3
0
Sunday 15 Dec 2013 22:17

ملی یکجہتی کونسل کا سترہ نکاتی ضابطہ اخلاق

ملی یکجہتی کونسل کا سترہ نکاتی ضابطہ اخلاق
تحریر: سید اسد عباس تقوی

ملک میں گذشتہ چند ماہ سے بعض مذہبی جماعتوں اور سربرآوردہ دینی شخصیات کی جانب سے ملی یکجہتی کونسل کے سترہ نکاتی ضابطہ اخلاق، جس پر 23 اپریل 1995ء کو لاہور میں منعقد ہونے والے ایک سربراہی اجلاس میں اتفاق رائے کیا گیا تھا، کو قانونی شکل دینے کا مطالبہ سامنے آرہا ہے۔ اس مطالبے میں حالیہ دنوں میں وقوع پذیر ہونے والے چند ایک شدت پسندانہ واقعات کے بعد زیادہ شدت آئی ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے اس ضابطہ اخلاق پر 1995ء میں ملک کی قابل ذکر مذہبی تنظیموں کے سربراہان نے دستخط کیے تھے۔ 1951ء میں پاکستان کے جید علماء کے اتفاق رائے سے منظور ہونے والے 22 نکات کے بعد ملی یکجہتی کونسل کا یہ سترہ نکاتی ضابطہ اخلاق واقعاً دینی قیادت کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ اس دستاویز میں ملک کے نظام اور نفاذ شریعت کے لیے ایک بنیاد پر متفق ہونے کی غرض سے 1951ء کے اجلاس کے 22 نکات کو بنیاد بنایا گیا اور ان پر اعتماد کا اظہار کیا گیا۔

ضابطہ اخلاق کے دوسرے نکتے میں مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت کو خلاف اسلام قرار دیا گیا ہے، علاوہ ازیں اس سے اعلان برات کیا گیا جبکہ تیسرے نکتے میں واضح طور پر لکھا گیا کہ:
کسی بھی اسلامی فرقہ کو کافر اور اس کے افراد کو واجب القتل قرار دینا غیر اسلامی اور قابل نفرت فعل ہے۔
اسی طرح ضابطہ اخلاق کے چوتھے نکتے کی شق (الف) کے تحت
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عظمت و حرمت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کسی طرح کی توہین کے مرتکب فرد کے شرعاً، قانوناً موت کی سزا کا مستحق ہونے پر ہم متفق ہیں۔ اس لئے توہین رسالتؐ کے ملکی قانون میں ہم اس ترمیم کو مسترد کریں گے اور متفق اور متحد ہو کر اس کی مخالفت کریں گے جو توہین رسالت (ص) کے مجرم کو تحفظ دینے کے لیے کی جائے گی۔
اسی نکتے کی شق (ب) کہتی ہے کہ:
عظمت اہل بیت اطہار و امام مہدی، عظمت ازدواج مطہرات اور عظمت صحابہ کرام، خلفاء راشدین ایمان کا جز ہے۔ ان کی تکفیر کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے اور ان کی توہین و تنقیص حرام اور قابل مذمت و تعزیر جرم ہے۔

سترہ نکاتی ضابطہ اخلاق کی بقیہ شقیں عملی نوعیت کی ہیں، مثلاً شرانگیز تحریر و تقریر سے گریز کیا جائے گا۔
 دل آزار کتب، پمفلٹس اور مواد کی اشاعت نہیں کی جائے گی۔
 دل آزار نعروں سے اجتناب کیا جائے گا۔ 
دیواروں، ریل گاڑیوں، بسوں اور دیگر مقامات پر دل آزار عبارتیں نہیں لکھی جائیں گی۔
 تمام مسالک کے اکابرین کا احترام کیا جائے گا۔
 تمام مکاتب فکر کے مقامات مقدسہ اور عبادت گاہوں کا احترام و تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔
 جلسے جلوسوں اور عبادت گاہوں میں اسلحہ کی نمائش نہیں کی جائے گی۔
 عوامی اجتماعات میں اتحاد و وحدت کو فروغ دینے والی تقاریر کی جائیں گی۔
عوامی سطح پر ملی یکجہتی کو فروغ دینے والے اجتماعات کئے جائیں گے۔
مختلف مکاتب فکر کے متفقات اور مشترکہ عقائد کی نشر و اشاعت کا اہتمام کیا جائے گا۔
 باہمی تنازعات کو افہام و تفہیم اور تحمل و رواداری سے حل کیا جائے گا۔

اسی ضابطہ اخلاق کا سترہواں نکتہ جو اس ضابطہ کے نفاذ کے طریقہ کارسے متعلق ہے کچھ یوں ہے:
ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے لیے ایک اعلٰی اختیاراتی بورڈ تشکیل دیا جائے گا، جو اس ضابطہ کی خلاف ورزی کی شکایات کا جائزہ لے کر اپنا فیصلہ صادر کرے گا اور خلاف ورزی کے مرتکب کے خلاف کارروائی کی سفارش کرے گا۔

آج 2013ء اپنے آخری ایام گزار رہا ہے اور 2014ء کی آمد آمد ہے۔ جب یہ ضابطہ اخلاق طے پایا تو بہت سی ایسی جماعتیں اور نظریاتی گروہ تھے جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ تھا۔ جمعیت علمائے پاکستان کو ہی لے لیجیئے، یہ جماعت ایک اکائی تھی جبکہ آج اس جماعت میں تین یا اس سے بھی زیادہ دھڑے تشکیل پاچکے ہیں۔ جمعیت علمائے پاکستان (سواد اعظم)، جمعیت علمائے پاکستان (نیازی)، جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) اور وہ جمعیت علمائے پاکستان جس کی سربراہی آج ڈاکٹر صاحبزادہ ابو الخیر زبیر کر رہے ہیں۔ باقی جماعتوں کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔ اسی طرح اس وقت موجود بہت سی جماعتیں جو اس اجلاس کا حصہ تھیں، آج اتنی فعال نہیں ہیں۔ سپاہ محمد اسی طرح کی ایک جماعت ہے۔ مجلس وحدت مسلمین آج ملی یکجہتی کونسل میں ایک نیا اضافہ ہے، یہ جماعت یا اس کا کوئی ذمہ دار کسی دوسرے عنوان کے تحت بھی، 1995ء کے اجلاس میں شریک نہ تھا۔

ان حقائق کے بیان کا مقصد آپ کے علم میں اضافہ کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ آج ملی یکجہتی کونسل میں آنے والے نئے گروہ بالخصوص شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی بعض قوتیں اگرچہ ملی یکجہتی کونسل کا حصہ ہیں، تاہم درج بالا ضابطہ اخلاق کے نکتہ نمبر ۴ کی شق (ب) پر علمی تحفظات رکھتے ہیں۔ ان گروہوں نے کونسل کے مختلف اجلاسوں میں اپنے ان تحفظات کا برملا اظہار بھی کیا۔ ملی یکجہتی کونسل کے زیراہتمام منعقد ہونے والی عالمی اتحاد امت کانفرنس کے اعلامیہ میں جب درج بالا نکات بالخصوص نکتہ نمبر ۴ شق(ب) کو پڑھا گیا تو مندرجہ بالا گروہوں نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ ہمیں ان نکات کے اعلامیے میں شامل کیے جانے سے متعلق قبل ازیں مطلع نہیں کیا گیا۔ لہذا اعلامیہ کے اس حصے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے بعد کے متعدد اجلاسوں میں جب بھی اس نکتے کا ذکر آیا تو شیعہ مکتبہ فکر کی شخصیات نے ان پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس علمی اعتراض سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ وہ شق میں درج ہستیوں کی نعوذ بااللہ توہین کے قائل ہیں بلکہ اپنے مراجع کے فتاویٰ کی روشنی میں یہ جماعتیں اور ان کے افراد ان ہستیوں کی توہین کو حرام سمجھتے ہیں۔ اعتراض ’’عظمت صحابہ کرام ۔۔۔۔ایمان کا جز ہے‘‘ کے الفاظ پر ہے۔

تاریخی طور پر ثابت ہے کہ صحابیت کا مسئلہ ابتدائے اسلام سے زیر بحث ہے، بعض شخصیات ’’کلھم عدول‘‘ کی قائل ہیں، جبکہ بعض اس کی قائل نہیں۔ علامہ سید ابو الاعلی مودودی نے اس حوالے سے اپنی کتاب خلافت و ملوکیت میں تفصیل سے بحث کی ہے۔ بہرحال ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے، تاہم یہ حق کسی کو حاصل نہیں کہ رائے کے اظہار کا سہارا لے کر کسی کے اکابر کی توہین کرے۔ توہین اور علمی اعتراض میں فرق بھی واضح ہونا چاہیے۔ علمی اعتراض کی گنجائش نہ ہو تو لاکراہ فی الدین والی آیت بے معنی ہو جاتی ہے۔
اسی طرح اگر صحابہ کی تکفیر جو عموماً ہمارے معاشرے میں نہیں ہوتی (نہیں معلوم اس عبارت کی ضرورت کیوں پیش آئی) کی بنیاد پر مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوگا کہ اس شق کا اطلاق 1947ء کے بعد سے کیا جائے گا یا صدر اسلام سے۔ یہ بھی ایک علمی سوال ہے، کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ صدر اسلام کی بعض معتبر شخصیات معروف صحابہ کی تکفیر کی قائل تھیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ مسئلہ علمی نوعیت کا ہے۔ گڑھے مردے اکھاڑنے سے بہتر ہے کہ ہم فقہا کی رائے کو مانتے ہوئے ایک دوسرے کے مقدسات کا احترام کریں، تاکہ رواداری کی فضا کو فروغ ملے۔

جہاں تک ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے 17 نکاتی ضابطہ اخلاق کے نفاذ کا تعلق ہے تو نکتہ نمبر17 میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ ضابطہ کو قانونی شکل دینے کا مطالبہ اس وقت بھی کیا جاسکتا تھا، شاید کیا بھی گیا ہو، تاہم نکتہ نمبر17 میں جو طریقہ کار وضع کیا گیا وہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بعض فریق اس ضابطے کو قانونی شکل دلوانے کے حق میں نہ تھے۔ اس بات کی تائید علامہ سید ساجد علی نقوی جو اس ضابطہ پر دستخط کرنے والے راہنماؤں میں سے ایک ہیں، کی ملی یکجہتی کونسل کے قائمقام صدر کی حیثیت سے پہلی پریس کانفرنس میں ایک صحافی کی جانب سے ضابطہ اخلاق کو قانونی شکل دینے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب سے بھی ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سترہ نکاتی ضابطہ اخلاق ایک ضابطہ ہے اور اخلاقی ضوابط ، قوانین سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صدر اسلام کے اکابر کی توہین، غیر اسلامی، غیر انسانی، غیر ضروری اور مذموم عمل ہے۔ اس سے ان اکابر کو تو شاید کوئی فرق نہ پڑے لیکن معاشرے کے اندر خلفشار اور بدامنی جنم لیتی ہے۔ ہمارا معاشرہ بالخصوص اور پورا عالم اسلام بالعموم اس خلفشار اور بدامنی کا شکار ہے۔ اس عمل کا سدباب کیا جانا نہایت ضروری ہے۔ وہ فقہا جنہوں نے اس عمل کے سدباب کے لیے فتاویٰ دیئے اور مقدسات کی توہین کو حرام قرار دیا، واقعاً لائق تحسین ہیں۔ اس سے بڑھ کر اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہوسکتی کہ اندرونی اختلافات جو صدیوں سے ہمارے مابین خلیج کی صورت میں حائل ہیں اور جن کے سبب عالم اسلام ایک بہت بڑی قوت ہونے کے باوجود دوسروں کا دست نگر ہے، کو کم کرنے کی کوئی سبیل کی جائے اور ملت اپنے اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے عقائد و نظریات کا احترام کرتے ہوئے ایک جسد واحد کی صورت میں بیرونی حملہ آوروں کے سامنے مجتمع ہو جائے۔ 
وہ مخلص افراد جو یہ سمجھتے ہیں کہ قانون سازی کے ذریعے توہین کے اس عمل کو ختم کیا جاسکتا ہے، انھیں چاہیے کہ اپنے دلوں میں وسعت پیدا کریں۔ علمی اعتراض کی گنجائش کا حق دیتے ہوئے ضابطہ اخلاق کے نکتہ نمبر ۴ کی شق (ب) پر فریق ثانی سے گفت شنید کریں اور کسی متفقہ حل تک پہنچیں۔ فریق ثانی کو بھی چاہیے کہ ان افراد کی تشفی و تسکین کے لیے حتی المقدور معاونت کرے۔ خدا ہمیں اسلام کی اس عظیم خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔
خبر کا کوڈ : 330929
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
سوال یہ ہے کہ آغا ساجد علی نقوی نے اس معاہدے پر دستخط کیوں کیے؟ کیا وہ شیعہ قوم کے نمائندے نہیں ہیں؟ کیا انھیں تاریخ کا پتہ نہیں ہے؟
اگر کسی دوست کے پاس جواب ہو تو ضرور دیں۔
Pakistan
انتہائی مبھم الفاظ ہیں شق ب کے
عظمت اہل بیت اطہار و امام مہدی، عظمت ازدواج مطہرات اور عظمت صحابہ کرام، خلفاء راشدین ایمان کا جز ہے

کس کے ایمان کا جز ہے۔۔۔۔۔۔یہی تو اختلافی نکتہ ہے
Pakistan
بالکل آغا ساجد کی جماعت کو اس بات کا جواب دینا چاہیے کہ اس شق پر کیسے دستخط کئے۔ وہ چیز جو ہمارے ایمان کا جز ہی نہیں کو کیسے ایمان کا جز کہا۔۔۔۔ آج برادران کہتے ہیں اسے قانون بنائو، تمھارے قائد نے اس پر دستخط کئے ہیں۔۔۔ قائد نے دستخط کیوں کئے۔؟
ہماری پیشکش