2
0
Monday 17 Nov 2014 22:46

اسرائیل اور اسکے ہمنوائوں کی پریشانی

اسرائیل اور اسکے ہمنوائوں کی پریشانی
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)


غاصب اسرائیل اور اس کے ان تمام ہمنواوں کی خواہ وہ عرب حکمرانوں کی صورت میں ہوں یا پھر یورپی حکمران یا پھر مغربی حکمران، سب کی پریشانی اور گھبراہٹ بڑھ گئی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کون سی وجوہات ہیں جس نے ان تمام شیطانی قوتوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس سوال کا جواب بہت آسان اور سادہ سا ہے، یہ اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ ہے کہ جس کی عظیم الشان اور پائیدار استقامت نے غاصب اسرائیل اور اس کے تمام ہمنواوں کی ناپاک منصوبہ بندیوں کو نہ صرف خاک میں ملا دیا ہے بلکہ ان کی پریشانی میں مزید اضافہ بھی کر دیا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلم عرب ممالک کے حکمران تو مغربی سامراج امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کا ساتھ دیتے آئے ہیں لیکن حال ہی میں کچھ نا عاقبت اندیش لوگوں نے امت کے نام پر ہی امت کو تقسیم کرنے کے لئے اور اپنی وفاداریوں کا غاصب اسرائیل کے ساتھ اظہار کرتے ہوئے صرف اور صرف حزب اللہ لبنان نامی اس اسلامی مزاحمتی گروہ کے خلاف منفی پراپیگنڈا اس لئے شروع کیا ہے کیونکہ حزب اللہ ایک ایسا گروہ ہے جس کا تعلق مسلمانوں کے شیعہ مکتب فکر یعنی شیعہ مسلمانوں سے ہے، میں یہ سمجھتا ہوں یہ ناعاقبت اندیش امت کے نام پر امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کی گھنائونی سازش کر رہے ہیں کیونکہ یہ وہ عناصر ہیں کہ جنہوں نے پہلے قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کی جدوجہد کرنے والی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کو سنی مذہبی انتہا پسند گروہ کا نام دیا تھا اور آج ایک مرتبہ پھر یہی امت کے نام لیوا امت مسلمہ میں تقسیم کے لئے حزب اللہ لبنان کو شیعہ انتہا پسند گروہ بتا کر پوری امت مسلمہ میں تقسیم کا رخنہ ڈالنے کی گھنائونی سازش کر رہے ہیں۔

یہ نا عاقبت اندیش مسلم امہ کو گمراہ کر رہے ہیں اور حماس سمیت حزب اللہ اور جہاد اسلامی فلسطین کہ جنہوں نے گذشتہ کئی دہائیوں میں غاصب اسرائیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، جس کی مثالیں 2006ء میں لبنان میں ہونے والی 33روزہ جنگ میں، غزہ میں 2008ء میں ہونے والی 22روزہ جنگ میں، پھر اسی طرح غزہ میں 2012ء میں اور پھر 2014ء میں 50روزہ غزہ کی جنگ میں دیکھنے کو ملی ہیں کہ ان اسلامی مزاحمتی تحریکوں نے نہ صرف فلسطین و لبنان اور القدس کا دفاع کیا بلکہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو بدترین شکست سے دوچار بھی کیا اور عالمی دہشت گرد امریکہ کی بنائی گئی مشرق وسطی کے لئے نئی حکمت عملیوں کا قلع قمع کر دیا۔ مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہی امت کا نام استعمال کرنے والے آج امت کے درمیان دراڑیں ڈالنے کے لئے پاکستان میں بھی سرگرم عمل ہیں اور امت مسلمہ میں تقسیم ڈالنے کے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، حالانکہ دور حاضر میں مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس سنگین خطرات سے دوچار ہے، ہونا تو یہ چاہیئے کہ تمام مسلمان اقوام اپنے معمولی نوعیت کے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلمانوں کے ان تمام دشمنوں سے خواہ وہ اسرائیلی لبادے میں ہوں یا پھر اسلام کے لبادے میں داعش کی صورت میں ہوں، ان کی سرکوبی کے لئے متحد ہو کر جدوجہد کرنا چاہیئے تاکہ اپنی سرزمینوں کی اور اسلام کے مقدس مقامات کا دفاع اور تحفظ کیا جائے۔

حزب اللہ سے ان عناصر کی دشمنی کے اسباب دو ہیں، ایک تو یہ حزب اللہ کو شیعہ مسلمانوں کی جماعت کہتے ہوئے محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب سے حزب اللہ اس عمل کی طرف مجبور ہوئی کہ شام میں جاری فتنہ کی سرکوبی کی جائے تاکہ شام میں اٹھنے والا فتنہ اگر ختم نہ کیا گیا تو وہ بالآخر لبنان اور فلسطین کاز کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا تاہم شام میں حزب اللہ کا دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ میں وارد ہونا خود لبنانی مقاومت اور لبنان کے دفاع اور فلسطین کاز کی خدمت کے لئے تھا تاہم یہ بات ان امت کے دشمنوں کو ناگوار گزری اور انہوں نے حزب اللہ کے خلاف منفی پراپیگنڈا شروع کر دیا، جہاں تک شام میں حزب اللہ کا دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں وارد ہونے کا تعلق ہے تو یہ کوئی شام پر یلغار ہرگز نہیں تھی بلکہ وہ تو وہاں کے مشکلات کے حل کے لئے گئی تھی۔ اس وقت سے یہ خبریں بڑی شدت سے اڑنے لگیں کہ حزب اللہ اپنے دشمن (غاصب اسرائیل ) کے سامنے خاضع ہوچکی ہے، دوسری جانب ان پست لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ لبنانی عوام، فوج اور اسلامی مقاومت اب پست ہو چکی ہے۔

یہ تو تھی اسلامی مقاومت کے دشمنوں کی بات، مگردوسری جانب خود حزب اللہ اور اس کے حامی کچھ اور کہتے ہیں جس سے اسرائیل اچھی طرح واقف ہے، اس لئے کہ حزب اللہ نے 2006ء میں ایک ماہ سے کچھ زیادہ روز میں اسرائیل کے خوف کو ایسا بڑھا دیا تھا کہ نچلے لوگوں کے پست خیالات پر پانی پھر گیا تھا، اس کے بعد جو اسرائیلی موقف سامنے آئے جسے تین عنوانات میں ڈال سکتے ہیں، ان میں سب سے پہلے میڈیا کے ذریعے معلومات کا حصول ہے جس کا کام صرف افواہیں پھیلانا ہے، جس طرح کے درج بالا سطور میں ذکر کیا گیا ہے، اس کے بعد یہ دیکھنا ہے کہ ان کا کیا ردعمل ہوتا ہے پھر دونوں صورتوں میں اسرائیل اپنے اطلاعاتی معلومات کو پورا کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی ردعمل کرتا ہے، دوسرا یہ کہ خبر پھیلانا کہ وہ اپنے دشمن کویہ دکھانا چاہتا ہے کہ سب کچھ اسے معلوم ہے، اس کے بعد آخر میں ڈرانا اور دھکمانا ہے۔

یہ ایک بڑی غلطی ہے جس کی طرف ابھی تک کوئی متوجہ نہیں ہوا ہے وہ یہ ہے کہ میڈیا میں جو کہا جاتا ہے اس میں تناقض و تضاد موجود ہے ان کا کہنا ہے کہ حزب اللہ اب کمزور ہو چکی ہے وہ اب نہیں لڑ سکتی ہے یہاں تک کہ بعض کا یہ کہنا ہے کہ حزب اللہ کے اندراب مقاومت کی طاقت نہیں رہی یہاں تک کہ وہ اپنا خود تکفیریوں کے مقابلے میں دفاع نہیں کرسکتی ہے، تو وہ اسرائیل کے ساتھ کیسے مقابلہ کرسکتی ہے، لیکن آخر میں جو موقف یہ بھی ہے کہ حزب اللہ کی طاقت کئی گنا زیادہ ہے جس نے اسرائیل کو سبق سکھا کر رکھ دیا ہے، یہاں تک کہ اسرائیل کے بڑے بڑے عہدیداران اس کی طاقت کا اندازہ نہیں کر سکے اس کی معمولی سی مثال یہ ہے اسرائیل اپنے ائیرپورٹ تک بند کرکے چوہے کے بلوں میں جا کر چھپ گئے۔

اس حوالے سے جتنے بھی تناقضات اور شبہات تھے جن کی حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے روز عاشورا کو خطاب کرتے ہوئے تشریح کی، انہوں نے ایسے تمام حقائق کا انکشاف کیا جہاں حزب اللہ ڈیڑھ سال سے زیادہ شامی فورسز کے ساتھ مل کراپنے وطن اور مقاومت کے دفاع کی جنگ لڑرہی ہے، اب لوگ حزب اللہ کی طاقت جاننا چاہتے ہیں تو جسے سید حسن نصراللہ نے اعلان کرکے بتادیا کہ اگر اسرائیل چاہتا ہے کہ وہ حزب اللہ کے ساتھ تیسری جنگ کا آغاز کرے تو حزب اللہ تیار ہے اور حزب اللہ کے میزائل اب تل ابیب کے ایئرپورٹ اور اسرائیلی بندرگاہوں کو نشانہ بنائیں گے جس کا اسرائیل سوچ بھی نہیں سکتا۔ پہلے تو ہم تھوڑا سا توقف کریں کہ جو جاہل، غافل یا اندھے اسلامی مزاحمت حزب اللہ کے بارے میں جانتے ہی نہیں ہیں ان کے لئے عرض ہے، حزب اللہ کی پہلی بات تویہ ہے کہ فلسطینی کاز اولین ترجیحات میں سے ہے سو مقاومت کا وجود ہی اسرائیل کے وجود اور اس کے مظالم کا ردعمل ہے، لہذٰا مقاومت جو کوئی بھی اقدام کرے گی وہ اسرائیل کے خلاف ہوگا۔

دوسری بات یہ کہ جب حزب اللہ شام چلی گئی تو وہ اس لئے گئی تاکہ وہ وہاں مقاومت کا دفاع کرے اور اس کی اساسی مہم کا قیام کرے یعنی اسرائیل کو کھڑکھڑائے اس کے بعد یہ کہ وہاں مقاومت کی جنگ انحراف پر مبنی نہیں تھی بلکہ اپنے اساسی ہدف کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی حفاظت کی جنگ لڑرہی تھی، لہذٰا اس نے اسرائیل کو مقبوضہ علاقے میں اطمینان کے ساتھ مداخلت کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا۔ تیسری بات یہ کہ جتنے بھی منفی پروپیگنڈے پھیلائے گئے کہ وہاں فرقہ وارانہ جنگ ہورہی ہے، سنی اور شیعہ کی جنگ ہے یا نسل پرست عرب اور غیر عرب وغیرہ سب کا سب جھوٹ، بہتان اور دھوکے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا، کیونکہ حقیقی جنگ دراصل ایسے گروہوں کے درمیان تھی جن میں غاصب اسرائیل کو امریکہ یہودی پالیسی کے مطابق قائم رکھنا چاہتا تھا جبکہ دوسرا گروہ اسرائیل کے خاتمے کے قائل تھا، لیکن مقاومت آج اورنہ ہی کل ہرگز جھکنے والی نہیں ہے۔ مذکورہ بالا باتوں کی روشنی میں سیدحسن نصراللہ کے شب عاشورا اور روز عاشورا کے دونوں خطابوں میں موقف سامنے آیا تھا تاکہ ان کا پیغام زیادہ اہمیت کا حامل ہو، اور اگر مستقبل میں کوئی جنگ واقع ہونے کی صورت میں اٹھنے والے احتمالات میں بحث کی گنجائش باقی رہ جائے، وہ احتمالات یوں ہو سکتے ہیں۔

ممکن ہے تمام مقبوضہ فلسطین جنگی آگ کی لپیٹ میں آ جائے اور کوئی ایسی جگہ بھی باقی نہ بچے جہاں مقاومت کے راکٹ پہنچ سکے، اس احتمال کا قوی امکان ہے اس لئے کہ اسرائیل اس سے پہلے تجربہ کرچکا ہے،لیکن جولائی 2006 کی جنگ نے اس کی یہ جرات ختم کردی ہے، اس کے بعد وہ اس نظریئے پر پہنچا ہے کہ وہ جنگ کے دوران اپنے لوگوں کو بچائے اس کے لئے اس نے بڑے بڑے آہنی قلعے اور پناہ گاہیں بنائی ہوئی ہیں، لیکن دوسری جانب مقاومت کے پاس ایسے ایسے میزائیل موجود ہیں جو ان پناہ گاہوں اور آہنی قلعوں کوبڑی آسانی سے نشانہ بناسکتے ہیں، اس کے علاوہ اسرائیل نے اپنے تمام زمینی،فضائی اوربحری سب راستے کاٹ دیئے ہیں اور بیرونی دنیا سے جدا ہوکر رہنے کا احتمال ہے۔ ممکن ہے کوئی زمینی حملے کئے جائیں اس صورت میں ہم دشمن کے میڈیا کے افواہوں کو نظرانداز نہیں کرسکتے ہیں، اسی لئے سید حسن نصراللہ نے مقاومت کے مجاہدین کو الجلیل میں داخلے کی اجازت دینے کا احتمال بھی ظاہر کیا ہے، لیکن اب حزب اللہ نے شام کی جنگ سے اتنے زیادہ تجربے حاصل کرنے کے بعد احتمال یہ ہے کہ اسرائیل اسے زیادہ اہمیت دے گا، وہ بخوبی آگاہ ہے کہ اس کے خطرات اور شمالی مقبوضہ فلسطین پرکیا اثرات مرتب ہونگے اس کے بعد یہ سلسلہ تل ابیب کے وسط تک پہنچ جائے گا۔ ممکن ہے ایسا ہونا زیادہ قوی ہو کہ مقبوضہ فلسطین کے تینوں اطراف میں جنگ کی آگ روشن کی جائے جبکہ مقاومت اندر ہو، لیکن اسرائیل اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ آسان کام نہیں ہے۔

آخرمیں ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ اسلامی مقاومت حزب اللہ اس نہج پر پہنچی ہے کہ وہ اسرائیل کو محاصرے میں لے کر اس پر زندگی تنگ کرسکتی ہے، اسی طرح وہ ڈرا دھمکا کر اس پرحملے کرسکتی ہے، اور پھرکھلی جنگ چھڑا کر اسے ہر شرائط منوانے پر مجبور کرسکتی ہے یہی وہ راز تھا جسے سید حسن نصراللہ نے گذشتہ دنوں کہا تھا اور ایرانی موقف کو جو شام کی حمایت میں جا رہا تھا، یورپ کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا ہوا تھا، جس کی طرف صدر بشارالاسد نے اشارہ کیا تھا۔ یہ اسلامی مقاومت ہی ہے جو اپنے کسی منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکتی ہے اور کسی بھی مقابلے کے لئے ہمیشہ پرسکون ہے اور پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ تیارہے۔
خبر کا کوڈ : 419723
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاءاللہ کربلائی صاحب بہت خوب
aksar jumly na qabile faham hen. pta nahi chalta k kalam nigar ka mqsad kia hy.
ہماری پیشکش