0
Monday 29 Sep 2014 17:05
داعش کو عالمی اتحاد میں شامل ممالک نے خود بنایا ہے

مسائل ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے حل نہیں ہونگے، نواز شریف اپنے طرز حکمرانی میں تبدیلی لائے، علامہ افتخار نقوی

مسائل ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے حل نہیں ہونگے، نواز شریف اپنے طرز حکمرانی میں تبدیلی لائے، علامہ افتخار نقوی
علامہ سید افتخار حسین نقوی کا شمار پاکستان کی معروف مذہبی شخصیات میں ہوتا ہے، اپنے دور میں ہونیوالی مکتب تشیع کی تمام سرگرمیوں میں ہراول دستے کے طور پر شامل رہے۔ ایک مدت تک تحریک جعفریہ پنجاب کے صدر رہے، اسکے بعد آپکو تحریک جعفریہ پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری کے طور پر چن لیا گیا۔ ضلع میانوالی میں قائم مدرسہ امام خمینی (رہ) کے انچارج ہیں۔ علامہ افتخار نقوی سچ ٹی وی کے چیئرمین کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ صاحب سے ملکی و بین الاقوامی تازہ ترین صورتحال پر پر تفصیلی گفتگو کی ہے، جس کا احوال پیش خدمت ہے۔ ادارہ 

اسلام ٹائمز: دھرنوں اور احتجاجی جلسوں سے پیدا ہونیوالی ملکی صورتحال پر روشنی ڈالیں۔؟
علامہ افتخار حسین نقوی: حکومت نے اپنے وعدے اور ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ لوگ مہنگائی سے تنگ ہیں، خاص کر بجلی کے بل سات گنا آ رہے ہیں، جمہوریت کا یہ حسن ہے کہ حکومت کی کمزوریوں پر آواز اٹھائی جائے، بہتر تھا کہ حکومت عوام کے مسائل حل کر دیتی، جنہیں طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی حل نہیں کیا گیا، اب ان دھرنوں کے باعث لوگوں میں آگہی پیدا ہو رہی ہے۔ نواز شریف اگر اسی انداز میں حکومت کرتا رہا تو اس کے لئے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔ اسے چاہیئے کہ اب بھی ہوش کے ناخن لے اور اس مسئلہ کو سیاسی طریقہ سے حل کرے۔

اسلام ٹائمز: لاہور اور کراچی میں ہونیوالے تحریک انصاف کے اجتماعات کے اس حکومت مخالف تحریک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔؟

علامہ سید افتخارحسین نقوی: دھرنے والوں نے ابھی جو اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے، شہروں میں جاکر اجتماعات اور عوامی طاقت کے مظاہرہ کے باعث تحریک انصاف کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔ آغاز میں ظاہر ہے کہ دھرنے والوں کی پوزیشن مضبوط تھی حکومت کمزور تھی، اور حکومت بہت کچھ دینے کے لئے تیار ہوگئی، پھر دھرنے والوں سے غلطی ہوئی اور سیکرٹریٹ پر چڑھ دوڑے اور اس طرح دھرنے والے دفاعی پوزیشن پر چلے گئے، بجائے اس کے کہ اس موقع پر حکومت اس مسئلہ کو حل کر دیتی حکومت مغرور ہوگئی، اور غرور کے باعث اس مسئلہ کو طول خود حکومت نے دیا، اب عمران خان جو ایک مضبوط سیاسی پارٹی بنانے میں کامیاب ہوچکا ہے، اب دو پارٹیوں کو دور ختم ہوگیا، تیسری طاقت عمران خان ہے، جس کی عوام میں جڑیں ہیں، اب اس سیاسی طاقت کے ساتھ سیاسی انداز سے ہی مسائل حل ہوں گے۔
یہ مسائل گالیاں دینے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے حل نہیں ہوں گے اور جو باتیں عمران خان کہہ رہا ہے حقائق پر مبنی ہیں۔ اب مثلاً اساتذہ کو گذشتہ کافی عرصہ سے تنخواہیں نہیں مل رہیں، مہنگائی عروج پر ہے، بجلی کے نرخ دس گنا بڑھ گئے ہیں۔ امن و امان کا مسئلہ، رشوت اپنے عروج پر ہے۔ اب یہ ساری باتیں لوگوں کے دل کی باتیں ہیں جو عمران خان نے کہی، اب حکمرانوں کی حالت یہ ہے کہ ساری وزارتیں اپنے خاندان میں تقسیم کر رکھی ہیں، جس ملک کا وزیر خارجہ ہی نہیں ہے، بہت سے ادارے ایسے ہیں جن کا کوئی چیئرمین ہی نہیں ہے۔ ان حالات میں نواز شریف کو چاہیئے کہ وہ اپنے طرز حکمرانی میں تبدیلی لائے، تبدیلی لائے گا تو موجود رہے گا، تبدیلی نہیں لائے گا تو پھر یہ نوشتہ دیوار انہیں پڑھنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: حکمران اپنے رویہ میں تبدیلی لانے یا غلطیاں تسلیم کرنے کی بجائے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں فوج کو زیر بحث لاتے رہے، اس اقدام کے بارے میں کیا کہیں گے۔؟

علامہ افتخار حسین نقوی: آرمی کا کردار نہایت احسن رہا ہے، فوج نے بال ان سیاسیوں کے کورٹ میں ڈال دی ہے کہ سیاسی مسئلہ ہے خود حل کرو، آرمی نے بہت سمجھداری سے کام لیا ہے اور آرمی اب عوام میں محبوب ہوچکی ہے۔ آرمی کے آپریشن کی بدولت عوام کو خودکش حملوں سے نجات مل گئی ہے۔ اس وقت عوام میں آرمی کا وقار بڑھ چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا وقار عوام میں گر چکا ہے اور وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ سیاسی خواہ مخواہ فوج کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں، چاہے دھرنے والے ہوں یا پارلیمنٹ والے، ٹھیک ہے پارلیمنٹ کا اپنا ایک وزن ہے، نواز شریف کا یہ کہنا کہ وزیراعظم کو کوئی نہیں ہٹا سکتا درست نہیں، عوام نے لایا، عوام ہٹا بھی سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ عوام اگر حکومت کے ساتھ ہے تو عمران کے ساتھ نہیں ہے، عوام عمران کے ساتھ بھی کافی ہے۔ یہ ایک مقابلہ ہے، اس کے لئے بہتر یہ ہی ہوگا کہ اس کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔ ہمارے خیال میں نواز شریف اگر استعفٰی دے کر کسی اور کو وزیراعظم بنا دیتے تو نواز شریف کا قد اور بڑھ جاتا، اور عوام میں بھی اس کو پذیرائی ملتی اور اقتدار بھی اس کی اپنی پارٹی میں رہنا تھا، لیکن یہ جرات انہوں نے نہیں کی، لیکن اب انہیں چاہیئے کہ اس مسئلہ کو فوری حل کریں، پاکستان کی معیشت کا نقصان ہو رہا ہے اور بدنامی ہو رہی ہے۔ حکومت کو حزب اختلاف کی مکمل حمایت حاصل ہے، اس مسئلہ کا حل آخر کار حکومت کو ہی نکالنا ہے۔

اسلام ٹائمز: داعش کو تشکیل دینے والے ممالک آج اسے ختم کرنا چاہتے ہیں، انکے اس اقدام میں کتنی صداقت موجو دہے، ایران، شام اور لبنان نے داعش کے خلاف عالمی طاقتوں کے ساتھ بیٹھنا مناسب نہیں سمجھا، سارے معاملہ کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟

علامہ سید افتخار حسین نقوی: داعش تو ظاہر ہے ایک وحشی گروہ ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، اور مسلمانوں کا قتل عام کرانے کے لئے مغرب اور امریکہ نے اس کو پہلے کھڑا کیا اور اب عوام میں تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ہم دہشت گردوں اور قاتلوں کے ساتھ نہیں ہیں، اسی لئے اوبامہ نے بھی داعش کے خلاف تقریر کی ہے، لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں، داعش کو عالمی اتحاد میں شامل ممالک نے خود بنایا ہے اور سرمایہ بھی دیا ہے۔ مغرب اور یہودیوں کا ایجنڈا ہے کہ مسلمانوں کے اندر سے ایسے گروہ کھڑے کئے جائیں اور پھر ان کی مخالفت کرکے عام سادہ مسلمان کو دھوکہ دیا جائے، اور مسلمان کہیں کہ داعش کا تو امریکہ مخالف ہے، اور اس طرح مسلمانوں کو مسلمانوں سے ہی مروایا جائے، یہ ایک بہت ہی بڑا المیہ ہے کہ اسلام کا نام لیکر وہ کام کر رہے ہیں، جس کا اسلام سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 412314
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش