0
Tuesday 17 Dec 2013 19:31

شام سے لوٹنے والے جنگجوؤں پر یورپی یونین کی کڑی نظر

شام سے لوٹنے والے جنگجوؤں پر یورپی یونین کی کڑی نظر
رپورٹ: ایس این حسینی

یورپی یونین میں خطے سے تعلق رکھنے والے ان اسلامی انتہا پسندوں کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے جو شام میں لڑنے کے بعد اب اپنے ملکوں کی طرف لوٹ رہے ہیں اور بنیاد پرستانہ اور خطرناک نظریات اور فکر اپنے ہمراہ یورپ لا رہے ہیں۔ اس حوالے سے فرانس کے وزیر داخلہ مانویل والس نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ گفتگو کے دوران کہا کہ یہ معاملہ بہت تشویش ناک ہے۔ 

یورپی یونین کے خدشات اور منصوبہ بندی

یورپی یونین کے انسداد دہشتگردی دفتر کے رابطہ کار گیل دی کرچوف نے یورپی یونین کے وزراء میں گذشتہ ہفتے ایک مراسلہ تقسیم کیا تھا جس میں ان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ شام جانے والے باغیوں کی روانگی کے وقت اور طریقوں کا کھوج لگانے کے لئے سکیورٹی حکام کے پاس موجود ایئر لائن کے مسافروں کی معلومات کا بہتر طریقے سے استعمال کریں۔ اس مراسلے میں بہت سے دیگر اقدامات کا بھی ذکر تھا جن میں ان کی بھرتی کے نیٹ ورکس کے خلاف قانونی کارروائی اور انٹرنیٹ کی سرگرمیوں کی نگرانی بھی شامل ہیں۔ یورپی یونین کے وزراء نے معلومات کے تبادلے کے لئے ایک زیادہ مربوط حکمت عملی اور اس کے ساتھ ہی جہادی تحریکوں کا سراغ لگانے اور ان کا تعاقب کرنے کی ضرورت سے بھی اتفاق کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بنیاد پرستی کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک نئی یورپی حکمت عملی کو فوری طور پر اختیار کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔ یورپی یونین کے نزدیک یہ صورت حال سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ برطانیہ کی انسداد دہشت گردی کی سربراہ ہیلن بال نے کہا کہ وہ لوگ کوئی رومانوی حریت پسند نہیں، بلکہ خیال کیا جاتا ہے کہ یورپ سے تعلق رکھنے والے 2 ہزار کے قریب جنگجو شام میں باغی فورسز کے ہمراہ لڑ رہے ہیں۔ یہ تعداد موسم بہار میں لگائے گئے تخمینوں سے کہیں زیادہ ہے، جب ان کی تعداد 6 سو سے 8 سو بتائی جاتی تھی۔ متعلقہ حکومتوں کا اندازہ ہے کہ وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے 5 سو کے لگ بھگ افراد شام میں لڑ رہے ہیں مگر غیر سرکاری تخمینوں میں یہ تعداد کافی زیادہ بتائی گئی ہے۔

لوٹنے والے انتہا پسندوں کو سزا دینے سے متعلق قوانین پر غور

بوسنیا و ہرزیگووینا نے 5 دسمبر کو اپنے ضابطہ فوجداری میں ترامیم منظور کیں، جنکے تحت اس ملک کے باشندوں پر پابندی لگائی گئی ہے کہ وہ غیر ملکی جنگی میدانوں کو روانہ نہیں ہو سکتے۔ وزیر سلامتی فہر الدین رادونسک کی تجویز کردہ ترمیم میں ان تمام افراد کو قید کی سزا دینے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے جو بوسنیا و ہرزیگووینا سے باہر مسلح تنازعات میں حصہ لینے کے لئے افراد کو منظم یا بھرتی کرتے ہیں یا پھر انہیں فروغ دینے یا ان میں براہ راست شرکت کی کوششیں کرتے ہیں۔ مذکورہ ترمیم کے مطابق وہ افراد جو جنگجو بھرتی کرتے ہیں اور غیر ملکی میدان جنگ میں لڑنے کے لئے بوسنیا و ہرزیگووینا سے اپنی تحریک کو منظم کرتے ہیں انہیں سب سے زیادہ سزا یعنی 10 سال قید سنائی جائے گی جبکہ جنگجوؤں کو وطن واپس لوٹنے کے بعد کم از کم تین سال قید کا سامنا کرنا ہو گا۔
بوسنیا و ہرزیگووینا کی پارلیمانی کمیٹی برائے دفاع و سلامتی کے ایک رکن محمد برادرک نے ساؤتھ ایسٹ یورپین ٹائمز کو بتایا کہ میں اس ترمیم کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔ ایسے افراد سب سے پہلے تو اپنے اہل خانہ کے لئے خطرہ ہیں اور پھر وہ پورے معاشرے کے لئے خطرناک ہیں۔ ہمسایہ ملک سربیا کے حکام بھی شام میں لڑنے والے اپنے شہریوں پر پابندیاں لگانے کے قانونی اقدامات کی تجویز پیش کر رہے ہیں۔ سربیا کے نائب وزیراعظم راسم لجاجک نے جنگجوؤں کو بھرتی کرنے اور شام کو ان کی روانگی کو منظم کرنے کے عمل کو جرم قرار دیا۔ لجاجک نے ساؤتھ ایسٹ یورپین ٹائمز سے گفتگو میں کہا کہ منتظمین کو پانچ سال قید کی سزا اور وہاں جانے والے افراد کو تین سال کی سزا دینے کی ضرورت ہے۔ 

ترکی کا مشکوک کردار اور یورپ کے توقعات

یورپی یونین کے وزرائے داخلہ سرحدوں اور ہوائی اڈوں پر کنٹرول کو بہتر بنانے اور خاص طور پر مہاجر کیمپوں میں مقیم افراد کو بنیاد پرست بننے سے روکنے میں مدد کے لئے شام کے ہمسایہ ملک ترکی کے ساتھ قریبی تعاون کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ترکی کے روزنامہ ریڈیکل کی خبر میں بتایا گیا ہے کہ ترکی کے سینکڑوں نوجوان شام میں القاعدہ سمیت حزب اختلاف کے انتہا پسند دھڑوں اور حکومتی فورسز کے لئے لڑ چکے ہیں۔ وہ عام طور پر نوجوان ہیں جن کا تعلق ادیامان، بنگول، باتمان اور دیار بکر کے صوبوں سے ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ مسلح گروپوں کی جانب سے سرحد کے آر پار نقل و حرکت کو روکنے کے لئے گشتی دستے مقرر کرے۔ انسانی حقوق کے نگران گروپ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ان انتہا پسند گروپوں میں شامل بیشتر غیر ملکی جنگجو، ترکی کے راستے شام تک رسائی حاصل کرتے ہیں جہاں سے وہ ہتھیار بھی اسمگل کرتے ہیں، یہ لوگ یہاں پر رقم اور دیگر سامان حاصل کرتے ہیں اور طبی علاج کی غرض سے واپس لوٹ جاتے ہیں۔ لہٰذا ترکی کو چاہیئے کہ وہ سرحدوں پر گشت بڑھائے، اور ایسے گروپوں کے جنگجوؤں کا داخلہ اور انہیں ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندیاں عائد کرے جنکے بارے میں یقینی ذرائع سے پتہ ہے کہ وہ انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ شامی حکومت کے مخالف ترک حکام نے اس طرح کی کسی بھی الزام کو سختی سے مسترد کردیا ہے کہ وہ شام میں داخل ہونے والے انتہا پسند گروپوں کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ ترکی میں 6 لاکھ سے زائد شامی مہاجرین موجود ہیں جن میں سے 2 لاکھ سے زائد تو مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں۔ وزیر خارجہ احمد داؤد اوغلو نے حال ہی میں کہا تھا کہ ترکی کا شام میں کسی بھی بنیاد پرست گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے، جن میں خاص طور پر النصرہ شامل ہے۔ انکے بقول یہ غلیظ پراپیگنڈہ ان لوگوں کا پھیلایا ہوا ہے جو ترکی کی انسان دوست پالیسیوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ 

یورپ کے خدشات، گھر کے چراغ کی آگ

خطے کے تجزیہ کاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یورپ اور بلقان کے ملکوں سے شام جا کر وہاں باغیوں کے ہمراہ لڑنے والے رضا کاروں کے بارے میں یورپی یونین کے رکن ممالک کے خدشات بجا ہیں۔ اسکوپیہ فون یونیورسٹی کے پروفیسر ولادیمیر پیفو فاروف نے ساؤتھ ایسٹ یورپین ٹائمز سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ نام نہاد باغیوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے، یعنی انکا بہت سے دہشتگرد گروپوں کے ساتھ گہرا تعلق اور اتحاد ہے، جن میں خاص طور پر القاعدہ شامل ہے۔ شام سے واپس جا کر مختلف ممالک جانے کے انکے مقاصد مختلف ہیں۔ چاہے ان کا تعلق کسی بھی دہشت گرد گروپ سے نہ بھی ہو، وہاں انہیں ان میں آسانی سے ضم کر لیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دہشتگرد تنظیموں کے لئے یورپی سرزمین پر اپنے نیٹ ورک کو نافذ کرنے کا کام انتہائی آسان ہو گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خطے کے تمام ملکوں کو غیر ملکی جنگی جھڑپوں میں شمولیت پر پابندیاں عائد کر دینی چاہئیں۔ یہ پابندیاں ان فوجداری قوانین کے تحت نافذ کی جائیں جن میں غیر ملکی افواج اور فوجی کارروائیوں میں شمولیت کو جرم قرار دیا جاتا ہے۔ یورپی ممالک جس مقصد کے حصول کے لئے شام میں باغیوں کی حمایت کرتے تھے، اس میں ناکامی کے بعد اب انکو یہ خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ بپھری ہوئی ٹڈیوں کا یہ لشکر یورپ آ کر خطے کو جھنم میں تبدیل کر دے گا، یعنی اسرائیل کی خوشنودی اور مفاد کی خاطر وہ جو منصوبہ بنا کر گئے تھے خود انکے ہی خلاف تمام ہونے لگا ہے۔ اب جا کر وہ اس طوفان کے آگے حفاظتی بند باندھنے کی فکر میں ہیں۔ اس سلسلے میں پیفو فاروف کا کہنا ہے کہ اس کی روک تھام کے لئے انٹیلیجنس سروسز کو قریبی تعاون اور معلومات کا تبادلہ کرنا چاہیئے تاکہ مستقبل میں لوگوں کو شام جانے سے روکا جا سکے۔ علاوہ ازیں وہاں چلے جانے والے افراد کو کنٹرول کرنے کے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ پہلے ہی اپنے ملکوں میں ایک مسئلہ تصور کئے جاتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 331530
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش