0
Friday 1 Nov 2013 14:19

مغربی ممالک میں اسلامی بینکاری کا بڑھتا ہوا رجحان

مغربی ممالک میں اسلامی بینکاری کا بڑھتا ہوا رجحان
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

عالمی اسلامی اقتصادی فورم کے موقع پر برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے سکوک یا اسلامی بانڈز میں تین سو بتیس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان حیران کُن نہیں، مسلم دنیا سے باہر اسلامی سرمایہ کاری یا شرعی مالیات کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ 2012ء کے اختتام تک اسلامی سرمایہ کاری کا مجموعی حجم ایک اعشاریہ چھ کھرب ڈالر تھا اور جس تیزی سے اسے فروغ مل رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے تخمینے لگائے گئے ہیں کہ سن دو ہزار بیس تک یہ چھ اعشاریہ پانچ کھرب ڈالر سے تجاوز کرجائے گا۔ اس وقت پونے چار سو بینک اور مالیاتی ادارے اسلامی شرعی نظام پر عمل کر رہے ہیں جبکہ روایتی مالیاتی نظام پر عمل پیرا دیگر ایک سو دس بینکوں اور مالیاتی اداروں نے کسٹمرز کی ضروریات پوری کرنے کی خاطر اسلامی بینکاری یا شرعی مالیات کے لیے اپنے اداروں میں کھڑکی کھول دی ہے۔ گذشتہ سات برسوں کے عالمی سطح پر سکوک ٹریڈ مارکیٹ کا حجم صفر اعشاریہ پانچ کھرب ڈالر تک پہنچ چکا۔ مذہبی عقیدے کی بنیاد پر مسلم دنیا میں اسلامی مالیاتی نظام زیادہ مقبول ہے، اس میں ملائشیا پوری مسلم دینا میں سرِفہرست ہے۔

مسلم دنیا کی حکومتوں اور تاجروں کے سرمائے کو روایتی بینکاری کی طرف متوجہ کرنے کوششوں کے باوجود، حالیہ برسوں کے دوران مغربی ممالک میں اسے روایتی بینکاری کے مقابلے میں تیزی سے اخلاقی قبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ بلاشبہ، برطانیہ اسلامی بانڈز جاری کرنے والا پہلا مغربی ملک بن چکا ہے، جس کے پیچھے کوالمپور کی جگہ خود کو اسلامی مالیاتی نظام کا عالمی مرکز بنانے اور اسلامی ممالک کے سرمایہ کاروں اور خلیجی معیشت کو اپنی طرف متوجہ کرانے کی خواہش موجود ہے۔ 1980ء کے اوائل میں پاکستان کے اندر نام نہاد سُود سے پاک اسلامی بینکاری کا آغاز ہوا تھا لیکن اسلامی مالیاتی نظام پر استوار مصنوعات متعارف کرانے میں ہم ترقی پذیر مسلم ممالک سے کافی پیچھے کھڑے ہیں۔

صحیح معنوں میں 2001ء میں، پالیسی سازوں نے سرمایہ کاروں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرانے کی خاطر ایک آلے کے طور پر اسلامی بینکاری و مالیاتی نظام کی افادیت تسلیم کی اور اسے فعال کرنے کے ٹھوس اقدامات کیے۔ گذشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں اسلامی بینکاری و مالیاتی نظام کے تیزی سے فروغ کا مشاہدہ ہوا، اس وقت کُل ملکی مالیات و بینکاری حجم کا دس فیصد شرعی اصول پر کی گئی سرمایہ کاری پر مشتمل ہے۔ اس وقت بینکاری میں اس کا شیئر نو سو ارب روپے پر مشتمل ہے۔ سن دو ہزار بیس تک یہ مارکیٹ شیئر دُگنا ہونے کا امکان ہے۔ اس وقت ملکی مالیاتی مارکیٹ میں بچت اور سرمایہ کاری کے لیے مختلف اسلامی مالیاتی مصنوعات جیسے اجارہ، وکالہ اور مشارکہ بھی دستیاب ہیں، اس کے باوجود اسلامی مالیاتی نظام کے قائدین ملائشیا یا دبئی تک پہنچنے کی خاطر ہمارے سامنے طویل راستہ ہے۔

اس ضمن میں پاکستان کو اپنی کوششیں تیز تر کرنے کے ساتھ ساتھ، مزید اسلامی مالیاتی مصنوعات کی تخلیق اور انہیں فروغ دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرینِ مالیات کا کہنا ہے کہ اسلامی مالیاتی نظام میں دولت کی مساویانہ تقسیم اور منصفانہ تجارت کے بڑے مواقع موجود ہیں۔ وزیرِاعظم نواز شریف کا خیال ہے کہ وہ مسلم دنیا اور مغرب کے درمیان موجود خلیج کو پُر کرنے کے ساتھ ساتھ، عالمی استحکام میں کردار ادا کرنے والے ترقی پسند لوگوں کے ذریعے مسلم دنیا کی بہتر تصویر پیش کرسکتے تھے۔ اسے اسلامی مالیاتی نظام کو فروغ دینے کے لیے حکومتی عزم کے طور پر لیا جاسکتا ہے لیکن بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سارا نظام ویسے کا ویسا ہی ہے فقط مذہبی رجحانات کی بدولت اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے اس کا اسلامی بینکاری کا نام استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو اسکی مثال نئی بوتل میں پرانی شراب جیسی ہے۔
خبر کا کوڈ : 316420
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش