0
Tuesday 23 Sep 2014 18:18

ایک اور استاد کا لاشہ گرا

ایک اور استاد کا لاشہ گرا
تحریر: ثاقب اکبر

ایک اور استاد کا لاشہ گرا، ایک اور عالم کراچی کی سرزمین پر مارا گیا، علم و فضل کا ایک اور کوہ گراں زمین بوس ہوا۔ اے کراچی کی سرزمین! تو پھر 18ستمبر 2014ء کو ایک اور شہید استاد کے بےگناہ خون کی شاہد بن گئی۔ ڈاکٹر شکیل احمد اوج کراچی یونیورسٹی کی علوم اسلامی کی فیکلٹی کے نامور اور محترم استاد دن دھاڑے موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ وہ اپنی گاڑی میں اپنے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کے لیے جا رہے تھے، انھیں کیا خبر تھی کہ شہیدوں کے اعزاز میں جو آسمانوں پر تقریبات منعقد ہورہی ہیں انھیں ان میں سے ایک تقریب میں سرخرو ہو کر شریک ہونا ہے۔ پسِ گردن پر لگنے والی ایک گولی انھیں ہم سے جدا کر گئی۔ علم و فضل کی دنیا ایک مرتبہ پھر اداس ہو گئی۔ اس المناک قتل کے محرکات کیا ہیں اور کون سے ناپاک ہاتھ اس ظلم میں شریک ہوئے ہیں ابھی اس کے بارے میں حتمی بات تو کسی کی طرف سے نہیں کہی گئی لیکن تفتیشی ادارے جن پہلوؤں پر کام کررہے ہیں وہ نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سلسلے میں بعض سیاسی اور مذہبی راہنماؤں نے بھی نہایت اہم جہتوں کی نشاندہی کی ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین کا کہنا ہے کہ کراچی میں گذشتہ کئی ماہ سے مختلف پروفیشنلز کو دہشت گردوں کی جانب سے چن چن کر فائرنگ کرکے قتل کیا جا چکا ہے جبکہ شہر میں فرقہ واریت کی بنیاد پر قتل و غارتگری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تاہم شہر میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کے تدارک اور پروفیشنلز اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے کسی قسم کے ٹھوس اقدامات بروئے کار نہیں لائے جارہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہر کو سفاک دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کراچی آپریشن دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے کے لیے شروع کیا گیا تھا لیکن دہشت گردوں کی قتل و غارتگری کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں کراچی کے آپریشن کو بےنتیجہ ثابت کررہی ہیں، اگر کراچی آپریشن کے دوران دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ٹھوس کارروائی کی جاتی تو آج شہر میں فرقہ واریت کی بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہوتی اور نہ ہی علمی اور مذہبی شخصیات کو نشانہ بنا کر قوم کو تاریک اندھیروں میں دھکیلنے والے اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب ہوتے۔

پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج سے کس کو شکایت تھی اور کون ان کے خون کا پیاسا تھا اس سلسلے میں آج جو بات سب سے زیادہ زبان زد عام ہے اس کا ذکر کراچی کے ایس ایس پی پیر محمد شاہ نے خود کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر شکیل اوج کے خلاف توہین رسالت کے الزام میں کراچی کے ایک مدرسے سے فتویٰ بھی جاری کیا گیا تھا جس کے بعد موبائل پر انھیں واجب القتل قرار دے کر ایس ایم ایس کے ذریعے اس پیغام کو عام کیا گیا۔ ان کے جن افکار پر اعتراض کیا جاتا تھا ان کا ذکر خاص طور پر مغربی ذرائع ابلاغ نے کیا ہے۔ جرمنی کے ریڈیو نے اس سلسلے میں کہا کہ 54سالہ پروفیسر محمد شکیل اوج کو ان کے ’’آزاد مذہبی خیالات‘‘ کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ انھوں نے چند ایک متنازعہ فتوے جاری کررکھے تھے، جن میں ایسے فتوے بھی شامل تھے کہ ’’مسلمان خاتون غیر مسلمان سے شادی کا بندھن باندھ سکتی ہے‘‘ اور’’ خواتین کو نماز پڑھنے سے قبل سرخی اور نیل پالش ہٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ یہ امر اہم ہے کہ ایسے خیالات پاکستان میں چند قدامت پسند حلقوں میں انتہائی ناپسند کیے جاتے ہیں۔ فقہی نقطۂ نظر سے یہ بات اہم ہے کہ طہارت یا وضو کے بعد نیل پالش کا لگایا جانا طہارت یا غسل سے پہلے نیل پالش کے ہونے سے ایک مختلف امر ہے۔ اگر کسی عالم نے وضو کے بعد یا حالت طہارت میں جس میں نماز ادا کی جاسکتی ہو خواتین کو نیل پالش لگانے کی اجازت دی ہے تو اسے وضو سے ماقبل نیل پالش لگانے پر قیاس کرنا سوائے جمود فکر کے اور کیا کہلا سکتا ہے۔ فرعی مسائل میں فتاویٰ میں اختلاف کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اس پر عدم برداشت کا اس حد تک پہنچ جانا کہ کسی مسلمان یا عالم کی جان ہی کے درپے ہو جانا نہایت دردناک ہے۔ اسی طرح دیگر فقہی مسائل میں ڈاکٹر شکیل اوج کے کسی نظریے سے اپنے دلائل و شواہد کی بنیاد پر دیگر علماء کو اختلاف کرنے کا حق پہنچتا ہے لیکن اختلاف نظر کی بنا پر انھیں قتل کرنے کا حق کسی کو نہیں پہنچتا تھا۔

پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کے افسوسناک قتل کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ پیشہ وارانہ رقابت کا نتیجہ ہے جسے ان سے شکایت رکھنے والے بعض اساتذہ نے مذہبی رنگ دے لیا تھا۔ ڈاکٹر شکیل اوج کی غیر معمولی ترقی پر بعض اساتذہ کو شکایت تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے وائس چانسلر بننے کا بھی امکان تھا۔ یہ امکان ان کے مخالفین کے لیے اور بھی پریشان کن ہو گیا تھا۔ ان کی طلبہ اور عوام میں مقبولیت بھی حاسدانہ چشمک کا باعث بنی ہوئی تھی۔ بعض اساتذہ کے خلاف خود ڈاکٹر شکیل احمد نے مقدمہ بھی درج کروایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان اساتذہ کو بعدازاں انھوں نے معاف بھی کر دیا تھا لیکن ان کی شہادت کے بعد ان اساتذہ کو بھی شامل تفتیش کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے جامعہ کراچی کے ڈاکٹر عبدالرشید، ڈاکٹر سمیع الزماں اور ڈاکٹر نصیر کو حراست میں لے لیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تینوں افراد سے مقتول شکیل اوج کے قتل سے متعلق تفتیش جاری ہے۔ ایس ایس پی ایسٹ کے مطابق پروفیسر شکیل احمد اوج نے 2012ء میں ان کے خلاف قتل کی دھمکیاں دینے کا مقدمہ درج کروایا تھا جس کے بعد پولیس نے تینوں اشخاص کو گرفتار کیا تھا تاہم بعد ازاں مقتول نے انھیں معاف کر دیا تھا۔

ایس ایس پی پیر محمد شاہ کے مطابق ڈاکٹر شکیل کے خلاف توہین رسالت کے الزام میں ایک دیوبندی مدرسے جامعہ دارالعلوم کراچی سے ایک فتویٰ جاری کیا گیا تھا جس میں انھیں مرتد قرار دیا گیا تھا۔ تاہم مولانا رفیع عثمانی نے اس کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر شکیل اوج نے اس سلسلے میں ہمیں ایک خط لکھا تھا جس کے ساتھ فتوے کی کاپی بھی منسلک تھی لیکن دارالعلوم کے دارلافتاء سے تحقیق کرنے کے بعد انھیں بتا دیا گیا تھا کہ یہ فتویٰ دارالعلوم کی طرف سے جاری نہیں کیا گیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق پروفیسر شکیل اوج کے خلاف چلائے جانے والے ایس ایم ایس کی عبارت یہ تھی ’’ رسول اور قرآن کی گستاخی کے مرتکب ڈاکٹر شکیل پر لعنت ہو ،ان کی بس ایک ہی سزا ہے۔۔۔موت‘‘۔ ڈاکٹر شکیل اوج نے اس ایس ایم ایس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کے بعد پولیس کو جو مقدمہ درج کروایا اس میں ان کا کہنا تھا کہ میرے خلاف کیے جانے والے پراپیگنڈا کی وجہ سے میری زندگی کو خطرہ ہے ،مجھے قتل بھی کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر شکیل اوج اگرچہ بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے تاہم وہ اپنے مکتب فکر سے باہر بھی مقبولیت کا ایک حلقہ رکھتے تھے۔ وہ جدید تعلیم یافتہ حلقے میں بھی پسند کیے جاتے تھے۔ ان کے بلند علمی قد کاٹھ سے کسی کو انکار نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیہمانہ قتل پر ملک کے طول و عرض میں غم و اندوہ کا اظہار کیا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ماضی میں قتل کیے جانے والے محترم اساتذہ کرام کے قاتلوں کو گرفتار کرکے ان کی ماہیت کو بے نقاب کیا جاتا اور انھیں قرار واقعی سزا دی جاتی تو آج ڈاکٹر شکیل اوج ہم سے جدا نہ ہوتے۔ ان کے المناک سانحہ شہادت پر ہمیں بہت سے شہید اور مقتول اساتذہ یاد آ رہے ہیں جن میں پروفیسر اظہر زیدی، پروفیسر سید اظفر رضوی، پروفیسر سبط جعفر، پروفیسر شمیم خان، پروفیسر سید تقی ہادی، پروفیسر جاوید قاضی، پروفیسر اسد عثمان، پروفیسر انیس انور، پروفیسر فہیم رضا، پروفیسر سید ضیغم عباس، پروفیسر محمد عباس، پروفیسر اصغر حسین زیدی، پروفیسر مہتاب عالم، پروفیسر سلمان علی، پروفیسر ڈاکٹرحیدر رضا رضوی، پروفیسر سیف الدین جعفری اور حال ہی میں قتل کیے جانے والے مفتی محمد نعیم کے داماد مولانا مسعود بیگ اور دیگر بہت سے نام شامل ہیں۔
خبر کا کوڈ : 411226
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش