1
1
Friday 28 Mar 2014 18:55

راشیل کوری کے بغیر فلسطینیوں کا یوم الارض

راشیل کوری کے بغیر فلسطینیوں کا یوم الارض
تحریر: عرفان علی

1976ء میں وقوع پذیر ہونے والے ایک خاص واقعہ نے مقبوضہ فلسطین کی تاریخ میں مارچ کے مہینے کو اک خاص اہمیت بخشی۔ کسے معلوم تھا کہ27 سال بعد کوئی اور اہم واقعہ بھی سال کے اس تیسرے مہینے کو فلسطینیوں کی زندگی کا ایک اور یادگار مہینہ بنا دے گا۔ 30 مارچ 1976ء کو مقبوضہ الجلیل (Galilee) میں ہزاروں فلسطینی جمع ہوئے اور 14826.3229 ایکڑ عرب زمین کو ناجائز صہیونی اسرائیلی حکومت کے قبضے میں لینے کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ صہیونی افواج نے ان پر حملہ کیا، چھ فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے اور سینکڑوں کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔ یہ صہیونی ریاست کے ناجائز قیام کے بعد صہیونی حکومت کے براہ راست زیر تسلط یا زیرانتظام علاقے کے عرب فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر پہلی پرامن عوامی مزاحمت تھی۔

براہ راست اسرائیلی حکومت کے قبضے میں واقع مقبوضہ فلسطینی علاقو ں میں 17 لاکھ عرب فلسطینی آباد ہیں۔ صہیونیوں کی دہشت گرد ناجائز ریاست اسرئیل کے قیام سے پہلے فلسطین کی 94 فیصد زمین فلسطینی عربوں کی ملکیت تھی اور اب وہ محض تین فیصد زمین کے مالک ہیں۔ اسرائیلی حکومت وقتاً فوقتاً مختلف بہانوں سے ان کی زمین ضبط کرکے انہیں بے دخل کرتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مقبوضہ الجلیل کے فلسطینیوں کے متاثرہ عرب فلسطینیوں نے اسرائیلی تسلط کے خلاف مزاحمت کی تو یہ دن یادگار قرار پایا اور انہوں نے اسے یوم الارض قرار دیا۔ ہر سال یہ دن اسی طرح منایا جاتا ہے۔

اس عوامی مزاحمت کے تقریباً تین سال بعد امریکہ کی ریاست واشنگٹن کے دارالحکومت اولمپیاء میں کریگ کوری کی بیوی سنتھیا کے بطن سے راشیل کوری نامی لڑکی نے جنم لیا۔ کہاں واشنگٹن اور کہاں فلسطین؟ لیکن یہی لڑکی 23 سال کی عمر کو پہنچی تو اپنے آبائی شہر اور رفحہ کو جڑواں شہر بنانے کی خواہش لے کر فلسطین پہنچی۔ کالج میں تعلیم کے دوران فلسطینیوں کی حمایت میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم بین الاقوامی یکجہتی تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ فلسطینیوں کی بدحالی کی چشم دید گواہ بننے کے صرف دو ماہ بعد ہی فلسطینیوں سے محبت اور اسرائیلی ظلم و تشدد کے خلاف احتجاج کو جرم قرار دے کر بغیر کسی عدالت یا مقدمے کے صہیونی بلڈوزر چلانے والے دہشت گرد نے اسے سزائے موت دے دی۔

رفحہ اسی غزہ کا حصہ ہے جو آج بھی اسرائیلی محاصرے میں ہے۔ رفحہ کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے، یہیں سے تو فلسطینیوں کو باہر سے غذا یا دوا پہنچائی جاسکتی ہے، لیکن زیر زمین سرنگوں کو بھی ختم کرکے فلسطینیوں کی لائف لائن بند کی جا رہی ہے۔ یہ مصر کی عرب مسلمان حکومت کا حال ہے۔ وائے ہو ایسی بدبخت فلسطین دشمن مصری حکومت پر۔ دوسری جانب راشیل کوری ایک انسانیت دوست نوجوان امریکی لڑکی تھی۔ وہ یہ برداشت نہیں کرسکتی تھی کہ اس کی نظروں کے سامنے صہیونی اسرائیلی بلڈوزر فلسطینی گھروں کو مسمار کر ڈالیں اور وہ کھڑی دیکھتی رہے۔ 16 مارچ 2003ء کو وہ میگا فون ہاتھ میں لے کر اسرائیلی بلڈوزر میں بیٹھے شقی القلب نسل پرستوں کے سامنے کھڑی چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ رک جاؤ، یہ ظلم مت کرو۔

وہ فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری کو روکنے میں تو کامیاب نہ ہوسکی، لیکن ان گھروں کے پتھروں اور اینٹوں کی طرح خود بھی رزق خاک ہوگئی۔ بلڈوزر نے اسے بھی کچل ڈالا۔ وہ رب کی بارگاہ میں سرخرو پہنچی۔ اس کے چاہنے والوں نے انگریزی میں نوحہ پڑھا کہ آسماں رو رہا ہے۔ نوحہ خواہ انگریزی زبان میں ہو خواہ اردو میں، انسان کے درد و غم کا انعکاس اور اظہار ہوا کرتا ہے۔ حسب توقع واشنگٹن ریاست کی پیدائشی امریکی شہری کی اس المناک موت پر بھی واشنگٹن ڈی سی میں موجود امریکی حکومت اور امریکی کانگریس کی اسرائیل دوستی پر کوئی آنچ نہ آئی۔ امریکہ کے صدور کی اسرائیل دوستی ہیری ٹرومین کے دور سے باراک اوبامہ کے دور تک بے مثال، لازوال ہے!

اسرائیلی حکومت کی طرح صہیونی عدالت نے بھی راشیل کوری کی موت پر صہیونیوں کو بری الذمہ قرار دیا۔ سنتھیا اور کریگ کوری ایک جواں سال بیٹی کے اس بہیمانہ قتل کے بعد انصاف کے منتظر تھے جو آج تک نہیں ہوا۔ کہا گیا کہ راشیل کی موت ایک حادثہ تھی! صہیونیوں کی عبرانی زبان میں، امریکیوں کی انگریزی زبان میں کوئی اس شعر کا ترجمہ کرکے انہیں بتائے کہ 
وقت کرتا ہے پرورش برسوں 
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

راشیل کوری اگر پاکستان میں ماری جاتیں یا ان کے قتل میں کوئی مسلمان یا عرب ملوث ہوتا تو پاکستان سمیت پوری دنیائے عرب اور اسلام کو اس کے سنگین نتائج بھگتنے پڑتے۔ اس کے قاتل کو اسکے ملک سے گرفتار کرکے امریکہ لے جایا جاتا اور ایک لیتھل انجیکشن کے ذریعے سزائے موت دے دی جاتی۔ مارچ کے ان یادگار ایام میں فلسطینیوں کے یوم الارض پر فلسطینیوں کو یاد رکھا جانا، اس دن کا حق ہے اور راشیل کوری کی اس بے مثال قربانی کو یاد رکھنا ایک فرض ہے۔ راشیل کوری دوسری تحریک انتفاضہ کے دوران ماری گئیں، لہٰذا ان کا نام بھی شہدائے انتفاضہ میں شامل ہونا چاہیے۔ الجلیل سے عوامی مزاحمت کا سلسلہ شروع ہوا تھا لیکن یہ شہر آج بھی صہیونی حکومت کے براہ راست تسلط میں ہے۔

اسرائیلی ریڈیو نے حال ہی میں ایک رپورٹ میں نشر کیا ہے کہ الجلیل پر حزب اللہ کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ حزب اللہ سے اگلی جنگ کے لئے نسل پرست صہیونی اسرائیلی افواج نے تیاری شروع کر دی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے مقبوضہ علاقوں کو اسرائیل کے قبضے سے آزاد کرنے کی دفاعی جنگ کی کامیاب مثال ہے۔ 2006ء میں اس نے 33 روزہ جنگ میں بھی اسرائیل کے دانت کھٹے کر دیئے تھے۔ اس نے 1996ء اور مئی 2000ء میں بھی جنوبی لبنان کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کروایا تھا اور وہ علاقے آج بھی لبنان کا ہی حصہ ہیں۔ اسرائیل وہاں سے دور رہنے پر مجبور ہے۔ یوم الارض پر فلسطینیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ انہیں حزب اللہ ماڈل کے تحت آزادی حاصل کرنا ہوگی، تاکہ آزاد شدہ علاقوں میں دوبارہ صہیونی تسلط قائم نہ ہوسکے۔ حماس، حزب جہاد اسلامی، پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین، الفتح اور حزب اللہ کو یاد رہے کہ انتفاضہ کی شہیدہ راشیل کوری کے قتل کا بدلہ لینا ابھی باقی ہے۔
خبر کا کوڈ : 366821
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Good to see this timely article.
ہماری پیشکش