0
Friday 25 Jul 2014 09:43

مسئلہ کشمیر اور فلسطین ایک ساتھ اقوام متحدہ میں زیر بحث آئے

مسئلہ کشمیر اور فلسطین ایک ساتھ اقوام متحدہ میں زیر بحث آئے
اسلام ٹائمز۔ غزہ پر گزشتہ 17 دنوں سے جاری اسرائیلی یورش، جس میں اب تک 770 فلسطینی جان بحق ہوچکے ہیں، کے خلاف کشمیر کے چپے چپے سے احتجاجی مظاہرے بر آمد ہونے کا سلسلہ جاری ہے اور قابض فورسز کے ساتھ کئی مقامات پر جھڑپوں کے دوران اب تک ایک نوجوان جان بحق جبکہ درجنوں زخمی ہوچکے ہیں، مبصرین کے لئے یہ امر انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ مشی پورہ کیموہ کولگام میں کشمیری نوجوان کی ہلاکت دنیا بھر میں غزہ کیلئے ہونے والے احتجاجوں میں ایک اکلوتی ہلاکت ہے، ایسا کیوں ہے؟ اس کیلئے جب تاریخ کے اوراق کی گردانی کی جاتی ہے تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کا تاریخی طور گہرا ربط ہے، 1947ء میں مسئلہ کشمیر وجود میں آیا تو اس کے ایک برس بعد ہی مسئلہ فلسطین پیدا ہوگیا، جہاں مسئلہ کشمیر کی پیدائش کیلئے انگریز کے نقص زدہ تقسیم کے فارمولہ کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے وہیں فلسطین کے قیام میں بھی اسی ملک نے براہ راست رول ادا کیا، یہ بات قابل ذکر ہے کہ دونوں خطوں کا مسئلہ کم و بیش ایک ساتھ اقوام متحدہ میں زیر بحث آیا، جس کی وجہ سے دونوں خطوں کے عوام کے اندر ایک دوسرے کیلئے نرم گوشے موجود ہیں، جب بھی فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کی خبر کشمیریوں تک پہنچی تو کشمیری قوم ان کے درد کو محسوس کرتے ہوئے صدائے احتجاج کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور ان مظاہروں میں اب تک کئی کشمیری نوجوان اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔

کچھ مبصرین کی رائے میں یہ محبت یک طرفہ ہے اور صرف کشمیری قوم ہی فلسطین کے نام پر جان چھڑکنے کیلئے تیار رہتی ہے لیکن ماہر قانون پروفیسر شیخ شوکت کی رائے کچھ الگ ہے، وہ کہتے ہیں کہ فلسطین کے دین پسند طبقہ نے رابطہ عالم اسلامی کے صدر مفتی امین الحسینی کی قیادت میں 1931ء سے ہی مسئلہ کشمیر کے حق میں بات کی ہے اور اب بھی وہاں پر ایک ایسا طبقہ ضرور موجود ہے جو کشمیری مسلمانوں کے در رد کا احساس کرتے ہوئے صدائے احتجاج بلند کرتا رہتا ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ یاسر عرفات کی قیادت میں PLO مسئلہ کشمیر سے لاتعلق رہی کیونکہ ان کا نظریہ سکیولر نظریات کی بنیاد پر رہا ہے۔ سیاسیات کے ایک طالب علم، شبیر احمد بٹ کا ماننا ہے کہ ہندوستان نے NAM میں فلسطین کو رکن کی حیثیت سے جگہ دیتے ہوئے وہاں کی قیادت کی ہمدردیاں خود کیلئے بٹور لیں تھیں جس کی وجہ سے وہاں مسئلہ کشمیر کیلئے PLO کی قیادت زیادہ فعال نہیں رہی۔

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک کے مطابق کشمیری لوگ چونکہ خود حالات کی ستم ظریفی کا شکار رہے ہیں اس لئے دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی قوم کا درد ان کو اپنا درد محسوس ہوتا ہے، اپنے غصہ کو نکالنے کیلئے سڑکوں کا رخ کرتے ہیں اور اپنی جانیں نچھاور کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، کشمیری قوم اس طرح کے واقعات میں صدائے احتجاج بلند کر کے دنیا کی توجہ اپنی مظلومیت کی طرف مبذول کروانے کیلئے بھی کوشاں ہوتی ہے تاہم اس میں ان کو اب تک شاذ و نادر ہی کامیابی حاصل ہوئی ہے، معروف کالم نویس زیڈ جی محمد کے مطابق 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے ارض بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تو کشمیری عوام سڑکوں پر نکل آئے، زیڈ جی محمد کے مطابق ان دنوں کشمیری عوام کیلئے خبروں کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا اور لوگ شوق سے بی بی سی، ریڈیو پاکستان اور آزاد کشمیر ریڈیو سے خبریں سنتے تھے۔

ارض مقدس پر قبضہ کی خبروں سے پورے کشمیر میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی اور احتجاجی مظاہروں کے دوران چرچ لین میں واقع آلا سینٹس چرچ کو نذر آتش کر دیا گیا، 1967ء کے واقعات کے عینی شاہد شبیر احمد نے بتایا کہ دراصل 1967ء میں کشمیر میں ہند مخالف سرگرمیاں جاری تھیں اور جوں ہی اسرائیل کی عرب دنیا پر حملے کی خبر یہاں پہنچی تو لوگوں نے اس کو مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی دنیا تک پہنچانے کا موقع سمجھا اور یہاں احتجاج پھوٹ پڑے، ان کا کہنا تھا کہ احتجاج زبردست تھا ور طلبہ نے احتجاجی مظاہروں کے دوران دو چرچ نذرآتش کئے، ان احتجاجوں میں شرکت کرنے والے محمد ابراہیم قریشی کے مطابق احتجاجوں کے دوران اقوام متحدہ کے دفتر کے قریب فائرنگ کا واقع بھی پیش آیا جس میں کچھ ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں، تاہم ابراہیم قریشی کے ذہن سے یہ بات محو ہے کہ کتنے نوجوان ہلاک ہوئے تھے، ابراہیم کے مطابق احتجاجوں کے دوران اُن کے سر پر بھی ایک پتھر لگا تھا، ان کو اچھی طرح یاد ہے کہ مشتعل مظاہرین نے مولانا آزاد روڑ پر کچھ انگریزوں کو دبوچ کر ان کو مار پیٹ بھی کی تھی۔

1983ء میں جب اسرائیل نے لبنان کے خلاف اعلان جنگ کیا تو کشمیری قوم ایک بار پھر میدان عمل میں آگئی، اور پہلی بار پر تشدد مظاہروں کے ساتھ ساتھ عطیہ خون کا ایک کیمپ منعقد کیا گیا اور عطیہ شدہ خون بیروت لبنان روانہ کیا گیا، عطیہ خون کے کیمپ کا انعقاد کرنے میں کلیدی رول ادا کرنے والے ایڈوکیٹ پرویز امروز نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اُس وقت وکلاء برادری اور تاجر برادری نے ساتھ مل کر لال چوک میں عطیہ خون کا کیمپ منعقد کیا اور ہم نے وہ خون انٹر نیشنل ریڈ کراس کے ذریعہ بیروت روانہ کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بیروت میں یاسر عرفات کے زخمی ہونے کی خبر آئی تھی جس کی وجہ سے یہاں لوگوں میں زبردست اضطراب پیدا ہوگیا تھا اور لوگوں نے بڑھ چڑھ کر عطیہ خون کے کیمپ میں حصہ لیا، انہوں نے کہا کہ اس اقدام کی اُس وقت ہر طرف سے سراہنا کی گئی، 1984ء میں پنجاب میں گولڈن ٹمپل میں موجود سنت جرنیل سنگھ بندرا والا کے خلاف آپریشن بلیوسٹار کیا گیا تو ایک بار پھر کشمیر میں تشدد بھڑک اٹھا جس میں کم و بیش 4 مسلم نوجوانوں جان بحق ہوئے۔

ایک عینی شاہد شبیر احمد کے مطابق آپریشن بلیوسٹار کے خلاف لال چوک کے گردوارہ میں سکھوں کی ایک ریلی منعقد ہوئی، یہاں سے برآمد جلوس نے وزیر باغ میں واقعہ نرن کاری بھون کا رخ کیا اوراس کو آگ لگا دی، اس موقعہ پر وہاں پر فائرنگ ہوئی جس میں جلوس میں شامل چار مسلم نوجوان جان بحق ہوئے۔ شبیر کے مطابق مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 7 جون 1984ء کا دن تھا اور فاروق عبداللہ نے حکومت سنبھالی تھی اور ہم نے پہلی بار وزیر باغ میں ٹئیر گیس شلنگ اور فائرنگ دیکھی، پرویز امروز کے مطابق ان کے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق اب تک 10 کشمیری نوجوان فلسطین کے حق میں ہوئے مظاہروں میں جان بحق ہوچکے ہیں لیکن دنیا کے کسی خطے میں بھی کشمیر کے حوالے سے اس نوعیت کے احتجاج نہیں ہوتے جیسے کہ یہاں ان کیلئے ہوتے ہیں، پرویز امروز نے کہا کہ یہاں جانوں کے اتلاف کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں فوجی و نیم فوجی اہلکاروں کو تحفظ حاصل ہے جس کی وجہ سے انہیں گولی چلانے میں سوچ وچار کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، دنیا کے دیگر خطوں میں جب احتجاج ہوتے ہیں تو وہاں ایسا دیکھنے کو نہیں ملتا۔

پرویز امروز کا کہنا ہے کہ عرب دنیا مسئلہ کشمیر سے ’لا تعلق‘ رہی ہے اور او آئی سی کی اکا دکا قرار دادوں کو ہی ادائیگی فرض تصور کیا جاتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ عرب دنیا کیلئے ہندوستان سے تجارتی تعلقات کشمیری مفادت سے زیادہ اہم ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ یورپی پارلیمنٹ نے کما حقہ کشمیر کے حوالے سے بات کی ہے اور عملی اقدامات اور تحقیقات بھی کروائے ہیں۔ نامور صحافی یوسف جمیل 1970ء میں بُک آف نالیج میں اہانت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ہوئے احتجاجوں کے گواہ ہیں، کعبہ پر مسلح بندوق برداروں کے قبضہ اور مسجد اقصیٰ کے حوالے سے ہوئے کشمیر میں ہونے والے کئی احتجاج نہ صرف انہوں نے دیکھے ہیں بلکہ بطور صحافی انکی عالمی سطح کے اخبارات اور جرائد کیلئے رپورٹنگ بھی کی ہے، یوسف جمیل کہتے ہیں کہ عرب دنیا یا کسی دیگر قوم کے ساتھ زیادتی پر کشمیر میں احتجاج بھڑک اٹھنے کی دو بنیادی وجوہات ہیں، ایک اسلامی جذبہ اخوت اور دوسرا کشمیری قوم کے ذہن میں رچا بسا احساس مظلومیت، جب بھی کسی قوم پر ظلم ہوتا ہے تو یہ زخم کشمیری قوم کو اپنے زخم نظر آتے ہیں اور وہ صدائے احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان واقعات سے کشمیری قوم کو اپنا غم و غصہ کے اظہار کا موقع بھی مل جاتا ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ یہ مظاہرہ ہندوستان مخالف رخ اختیار کر لیتے ہیں۔ تاہم دنیا کے دیگر خطوں میں کشمیر کے حوالے سے لاعلمی، وہ اقوام عالم کی کشمیری کے تئیں بے رخی کے ساتھ ساتھ یہاں کے آزادی پسند خیمے کی ناکامی دیکھتے ہیں، یوسف جمیل کے مطابق عرب دنیا اور دیگر اقوام عالم کیلئے تجارت اور معیشت توجہات کے بنیادی امر ہیں ساتھ ہی جس طرح سے فلسطینی لبریشن آرگنائزشن نے عالمی سطح پر سفارتی تعلقات قائم کرکے مسئلہ فلسطین کو ابھارا تھا اس میں کشمیر قیادت بالکل ناکام رہی ہے کیونکہ ان کی توجہات کا مرکز ہڑتال، سیاست اور آپسی اختلافات ہی رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 401425
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش