0
Monday 15 Sep 2014 18:00

ایک نظام تعلیم، ایک قوم

ایک نظام تعلیم، ایک قوم
تحریر: ثاقب اکبر

ہفتے کی رات پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد دھرنے کے مقام پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے نظام تعلیم کے لئے اپنے نقطہ نظر کو ایک مرتبہ پھر واضح انداز سے بیان کیا۔ وہ کہ رہے تھے: ’’ہم اپنے ملک کے نظام تعلیم پر کام کریں گے اور یہاں ایک طرح کا تعلیمی نظام لے کر آئیں گے۔ انگریزی میڈیم جہاں سے ممی ڈیڈی پیدا ہوتے ہیں، اردو میڈیم اور دینی طریقہ تعلیم سب کو ختم کرکے ہم ایک ایسا تعلیمی نصاب دیں گے جس میں انگریزی بھی پڑھائی جائے گی، اپنی زبان کی تعلیم بھی ہوگی اور دین بھی پڑھایا جائے گا۔ موجودہ تعلیمی نظام تین طرح کے ذہن اور اقوام پیدا کر رہا ہے۔ ہم ایک نظام تعلیم کے ذریعے پاکستانیوں کو ایک قوم بنائیں گے۔‘‘

عمران خان کی یہ بات سن کر مجھے قاضی حسین احمد مرحوم یاد آگئے۔ 1996ء کی بات ہے کہ ہم چند دوست اسلام آباد جی سکس فور میں ان کی ایک رہائش گاہ پر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بات اتحاد بین المسلمین پر چل رہی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ جب تک مختلف مسالک کے مختلف مدارس کا سلسلہ قائم ہے ہم ایک قوم کی تشکیل کیسے کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر دینی مدارس کے طلباء کی تعداد چھ لاکھ ہو تو ہم ایک عظیم الشان یونیورسٹی بنا سکتے ہیں جہاں دینی مدارس کے طلباء کو داخلہ دیا جاسکتا ہے، جہاں ایک جگہ پر مختلف مسالک اور مختلف فقہوں کے حوالے سے متخصصین تیار کئے جاسکتے ہیں۔

یہ بات کوئی ایسا گہرا فلسفہ بھی نہیں کہ ذرا سی سوجھ بوجھ والا آدمی جس کو نہ سمجھ سکے۔ جب مختلف نظام ہائے تعلیم اور مختلف مسالک کے الگ الگ مدارس قائم ہوں گے تو جتنی قسم کا نظام تعلیم ہوگا، اتنی ہی قومیں پیدا ہوں گی۔ ایک قوم پیدا کرنے کے لئے ایک نظام تعلیم کے بغیر چارہ نہیں۔ وہ تمام قومیں جنہوں نے ترقی کی ہے، ان کے ہاں نظام تعلیم کا جائزہ لیا جانا چاہیئے۔ دینی تعلیم کے بعض شعبوں کو جو ناگزیر سمجھے جاتے ہیں، انہیں یونیورسٹیوں اور کالجوں میں الگ مضمون کے طور پر پڑھایا جاسکتا ہے۔ جو طلبہ اس میں دلچسپی لیں، وہ یہ مضمون رکھ سکتے ہیں لیکن بیشتر نصاب کے اکٹھا ہونے، ایک درسگاہ میں تعلیم حاصل کرنے، ایک فضا میں پروان چڑھنے اور ایک گراؤنڈ میں کھیلنے سے جو ہم آہنگی اور قربت پیدا ہوگی وہ ایک قوم بننے میں ہماری مدد کرے گی۔

علاوہ ازیں مدارس میں پڑھائی جانے والی بہت سی کتب عصری ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور نہ وہ درسی ضروریات کے لئے لکھی گئی ہیں۔ صدیوں کے تجربات کی روشنی میں تدریس کے نئے اصول سامنے آئے ہیں، جو زیادہ آسانی سے اور رسا انداز سے مطالب کو طالب علموں تک پہنچانے کے لئے مددگار ہیں۔ ہماری بہت سی مذہبی کتب ماضی کے نہایت جید علماء نے اس انداز سے لکھی ہیں کہ جس میں ان کی علمی قابلیت کے سارے جوہر سمو دیئے گئے ہیں۔ ایسی کتابوں کو انشاء پردازی کے مختلف نمونوں کے طور پر ضرور بروئے کار لایا جاسکتا ہے، لیکن اصل مقصد علم و آگہی کی جدید اذہان تک ترسیل ہے۔ اسے سہل اور خوبصورت انداز سے طالب علموں تک پہنچانے کے لئے مطالب کی از سر نو تدوین کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں بھی بعض اسلامی ممالک میں عمدہ تجربات کئے گئے ہیں۔ مصر، ترکی، ایران اور بعض دیگر ممالک میں جدید مذہبی تدریسی کتب ترتیب دی گئی ہیں، جنہیں سامنے رکھ کر ہم بھی اپنے متون درسی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

ایک طویل عرصے سے بہت سے علماء اور دانشور دینی مدارس کے درسی متون پر تنقید کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں ایسے جید علماء بھی شامل ہیں جو تنقید بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی انہی متون کی تدریس میں اپنی عمر عزیز صرف کر دیتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے لئے فضا سازگار نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فضا اپنے آپ سازگار نہیں ہوگی، اقدام سے ہی سازگار ہونا شروع ہوگی۔ عصری تعلیم کے اداروں میں معیار اور نصاب کا فرق غریب اور امیر کی تقسیم کو گہرا کرتا ہے، تو دینی مدارس کی تقسیم تکفیر و تفسیق پر جا منتج ہوتی ہے۔ آخر وہ ایک دن آنا چاہیئے جب ان حقیقتوں کا اعتراف کرکے ہم ایک قوم بننے کا فیصلہ کریں۔

عمران خان جیسے راہنماؤں کو جہاں اپنا نظریہ تعلیم بیان کرنا چاہیئے وہاں اس نظریئے کے رو بہ عمل آنے کے راستے میں حائل رکاوٹوں کا بھی گہرا ادراک حاصل کرنا چاہیئے۔ رائج نظام تعلیم کے بعض عناصر، بعض جماعتوں اور گروہوں کی سیاسی اور معاشی قوت کا ذریعہ ہیں۔ بہت سے افراد انہی کے ذریعے شہرت، مقام اور منصب کے زینے طے کرتے ہیں۔ بڑے بڑے طاقتور گروہ ان کی حفاظت کے لئے موجود ہیں، جنہیں بعض بیرونی قوتوں کی ہر طرح کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔
البتہ ان کے اندر ایسے افراد بھی موجود ہیں جو مخلص ہیں، باشعور ہیں اور عصری تقاضوں کو سمجھتے ہیں اور ذاتی و گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر مسائل کو حل کرنے کے لئے تعاون پر آمادہ ہیں یا آمادہ ہوسکتے ہیں۔ انہیں شریک مشورہ کرکے اور عوام کو مزید ایجوکیٹ کرکے قوی ارادے کے ساتھ اقدام کی ضرورت ہے۔ کمزور اور نیم دلی سے اٹھایا جانے والا قدم واپس ہوجائے گا اور ایک دفعہ یہ قدم واپس ہوگیا تو نئے قدم کے لئے آج سے کہیں زیادہ قوت درکار ہوگی۔

ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے کہ جو اختلاف نظر اور اختلاف رائے کو اپنے اندر سمو سکے۔ ایک قوم اور ایک نظام تعلیم کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہونا چاہیئے کہ اس ملک کے سب لوگ ایک رائے، ایک نظریہ، ایک مذہب اور ایک مسلک اختیار کر لیں۔ اسے لوگوں کے آزاد انتخاب پر چھوڑنا چاہیئے اور اس حقیقت کو سامنے رکھ کر نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو ترتیب دینا چاہیئے۔ یہ کام عمران خان کرے، موجودہ حکومت کرے یا کوئی وسیع النظر دینی تنظیم کرے، یہ کام بہرحال کرنے کا ہے۔ یہ کام ہوجائے تو ہم لسانی، جغرافیائی، قومی، علاقائی، جماعتی اور مسلکی تفریق اور فرقہ واریت کے عذاب سے نکل آئیں گے۔ ایک قوم بن کر جینے کا ہنر سکھانے کے لئے ایک ایسے ہی نظام تعلیم کی ضرورت ہے۔ جو بھی یہ کام کرے گا وہ انسانوں کے لئے راحتوں کا انتظام کرے گا۔ جو بھی اس کے لئے کوشش کرے گا، وہ یقینی طور پر اللہ تعالٰی کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا حقدار قرار پائے گا۔ ہماری رائے سے اختلاف ضرور کیا جاسکتا ہے، لیکن جن مسائل کے حل کرنے کے لئے ہم نے ایک نظام تعلیم کے نظریئے کی تائید کی ہے انہیں حل کرنے کے لئے کسی کے پاس کوئی اور فارمولا، راستہ یا حکمت عملی موجود ہے تو وہ اسے ضرور بیان کرے۔ چشم ما روشن دل ماشاد۔
خبر کا کوڈ : 409823
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش