2
0
Wednesday 20 Aug 2014 12:04

نیا پاکستان، اگر غلطی نہ ہوئی

نیا پاکستان، اگر غلطی نہ ہوئی
تحریر: ثاقب اکبر

عمران خان کی قیادت میں آزادی مارچ اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی قیادت میں انقلاب مارچ اس وقت اسلام آباد کے ریڈ زون ایریا میں پارلیمینٹ کی عمارت کے سامنے براجمان ہے۔ ساتھ ہی ایوان صدر ہے اور دوسری طرف سپریم کورٹ، وزیراعظم ہاؤس اور ایوان وزیراعظم بھی موجود ہیں۔ مذکورہ اور دیگر اہم ترین عمارتیں اس وقت فوج کے کنٹرول میں ہیں۔ فوج اس وقت حکومت کی درخواست پر آئین کی دفعہ 245 کے تحت ان عمارتوں کی حفاظت کی ذمہ داریاں انجام دے رہی ہے۔

حکومت کی طرف سے اگرچہ بار بار یہ کہا جاتا رہا کہ ریڈ زون ایریا ریڈ لائن ہے، ہم دھرنے کے شرکاء کو اس میں داخل نہیں ہونے دیں گے اور یہ بھی اعلان کیا گیا کہ اس سلسلے میں چار دفاعی حصار بنائے گئے ہیں۔ سب سے آگے پولیس ہے، اس کے پیچھے ایف سی ہے، اس کے پیچھے رینجرز ہیں اور اس کے پیچھے پاک فوج مامور ہے، لیکن اس کے باوجود جب دونوں دھرنوں کے قائدین نے اپنے پیروکاروں کو پارلیمینٹ ہاؤس کی طرف بڑھنے کا حکم دیا تو ان کے راستے میں سکیورٹی اداروں نے کسی قسم کی کوئی مزاحمت نہیں کی اور راستے میں حائل رکاوٹیں مظاہرین اپنے انتظامات کے مطابق آرام اور سکون سے ہٹاتے رہے اور 5 کلو میٹر کا فاصلہ رات بھر میں 5 گھنٹوں میں طے کرتے ہوئے (آج) 20 اگست 2014ء کی سحر، فجر کی اذان سے کچھ پہلے پارلیمینٹ ہاؤس کے سامنے پہنچ چکے تھے۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے اپنے مختصر خطاب میں اس موقع پر، اپنے آئندہ لائحہ عمل کے خطوط کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے وزیراعظم ہاؤس میں اپنے داخلے کی بھی دھمکی دے دی۔

حکومت کی ماضی کی غلطیوں کی جو بھی فہرست مرتب کی جائے اس سے قطع نظر، اسلام آباد میں مظاہرین کے داخل ہونے کے بعد سے لے کر اب تک اس نے جس حوصلے اور اور تدبر کا مظاہرہ کیا ہے اس کو خراج تحسین پیش نہ کرنا بخل ہوگا۔ ہوسکتا ہے اس سلسلے میں کہا جائے کہ ایسا اس نے فلاں کے ایماء پر کیا ہے، تاہم جس کا مشورہ بھی عدم تشدد کی اس کیفیت میں شریک رہا ہے، لائق تحسین ہے۔ ابھی تک دونوں دھرنوں یا مارچز کے قائدین نے اپنے پیروکاروں کو بھی منظم اور پرامن رکھنے میں شعوری کردار ادا کیا ہے، اس سلسلے میں وہ بھی ستائش کے حق دار ہیں۔

اس موقع پر سب پاکستانیوں کی نظر آئندہ والے چند گھنٹوں میں اختیار کیے جانے والے طرز عمل پر مرکوز ہے۔ جہاں تک نیا یا انقلابی پاکستان بنانے کے سلسلے میں دونوں دھرنوں کے قائدین کے افکار کا تعلق ہے، ان کی تائید ہر طرف سے کی جا رہی ہے۔ پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کے حوالے سے دونوں کے وژن میں مشترک عمدہ نکات موجود ہیں۔ دونوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کو ایک ایسا ملک بنانا چاہتے ہیں جہاں حقیقی طور پر آئین اور قانون کی حکمرانی ہو۔ قانون سب کے لیے ایک جیسا ہو، پولیس اور سکیورٹی کے ادارے کسی گروہ کے محافظ نہ ہوں، بلکہ پاکستان کے مفاد کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ انتخابات دھاندلی کے بغیر ہوں۔ ہر ووٹ دینے والا مطمئن ہو کہ جسے اس نے ووٹ دیا ہے اس کی رائے اسی کے لیے شمار کی گئی ہے۔ اس کے لیے ای ووٹنگ کی تجویز نہایت صائب ہے۔ اسی طرح سے ایسے الیکشن کمیشن کی تشکیل جو بااختیار بھی ہو اور غیر جانبدار بھی ہو، ایک ایسا مطالبہ ہے جس کی حمایت ہر بالغ نظر پاکستانی کرے گا۔ مالی بددیانتیوں کے خلاف کڑا احتساب بھی ہر پاکستانی کی آرزو ہے۔ بالائی طبقوں کو اپنی آمدنی کے مطابق ٹیکس ادا کرنے کا مطالبہ بھی برحق ہے۔ مختلف حلقوں میں جہاں گذشتہ انتخابات میں دھاندلی کی شکایات ہیں، انھیں ازسرنو کھولا جانا اور ووٹوں کی نئے سرے سے دیانتدارانہ گنتی کا مطالبہ بھی سو فیصد درست اور لائق تائید ہے۔ ماڈل ٹاؤن سانحہ جیسے واقعہ کی اب تک ایف آئی آر نہ کٹنا بھی قابل افسوس اور انصاف کی پامالی کے مترادف ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان مطالبات کو جس طرح سے دونوں گروہوں نے حکومت، اپوزیشن، عوام اور دنیا تک پہنچا دیا ہے، اس میں ان کی جدوجہد بہت کامیاب رہی ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ دھرنوں کے قائدین آئندہ لائحہ عمل کیا اختیار کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آئندہ کے لائحہ عمل اور طریقہ کار پر ان کی حقیقی کامیابیوں کا انحصار ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دانش و حکمت کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔ اب کسی قسم کی بے احتیاطی اور جذباتیت گذشتہ کامیابیوں کو ڈبو سکتی ہے۔ وزیراعظم ہاؤس، ایوان وزیراعظم یا پارلیمینٹ کی عمارت میں داخل ہونے کی دھمکیاں اس مرحلے پر اس پوری تحریک کو شدید نقصان سے دوچار کرسکتی ہیں کیونکہ پھر فوج اور دھرنے کے قائدین اور شرکاء آمنے سامنے ہوجائیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس مرحلے پر سنجیدہ مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ پارلیمینٹ کے اندر اپوزیشن اور دیگر تمام جماعتیں دونوں مارچز کے قائدین سے رابطے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت بھی اپنی کمیٹیاں بنا چکی ہے۔ حکومتی وزراء کے بیانات میں پہلے کی نسبت زیادہ اعتدال دکھائی دیتا ہے۔ اسلام آباد میں دھرنوں کے خلاف سکیورٹی ایجنسیوں کو استعمال نہ کرکے حکومت نے ایک اچھے جذبے کا مظاہرہ کیا ہے۔ آخری خبروں کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے خود سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ملاقات کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر دوسری طرف جذباتی ردعمل کے بجائے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا گیا تو آج حقیقی طور پر نئے پاکستان کی بنیاد پڑے گی اور اگلی صبح کا سورج ایک نسبتاً مختلف پاکستان پر نمودار ہوگا۔

اس مرحلے پر یہ کہنا کہ دونوں دھرنے الگ الگ ہیں، اس کی نہ آسمان گواہی دیتا ہے اور نہ اسلام آباد کی سرزمین اور نہ پارلیمینٹ کی عمارت۔ دونوں قائدین اب پہلے سے زیادہ قریب قریب بیٹھے ہیں۔ دونوں کے پیروکار آپس میں مل جل رہے ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ انھیں بھی آپس میں اب کھلا رابطہ کرکے ایک مشترکہ کمیٹی بنانا چاہیے، تاکہ دونوں کے نمائندگان اکٹھے حتمی مذاکرات میں شریک ہوسکیں۔ قبل ازیں حکومت نے بھی دونوں سے مذاکرات کے لیے الگ الگ کمیٹیاں بنائی تھیں اور اپوزیشن نے بھی دو الگ الگ کمیٹیاں تشکیل دی تھیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب اس مرحلے پر الگ الگ مذاکرات سے شاید کوئی نئی مشکل کھڑی ہوجائے، اس لیے ضروری ہے کہ آخری مرحلے پر دھرنوں کے دونوں قائدین آپس میں واضح طور پر کسی ہم آہنگی کا اعلان کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کی پیشکش کو بھی خوش آمدید کہنا چاہیے اور اس سلسلے میں اپوزیشن کی کوششوں کا احترام کرتے ہوئے انھیں بھی حتمی مذاکرات میں شریک کیا جانا چاہیے۔ یہ راستہ سب گروہوں کی کامیابی پر منتج ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 405728
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Romania
ایک ایسے وقت کہ جب ہر طرف بغیر کسی دلیل کے دھرنوں کی حمایت کی جا رہی ہے، ایسے میں اسطرح کا انتہائی متوازن تجزیے پیش کرنے پر آپ کا ممنون ہوں۔ آپ جیسے متوازن اور معتدل شخص سے اسی قسم کے تجزیئے کی امید تھی۔
تو کیا اس تجزیہ میں دھرنے کی مخالفت کی گئی ہے؟ مجھے تو نظر نہیں آئی۔ بلکہ نیا پاکستان بننے کی بات کی گئی ہے۔
ہماری پیشکش