0
Monday 15 Sep 2014 00:20

ہسپتال سے کھلا خط!

ہسپتال سے کھلا خط!
تحریر: سید اسد عباس تقوی

انسان! اللہ کی عجیب و غریب مخلوقات میں سے ایک ہے، تاہم اپنی متعدد خصوصیات کے سبب معلوم مخلوقات میں ایک امتیازی حیثیت کا بھی حامل ہے۔ عقل و خرد کے سبب اس میں کائنات کی ہر شے کو مسخر کرنے کا حوصلہ موجود ہے۔ کبھی یہ آسمان کی بلندیوں میں محو پرواز ہوتا ہے تو کبھی سمندر کی پہنائیوں میں غوطہ زن ہو کر اپنی بے چین طبیعت کو سکون بخشتا ہے۔ جنگل، پہاڑ، چرند، پرند، ستارے حتی کہ جن سب کو تسخیر کرنا اسے بھلا لگتا ہے۔ سوچنے پر آئے تو عرش الہی تک جا پہنچے، باتیں کرنے لگے تو زمین و آسمان کے قلابے ملا دے۔ انسان کی تسخیر کائنات کی یہ خواہش جہاں بہت مفید اور ثمر بار ہے، وہیں اس خواہش نے انسانی تاریخ کو خون کی ندیوں میں نہلایا۔ قوموں کی قومیں اس خواہش کی بھینٹ چڑھیں۔ یہ سیماب صفت انسان ملکوں، علاقوں اور وسائل کو اپنے زیر تسلط لانے کے لیے ہمیشہ مصروف عمل رہا۔

اس میں شک نہیں کہ اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو شاید انسان دیگر مخلوقات کی مانند اپنی بنیادی حالت سے آج کی ترقی یافتہ حالت تک نہ پہنچتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات کی بہت سی مخلوقات اپنی ابتدائی حالت میں انسان کی ابتدائی حالت سے بہت بہتر ہوتی ہیں۔ انسانی بچہ پیدائش کے وقت سے دو سال تک عموماً خود سے اٹھ کر چل پھر نہیں سکتا، تاہم حیوانات کے بچے پیدا ہوتے ہی اچھلنے کودنے لگتے ہیں۔ انسان اگر سیکھے نہیں تو کچھ بھی بنانے کے قابل نہیں، تاہم حشرات اور پرندے کسی سکول میں پڑھے بغیر ایسے محیر العقول ڈھانچے تشکیل دیتے ہیں جو انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ ان جانداروں اور انسانوں میں اگر کچھ فرق ہے تو اسی عقل و شعور اور قوت تسخیر کا۔ اپنی عقل و خرد سے انسان نے ماحول سے بنانا سیکھا اور جذبہ تسخیر سے نت نئی چیزیں بناتا گیا۔ اسی سبب تو خالق کائنات اپنی اس مخلوق کی خلقت پر ناز کرتے ہوئے کلام مجید میں فرماتا ہے:
"ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے۔"

تاہم افسوس کہ صدیاں بیت جانے کے باوجود اس مایہ ناز مخلوق کو اپنی خداداد صلاحیات کو درست طریقے سے استعمال کرنے کا سلیقہ نہیں آیا۔ جذبہ تسخیر کو ہی لے لیجئے۔ انسان نے اگرچہ اس صلاحیت سے بہت سے مثبت کام لئے، تاہم اس جذبے کے غلط استعمال کی مثالیں بھی چنداں کم نہیں ہیں۔ کائنات میں بہنے والے انسانی خون اور روئے زمین پر ہونے والے ہر جرم و ظلم کے پیچھے کہیں نہ کہیں یہی جذبہ تسخیر کار فرما رہا ہے۔ معروف فاتح سکندر پوری دنیا کے انسانوں کو مسخر کرنے کے لیے ملکوں ملکوں پھرا، لیکن جب دنیا سے جانے لگا تو اپنے مصاحبوں سے کہہ کر گیا کہ میرے دونوں ہاتھ کفن سے باہر نکال کر انہیں کھلا چھوڑ دینا، تاکہ دیکھنے والوں کو یہ معلوم ہوسکے کہ دنیا کو تسخیر کرنے کا خواب دیکھنے والا عظیم بادشاہ اس کائنات سے خالی ہاتھ گیا تھا۔

سکندر کی مانند اور بھی بہت سوں نے اپنے جذبہ تسخیر کو بے محل استعمال کیا۔ فرعون چاہتا تھا کہ قوم بنی اسرائیل اس کی قوم کے زیر تسلط رہے۔ قارون کی خواہش تھی کہ دنیا کی ساری دولت اس کے زیر قبضہ آجائے، نمرود کی آرزو تھی کہ اس کی قوم اتنی مطیع ہو جائے کہ اسے رب سمجھنے لگے۔ اردو میں ایک محاورہ اکثر استعمال ہوتا ہے ’’رہے نام اللہ کا‘‘ ہوا بھی یہی ملکوں، علاقوں اور وہاں بسنے والے انسانوں کو تسخیر کرنے کی خواہش رکھنے والے افراد آج نشان عبرت ہیں اور قرآن کریم ہمیں ان نشانوں کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
فاعتبروا یا اولی الابصار
اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو


جو لوگ کائنات میں پھیلے سامان عبرت کا مشاہدہ کرنے کے باوجود اپنی روش نہیں بدلتے، ان کے بارے میں شک نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ ’’اولی الابصار‘‘ ہیں یا نہیں۔؟ ظاہری آنکھیں ہونے کے باوجود یہ لوگ اندھے ہیں، جنہیں ہم عمومی طور پر دل کے اندھے کہتے ہیں۔ ان دل کے اندھوں کو اگر اقتدار کی لگن لگی ہے تو اس کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز ذریعہ اپناتے ہیں۔ دولت کی دھن ہو تو نہیں معلوم کہ یہ دولت کیسے اور کیونکر اکٹھی ہو رہی ہے، شہرت کی خواہش ہے تو عزت و ذلت کا پاس کیسا؟ اپنے اردگرد نظر دوڑایئے آپ کو بہت سی ایسی مثالیں مل جائیں گی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک خرابی مزید کئی ایک خرابیوں کو جنم دیتی ہے۔ اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے مخالفین پر طرح طرح کے مظالم، دولت کے حصول کے لیے سیاہ و سفید کی تمیز کا مٹ جانا، شہرت کے حصول کے لیے اخلاق باختگی اور فحاشی خرابی در خرابی کی چند مثالیں ہیں، جو جذبہ تسخیر کے بے لگام شہوار پر سوار ہونے والوں کے ہاتھوں سرزد ہوتی ہیں۔

حالانکہ اگر انسان اپنے وجود پر کچھ دیر کے لیے غور کرے تو اسے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ پانی کے بلبلے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ذرا سی تکلیف آئی تو سارے منصوبے، عزم، ارادے اور جذبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ والد محترم کی علالت کے سبب کچھ دنوں سے ہسپتال میں ہوں۔ اس مقام پر آئے روز میرے سامنے انسان کی بے بسی کے تماشے دہرائے جاتے ہیں۔ کسی کو پیشاب نہیں آرہا تو کوئی رفع حاجت سے عاجز ہے۔ کسی کے گردے کام نہیں کر رہے تو کسی کے دل کی کوئی چھوٹی سے نس بند ہے۔ چنگا بھلا انسان جو اگر صحت مند ہو تو نہ جانے اپنے آپ کو کیا کیا سمجھتا ہے اور کیسے کیسے منصوبے بناتا ہے، چھوٹے چھوٹے عارضوں کے سبب یوں عاجز اور بے بس نظر آتا ہے کہ جیسے کبھی بھی کچھ بھی اس کے اختیار میں نہیں تھا۔

ہسپتال میں اپنے قیام کے دوران میں نے اکثر سوچا کہ کاش روزہ اور نماز کی مانند ہر مسلمان پر کچھ وقت ہسپتال میں رہنا بھی فرض قرار دیا جاتا، تاکہ ہم لوگ اپنے دنیاوی جھمیلوں سے نکل کر انسانی کمزوریوں اور بے بسیوں کی جانب متوجہ ہوجاتے۔ شریعت مقدس کا حسن دیکھئے کہ اس کاش کی سب سے بہترین اور عملی شکل دیتے ہوئے بیمار کی تیمارداری کو مستحب قرار دیا گیا، تاکہ ہم لوگ کچھ وقت کے لئے ہی سہی اپنی کمزوری کا ادراک کر لیں۔ ممکن ہے تیمارداری کے یہ چند لمحے ہماری تقدیر بدلنے کے لئے کافی ہوں اور ہم اپنی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اپنی روش بدل لیں، تاہم پھر خیال آیا کہ اس کے لئے بنیادی شرط وہی آنکھیں ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہوا۔

اگر فقط ہسپتالوں کے چکر لگانے اور بیماروں کی تیمارداری کرنے سے ہی انسان پر اپنی حقیقت نیز کمزوریاں منکشف ہونی ہوتیں تو دنیا کے سبھی ڈاکٹر اور نرسیں عارف خدا ہوتے۔ اس نکتے سے یہ راز بھی منکشف ہوا کہ بند آنکھوں کے ساتھ انسان کی بے بسی کا تماشہ اگر کسی تاثیر کا باعث نہیں بنتا تو شریعت مقدس کے باقی اعمال عادتاً انجام دینے سے بھی کچھ حاصل نہیں۔ بھوک پیاس، نماز و تراویح، تلاوت و اذکار اس وقت تک عادت ہی ہیں جب تک انسان کو اپنی حقیقت کا صحیح معنی میں ادراک نہ ہو، اور یہ ادراک دل کی آنکھوں کے بغیر ممکن نہیں۔ خداوند کریم ہم سب کے دل کی آنکھوں کو روشن فرمائے، تاکہ ہم کائنات میں پھیلی عبرتوں سے سبق حاصل کریں اور اپنی آخرت کی جانب متوجہ ہوں۔ (وما توفیقی الا باللہ)
خبر کا کوڈ : 409724
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش