0
Wednesday 4 Dec 2013 22:50

نیوکلیئر معاہدہ، امریکہ نے اپنا رویہ بدلا ہے، ایران اپنے موقف سے نہیں ہٹا، ڈاکٹر حسن عسکری

نیوکلیئر معاہدہ، امریکہ نے اپنا رویہ بدلا ہے، ایران اپنے موقف سے نہیں ہٹا، ڈاکٹر حسن عسکری
پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ سیاسیات کے سابق چیئرمین ڈاکٹر حسن عسکری رضوی معروف تجزیہ کار بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ اپنے غیرجانبدارانہ تجزیوں کے باعث مشہور ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے ایران اور دنیا کے چھ ممالک کے درمیان نیوکلیر ٹیکنالوجی کے معاہدے کے بارے میں انٹرویو کیا ہے، جس کا پہلا حصہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر حسن عسکری رضوی صاحب! ایران اور فائیو پلس ون کے درمیان نیوکلیر ٹیکنالوجی کے حوالے سے جو معاہدہ ہوا ہے، اسے آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان نیوکلیر ٹیکنالوجی پر جو معاہدہ ہوا ہے اسے بین الاقوامی سیاست میں مثبت پیش رفت سمجھا جائے گا، کیونکہ اس سے ایک بہت بڑا تنازع جو ایران اور مغربی ممالک کے درمیان تقریباً دس سال سے زیادہ عرصے سے موجود تھا، اس کے حل کرنے کا راستہ نکل آیا ہے۔ اس سے بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر جو تناو تھا، اس کے کم ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں اور ایران کے لئے بھی ایک نیا موقع آیا ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری میں زیادہ قریبی تعلقات استوار کرکے یورپ سے اپنے مفادات کو بین الاقوامی سطح پر آگے بڑھائے۔

اسلام ٹائمز: معاہدہ کس کی ضرورت تھا، امریکہ یا ایران کی۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: میرا خیال ہے کہ معاہدہ دونوں ممالک کی ضرورت تھا اور دونوں نے اکاموڈیشن شو کی ہے، مثلاً ایران ہمیشہ سے موقف رکھتا رہا ہے کہ اس کا نیوکلیر پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے اور اس نے ایٹمی ہتھیار نہیں بنانے، لیکن دنیا ایران کے اس دعوے پر یقین نہیں کرتی تھی۔ پھر اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران کو نقصان ہو رہا تھا۔ اس کی تجارت پر کافی منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔ تین قسم کی شرائط ایران کے خلاف لگائی گئی تھیں۔ ایک امریکہ کی اور دوسری یورپی ممالک کی۔ تو میرا خیال ہے کہ ایرانی قیادت نے سوچا کہ جب ہم نے ایٹمی ہتھیار بنانے ہی نہیں تو اس تنازع کو defuse کیا جائے۔ اس سے ایران کو مزید مواقع ملیں گے۔ دونوں طرفین نے یہ بات کہ مذاکرات کس طرح آگے بڑھائے جائیں کھل کر بات کی ہے۔ دونوں نے کہ کس طرح سے انٹرنیشنل کمیونٹی کو یقین دلایا جائے کہ اس کا نیوکلیر پروگرام پرامن ہے، اس کے لئے ایٹمی معائنہ کاروں کے اقوام متحدہ کے ادارے آئی اے ای اے کی جتنی پابندیاں ہیں۔ ایٹمی عدم پھیلاو کے معاہدے (Non-proliferation Treaty) کے مطابق ایٹمی تنصیبات کے معائنے پر کی رضامندی کا اظہار کر دیا ہے اور یہ بھی کہہ دیا ہے کہ پرامن مقاصد سے زیادہ یورینیم کی enrichment نہیں کریں گے۔ 

امریکہ کی ابتدائی پوزیشن یہ تھی کہ ایران کا جو نیوکلیر پروگرام ہے بالکل ختم ہونا چاہیئے اور امریکہ دھمکیاں بھی وقتاً فوقتاً ایران کو دیتا رہا ہے۔ اس میں ہمیں لچک یہ نظر آئی کہ ایران کا جو پرامن مقاصد کے لئے پروگرام تھا، اس حق کو تسلیم کرلیا گیا ہے، یعنی ایران پانچ فیصد تک یورینیم enrich کرسکے گا اور وہ نیوکلیر ٹیکنالوجی کو استعمال کرسکتا ہے۔ امریکہ کے نقطہ نظر سے یہ معاہدہ اس لئے اچھا ہے کہ وہ ایران کو دھمکیاں تو دیتا تھا کہ حملہ کر دے گا لیکن حملہ کرنا کوئی اتنا آسان کام نہیں ہے کیونکہ اس سے علاقے میں جو عدم استحکام پیدا ہوتا ہے وہ امریکہ کے لئے سنبھالنا بڑا مشکل تھا۔ امریکہ کا عراق اور افغانستان کا تجربہ بہت تلخ رہا ہے۔ اس لئے فوجی آپشن کو وہ استعمال کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آتا تھا۔ لہٰذا انہوں نے بھی سمجھا کہ سفارتکاری کے ذریعے اگر ایران بھی لچک کا مظاہرہ کر رہا ہے تو وہ بھی کرے، تاکہ ڈپلومیسی سے حالات ٹھیک کئے جائیں۔ کیونکہ اس علاقے میں کشیدگی سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچتا ہے۔ امریکی مفادات عرب بادشاہتوں اور عرب ممالک میں ہیں تو امریکہ سمجھتا ہے کہ ان کا تحفظ اب بہتر طریقے سے ہوسکے گا۔ 

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر صاحب! اس معاہدے کی ٹائمنگ کے حوالے سے کیا کہتے ہیں کہ جب نئے ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی منتخب ہوئے ہیں تو یہ حتمی شکل اختیار کرسکا۔ ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کے دور میں ایسا ممکن نہیں ہوسکا؟ یہ قیادت کی تبدیلی کی وجہ سے ہوا یا معمول کی بات ہے۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: دیکھیں یہ قیادت کی تبدیلی اور نئی قیادت کی سوچ ہے۔ یہ باتیں سابق صدر جمہوری اسلامی ایران محمود احمدی نژاد کے دور میں بھی موجود تھیں۔ امریکہ اس زمانے میں سخت گیر رویہ اختیار کئے ہوئے تھا اور ایران کی اسلامی حکومت بھی یہ کمٹمنٹ دینے کو تیار نہیں تھی کہ بین الاقوامی اداروں کو نیوکلیر تنصیبات کے معائنے کی اجازت دیں، جو یہ کنفرم کرے کہ ایران وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا۔ میرا خیال ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ایرانی قیادت نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے جو کہ ایک مثبت عمل ہے۔ پھر ایران نے جذباتیت کی بجائے اپنے طویل المدتی مفادات کو دیکھا ہے، کیونکہ ایران کی معیشت میں بہت طاقت ہے۔ ایران کے پاس تیل ہے، ایران کے پاس گیس ہے، یہ قدرتی وسائل ان کی قوت ہیں۔ دیکھیں اس کو بہت نقصان ہو رہا تھا، تیل کی سیلز تقریباً ساٹھ فیصد نیچے آگئی تھیں۔ 

میرا خیال ہے کہ موجودہ ایرانی قیادت نے محسوس کیا کہ اگر وہ اپنے اکنامک پوٹینشل کو مکمل طور پر حاصل کرلیں، جو کہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ چلنے اور فائدہ اٹھانے سے ہے۔ پھر ایران کی جو صلاحیت، سعودی عرب کی علاقے میں اہمیت اور صلاحیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، یہ اہمیت عالمی برادری ساتھ چلنے سے بڑھ سکتی ہے۔ اس کے باوجود کہ محاذ آرائی ہو رہی ہے، تو ہم ایک موثر کردار ادا کریں۔ ایرانی قیادت کی سوچ میں اور ان کے مقصد میں تبدیلی نہی ہے، لیکن ان کی حکمت عملی میں ہمیں تبدیلی ضرور آئی ہے۔ دوسرا میرا خیال ہے کہ جہاں ایران میں تبدیلی آئی ہے، وہیں امریکہ کا رویہ بھی بدلا ہے اور وہ دشمی جو امریکہ پہلے دکھا رہا تھا، اوبامہ نے الیکشن کے وقت اور اس کے بعد اسے کم کیا ہے تو اس سے مذاکراتی عمل ممکن ہوسکا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: تو کیا سمجھ لیا جائے کہ ایران نے اپنا ایٹمی پروگرام ختم کر لیا ہے۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: دیکھیں اس سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایران کا پروگرام ختم ہوا ہے۔ آپ یہ بات ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ایران اس بات پر رضامند ہے کہ وہ جو ایٹمی ہتھیار بنانے کے راستے پر نہیں آئے گا، ہتھیار نہیں بنائے گا۔ جہاں تک پرامن مقاصد کے لئے نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا استعمال ہے وہ ایران کا حق Non-proliferation Treaty سے بھی ملتا ہے، چونکہ ایران نے 1970ء کے ایٹمی عدم پھیلاو Non-proliferatio Treaty پر دستخط کئے ہوئے ہیں۔ جس کے تحت پرامن مقاصد کے لئے کوئی ممبر ملک استعمال کرسکتا ہے۔ ایران کے پاس پرامن مقاصد کے لئے جو ری ایکٹرز جو استعمال ہوں گے وہ کام کرتے رہیں گے۔ صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو weapon-grade کی جو Uranium enrichment ہے وہ ایران جو منصوبہ بنا رہا تھا، اب نہیں کرے گا، لیکن پرامن مقاصد کے لئے یہ پروگرام ہوگا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایران کا ایٹمی پروگرام محدود ہوا ہے، ختم نہیں ہوا۔

اسلام ٹائمز: کیا ایسا نہیں لگتا کہ ایران اپنے معروف نعرے مرگ بر امریکہ سے بھی انحراف کرگیا ہے؟ اور ایرانی حکومت کو سخت گیروں (hardliners) کی طرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: بالکل آپ کی بات صحیح ہے کہ مخالفت تو ایران کے اندر امریکہ کے خلاف سخت گیر نظریاتی موقف رکھنے والوں کی طرف سے ہوگی۔ وہی جو مرگ بر امریکہ کا نعرہ لگاتے ہیں، وہ نظریاتی لوگ ہیں تو یقیناً وہ ناخوش ہوں گے اور اس کی مخالفت بھی کریں گے، لیکن حکومت میں موجود افراد کی بھی حمایت اچھی خاصی ہوگی، چونکہ یہ نعرہ لگانا اپنی جگہ لیکن ملک چلانا اور نئی نسل کو بہتر مستقبل دینا کسی بھی حکومت کے لئے بڑا اہم ہوتا ہے۔ 
لگتا یہ ہے کہ ایران کی جو موجودہ قیادت ہے، اسکی سوچ میں جو ایک تبدیلی آرہی ہے اور ایک حقیقت پسندی کی طرف جا رہے ہیں، یہ ایک ٹرانزیشن ہے کہ مکمل طور پر نظریاتی سوچ جو ہے۔، ایرانی نظام جو ہے وہ حقیقت پسندی کی طرف جا رہا ہے۔ اس میں یہ نہیں کہ وہ نظریات کو چھوڑ دیں گے اور نہ ہی وہ نظریات بدلیں گے، لیکن میرا خیال ہے کہ وہ اس کا طریقہ کار بدلیں گے۔ البتہ وقتاً فوقتاً آپ کو امریکہ مخالف اقدامات بھی نظر آئیں گے، لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کے امکانات بڑھا رہے ہیں، لیکن یقینی طور علاقے اور ایران کے اندر اس کی مخالفت ضرور ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 327194
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش