0
Saturday 21 Sep 2013 09:53

بھارتی فوج کے سربراہ نے عمر عبداللہ حکومت کا تختہ پلٹنے کی سازش رچائی، رپورٹ

بھارتی فوج کے سربراہ نے عمر عبداللہ حکومت کا تختہ پلٹنے کی سازش رچائی، رپورٹ
رپورٹ: جاوید عباس رضوی

عمر عبداللہ سرکار کا تختہ پلٹنے کیلئے فوجی سازش کا سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے جس کے تحت بھارت کے سابق فوجی سربراہ جنرل وی کے سنگھ نے ملٹری انٹیلی جنس کا خصوصی یونٹ قائم کر کے مخلوط سرکار میں شامل ایک سینئر وزیر کو خفیہ فنڈ سے 1.19 کروڑ روپے بھی فراہم کئے تھے، رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ جنرل وی کے سنگھ نے موجودہ فوجی سربراہ جنرل بکرم سنگھ کی ترقی رکوانے کیلئے بھی کروڑوں روپے خرچ کروائی، فوج کی اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ جنرل وی کے سنگھ نے موجودہ فوجی سربراہ جنرل بکرم سنگھ کی ترقی رُکوانے کیلئے بھی کروڑوں روپے خرچ کروائے، کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ فوج کے سابق سربراہ کے کہنے پر سال 2010ء میں سرینگر میں 8 کروڑ روپے مالیت کے خصوصی آلات نصب کئے گئے جن کو سال 2012ء میں حیرت انگیز طور پر تباہ کردیا گیا، اس دوران وی کے سنگھ اور مذکورہ ریاستی وزیر نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔

ایک بھارتی انگریزی روزنامہ ’’انڈین ایکسپریس‘‘ میں جمعہ کے شمارے میں شائع ایک خصوصی رپورٹ میں اس بات کا سنسنی خیز انکشاف کیا گیا ہے کہ فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) وی کے سنگھ نے اپنی پوزیشن کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے نہ صرف جموں کشمیر کی سرکار کو گرانے کی کوشش کی بلکہ ان کی نگرانی میں سرحد پار تک اعلیٰ حکام کی اجازت کے بغیر فوجی کارروائیاں انجام دی گئیں، یہ معاملہ اْس وقت سامنے آیا جب فوج کے موجودہ سربراہ جنرل بکرم سنگھ نے سابق فوجی سربراہ کے دور میں قائم کئے گئے ملٹری انٹیلی جنس کے علیحدہ اور خفیہ ترین یونٹ ’’ٹیکنکل سروسز ڈویڑن‘‘ (TSD) کے کام کاج کے بارے میں چھان بین عمل میں لانے کے احکامات صادر کئے، گذشتہ برس مارچ کے مہینے میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ مذکورہ یونٹ نے اس وقت وزارت دفاع کے اعلیٰ حکام کے فون ٹیپ کئے جب سابق فوجی سربراہ کے بارے میں تاریخ پیدائش کا تنازعہ عروج پر تھا۔

اس انکشاف کے بعد فوجی سربراہ نے یونٹ کے بارے میں تحقیقات عمل میں لانے کے لئے ایک خصوصی انکوائری کمیٹی بٹھائی تھی جسے دفاعی اصطلاح میں ’’بورڈ آف آفیسرس‘‘ یعنی BOO کے نام سے جانا جاتا ہے، معلوم ہوا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹنٹ جنرل ونود بھاٹیا کی سربراہی میں اعلیٰ فوجی افسران نے تحقیقات مکمل کرنے کے بعد اپنی رپورٹ وزارت دفاع کو پیش کی ہے، تحقیقاتی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ جنرل (ر) وی کے سنگھ نے اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے جموں کشمیر میں عمر عبداللہ کی قیادت والی حکومت کا تختہ پلٹنے کے لئے ہی TSD کا قیام عمل میں لایا تھا جس سے سرکار گرانے کی سر توڑ کوششیں کیں جو ناکام ثابت ہوئیں۔

یہ کوشش غالباً ریاستی سرکار کی طرف سے افسپا کی مخالفت کئے جانے کے تناظر میں کی گئیں، رپورٹ کے مطابق ریاستی سرکار کو غیر مستحکم بنانے کے لئے سابق فوجی سربراہ نے زراعت کے موجودہ ریاستی وزیر غلام حسن میر کو ایک کروڑ 19 لاکھ روپے بھی دئے تھے جس کی مذکورہ وزیر نے پر زور الفاظ میں تردید کی ہے، میر نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ میں نے نامساعد حالات کے دوران ریاست میں قدرامن بنائے رکھنے کے لئے کام کیا ہے انہوں نے کہا کہ وہ ایک کھلی کتاب کی مانند ہے اور وہ شاطرانہ کھیلوں اور درپردہ سازشوں پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔

حسن میر نے کہا ہے کہ اس معاملے کے ساتھ ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، انہوں نے کہا یہ تنازعہ اندرونی دشمنی کا نتیجہ ہے، میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ایک سفید جھوٹ ہے، میر نے بتایا کہ انہوں نے ریاست اور حکومت کو مستحکم بنانے کے لئے تن دہی سے کام کیا ہے اور سال 2010ء کے دوران اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ ریاستی سرکار مستحکم رہے، انہوں نے بتایا کہ اس معاملے میں ان کا نام بلاوجہ گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے، خفیہ رپورٹ کے مطابق حقیقت سنگھ نامی شخص کو بھی خفیہ فنڈ میں سے 2.38 کروڑ روپے فراہم کئے گئے جس نے ’’کشمیر ہیومین ٹیرئن سروس آرگنازیشن‘‘ کے نام سے ایک رضاکار تنظیم معرض وجود میں لائی، اس تنظیم کا ’’یس کشمیر‘‘ نامی ایک اور تنظیم کے ساتھ تعلق تھا جس نے موجودہ فوجی سربراہ جنرل بکرم سنگھ کے خلاف فرضی انکاونٹر سے متعلق پٹیشن دائر کی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹی ایس ڈی نے جنرل بکرم سنگھ کی فوجی سربراہ کے بطور ترقی میں روڑے اٹکانے کی کوشش بھی کی تھی، بھاٹیا کمیٹی نے ٹی ایس ڈی کی طرف سے جموں کشمیر کی حدود میں عمل میں لائی گئی کارروائیوں پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ مذکورہ یونٹ مبینہ طور ’’غیر مجازی‘‘ کارروائیاں عمل میں لائیں، یہاں تک کہ اس طرح کی کارروائیاں حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کی اجازت کے بغیر سرحد پار بھی انجام دی گئی ہونگی۔

خصوصی خفیہ یونٹ پر الزام ہے کہ اس کے ہاتھوں فوج کے موجودہ افسران کے خلاف فنڈس کا استعمال کیا اور قریب 8 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا ارتکاب کیا، یہ 8 کروڑ روپے سال 2010ء میں سنگاپور کی ایک کمپنی سے ’’انٹر سیپشن‘‘ آلات خریدنے پر صرف کئے گئے جو سرینگر میں قائم فوج کی 15ویں کور کے ہیڈکوارٹر میں نصب کئے گئے اور مارچ 2012ء میں حیرت انگیز طور پر ان آلات کو تباہ کردیا گیا، انڈین ایکسپریس کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ بورڈ آف آفیسرس کی مرتب کردہ رپورٹ کو وزارت دفاع کے پاس کارروائی کیلئے بھیجا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق وزیر دفاع اے کے انٹونی نے اس سنسنی خیز رپورٹ میں کہی گئی باتوں اور کئے گئے سنسنی خیز انکشافات کا معاملہ بھارتی وزیر اعظم کے دفتر تک پہنچانے کی ہدایت جاری کر دی ہیں، بتایا جاتا ہے کہ باٹیہ کمیٹی کی مرتب کردہ رپورٹ کا وزارت دفاع اور وزیر اعظم دفتر میں اعلیٰ سطحی جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ اس میں کئے گئے انکشافات کی روشنی میں آئندہ ایسی سرگرمیوں پر روک لگانے کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے جا سکیں، کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ان تمام معاملات کے بارے میں سابق فوجی سربراہ کے خلاف تحقیقات کرانے کی سفارش کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ تحقیقات فوج کے کسی اندرونی ادارے کے ہاتھوں نہیں ہونی چاہئے تاکہ کمیٹی کے بارے میں یہ تاثر نہ دیا جائے کہ اس نے سابق فوجی سربراہ کے خلاف کارروائی عمل میں لائی ہے۔

اس ضمن میں کمیٹی نے تجویز پیش کی ہے کہ چھان بین مرکزی تفتیشی بیورو یعنی سی بی آئی کے ذریعے کرائی جائے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا ششی کانت شرما نے دفاعی سیکریٹری کی حیثیت سے TSD کو فنڈس کی فراہمی یہ کہتے ہوئے روک دی تھی کہ انہیں رقومات صرف کرنے کے بارے میں شفافیت کا فقدان نظر آیا تھا، بھاٹیا کمیٹی نے ان الزامات کی چھان بین بھی عمل میں لائی ہے کہ سابق فوجی سربراہ جنرل (ر) وی کے سنگھ کے دور میں سینئر فوجی افسران کے خلاف عدالتی کیس دائر کرنے کے لئے ملٹری انٹیلی جنس فنڈس کا ناجائز استعمال کیا گیا۔

معلوم ہوا ہے کہ جنرل بکرم سنگھ کے فوجی سربراہ بننے کے بعد مذکورہ یونٹ کو تحلیل کرنے کی کارروائی شروع کردی گئی اور اس سے منسلک افسران کو وہاں سے تبدیل کرکے دوسری جگہوں پر تعینات کیا گیا، یہ یونٹ براہ راست سابق فوجی سربراہ کو رپورٹنگ کرتا تھا اور اس پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے وزارت دفاع سے باہر بھی خصوصی آلات کے ذریعے لوگوں کی گفتگو تک رسائی حاصل کی ہوگی، بتایا جاتا ہے کہ وزیر اعظم آفس اور وزارت دفاع نے اس رپورٹ کا جائزہ لیا ہے اور عنقریب معاملے کی چھان بین کے باضابطہ احکامات جاری ہونگے، نئی دہلی میں مرکزی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے اور اسکی تحقیقات کے احکامات صادر کئے جائیں گے۔ اطلاعات و نشریات کے مرکزی وزیر منیش تیواری نے نئی دہلی میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ فوج کی رپورٹ کا جائزہ لیا جارہا ہے اور قصور وار کے خلاف کارروائی کی جائے گی، انہوں نے واضح کیا کہ اگر کسی بھی سابق یا موجودہ آفیسر کو قصور وار پایا گیا تو حکومت مناسب کارروائی عمل میں لائے گی۔

ادھر سابق بھارتی فوجی سربراہ جنرل (ر) وی کے سنگھ نے ان الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام سیاسی شعبدہ بازی کا نتیجہ ہے، سابق فوجی سربراہ نے کہا ’’یہ سادہ شعبدہ بازی ہے اور لوگ میرے نریندر مودی کے ساتھ بیٹھنے سے خوش نہیں ہیں، انہوں نے مزید بتایا کہ اگر کسی نے یونٹ کے بارے میں تحقیقات عمل میں لانے کی سفارش کی ہے تو وہ شخص اپنی ٹوپی کے بل پر بات کررہا ہے کیونکہ یونٹ کی سرگرمیاں خفیہ رکھنا مقصود ہے، دریں اثناء  بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس معاملے کو سابق فوجی سربراہ کے خلاف سازش سے تعبیر کیا ہے جبکہ کانگریس کا کہنا ہے کہ اس بات کا پتہ لگایا جانا چاہئے کہ جنرل (ر) وی کے سنگھ اپنی حیثیت میں ایسا کررہے تھے یا انہیں کوئی سیاسی پشت پناہی حاصل تھی۔
خبر کا کوڈ : 303794
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش