوڑھوں کے ساتھ عمائدین کو بھی اتارتے ہیں۔ معمولی سا تساہل دکھانے پر انکی بے عزتی کی جاتی ہے، اور انہیں جیل بھیج دیا جاتا ہے۔

ایف سی اور فوج جو علاقے میں امن کے قیام کا دعویٰ کرتی ہے۔ بغیر کسی وجہ بےگناہ افراد کو گولیوں کا نشانہ بناتی ہے۔ علی زئی کا ایک پرامن استاد اسکی واضح مثال ہے۔ جسے روڈ کے کنارے گاڑی کھڑی کرنے کے جرم میں گولیوں کا نشانہ بناکر قتل کردیا گیا یہ اور اسی طرح کے سینکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں موجود ہیں، جس میں مقامی سول اور فوجی انتظامیہ علاقے کے مستقل باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ اس سلسلے میں مقامی اور ملکی سطح پر شخصیات اور تنظیموں سے ہماری گزراش ہے کہ مظلومیت کی ہماری یہ آواز حکام بالا تک پہنچائیں جبکہ اہلیان کرام سے ہماری یہ گزارش ہے کہ ایک دوسرے کے گریبان چھوڑ کر آپس میں متحد ہو جائیں اور پوری طاقت سے اپنے حقوق کا دفاع کریں۔
خبر کا کوڈ : 375235
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش