2
0
Friday 11 Apr 2014 18:03

اسرائیل کی استثنائی حیثیت اور فلسطین کا مستقبل

اسرائیل کی استثنائی حیثیت اور فلسطین کا مستقبل
تحریر: عرفان علی 
 
پچھلے مہینے مقبوضہ فلسطین کی نیم خود مختار انتظامیہ کے صدر محمود عباس اور ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نے واشنگٹن میں امریکی صدر باراک اوبامہ سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کی۔ برطانیہ کے وزیراعظم نے 12 اور 13 مارچ کے درمیان 24 گھنٹے کے دورے میں 22 گھنٹے صہیونیوں کے ساتھ گذارے اور 2 گھنٹے فلسطینی انتظامیہ کو شرف ملاقات بخشا۔ فلسطینی قیدیوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے یورپی پارلیمنٹ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے اپنا دورہ 22 مارچ کو مکمل کیا، صہیونی حکومت نے ان کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا۔ ہمیشہ کی طرح ان دوروں اور ملاقاتوں سے فلسطینیوں کو سوائے لفظی ہمدردی کے عملی طور پر کچھ حاصل نہیں ہوا۔ 
 
امریکی صدر باراک اوبامہ نے تو محمود عباس سے واضح طور پر کہہ دیا کہ بعض مشکل سیاسی فیصلے کرنا ہوں گے، جس میں خطرات بھی ہوں گے۔ یہ ملاقات 17مارچ کو ہوئی جبکہ 3 مارچ کو صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو کی ملاقات کا منظر ہمیشہ کی طرح ضرورت سے زیادہ خوشگوار تھا۔ وائٹ ہاؤس کے مغربی حصے میں قائم اوول آفس میں محمود عباس کو اوبامہ سمجھا رہے تھے کہ اب انہوں نے مزید کیا کیا کرنا ہے۔ اس کے بر عکس نیتن یا ہونے اوبامہ کو لیکچر دیا کہ اسے امریکا کی پرواہ نہیں۔ محمود عباس سے ملاقات میں صحافیوں کے سوالات کا وقت نہیں رکھا گیا۔ نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد صحافیوں کو سوالات کی اجازت کسی کام کی نہیں تھی کیونکہ ان کے پاس مسئلہ فلسطین اور امن عمل میں تازہ ترین پیش رفت کے بارے میں کوئی سوال نہیں تھا۔ روس اور یوکرائن کے تذکرے سے لگ رہا تھا جیسے یوکرائن سے کوئی آدمی وائٹ ہاؤس آیا تھا۔ ان ملاقاتوں میں پایا جانے والا یہ فرق مسئلہ فلسطین پر امریکی روش سمجھنے کے لئے کافی ہے۔
 
کاخ سفید میں محمود عباس نے اپنے کارنامے بیان کئے کہ 1988ء سے عادلانہ امن کے لئے اسرائیل کی جانب ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ 1993ء سے اسرائیل کو تسلیم بھی کرچکے ہیں، لیکن ان کی تازہ ترین پوزیشن یہ ہے کہ وہ اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم نہیں کرتے۔ اوبامہ نے محمود عباس کو فی الحال جو دو احکامات جاری کئے ہیں ان میں سے ایک اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کرنا اور دوسرا فلسطین کے علاقے وادی اردن میں اسرائیل فوج کی تعیناتی کو قبول کرنا شامل ہیں۔ محمود عباس دریائے اردن کے مغربی کنارے اپنی حکومت کے مرکزی شہر رملہ پہنچے تو ان کا ہیرو کی طرح شاندار استقبال کیا گیا۔ فلسطینیوں نے ریلیاں نکالیں۔
 
فلسطینی انتظامیہ فی الوقت قیدیوں کی رہائی کے چوتھے مرحلے پر توجہ دے رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے توسط سے فلسطینی انتظامیہ اور صہیونی ریاست میں اس ایشو پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ محمود عباس کا کہنا تھا کہ 29 مارچ تک یہ رہائی عمل میں آنا چاہیے اور اس سے امن عمل کی سنجیدہ کوششوں کا تاثر عوام میں مضبوط ہوگا، لیکن اسرائیل نے اپریل کے پہلے ہفتے تک قیدی رہا نہیں کئے۔ اوبامہ کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین ایک مشکل الحصول ہدف ہے، اسی لئے آج کے مرحلے تک پہنچنے میں کئی عشرے لگے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ مشکلات کے باوجود ایک موقع موجود ہے۔ ان کی نظر میں فریقین میں سے ہر ایک خوب سمجھتا ہے کہ ایک امن معاہدے کے کیا خدوخال ہوں گے اور 1967ء کی فلسطینی سرحدوں والی پوزیشن پر بھی ایک دوسرے کے لئے رعایتیں دینا ہوں گی۔ انہیں امید ہے کہ آئندہ دنوں اور ہفتوں میں پیش رفت جاری رکھ سکیں گے۔
 
نیتن یاہو کی موجودگی میں اوبامہ نے کہا کہ دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اسرائیل کی طرح امریکا کا زیادہ قریبی دوست اور اتحادی ہو۔ اس حوالے سے ناجائز صہیونی حکومت کے دہشت گرد وزیراعظم کو دوسرا اعزاز یہ حاصل ہے کہ صدر اوبامہ نے دنیا میں سب سے زیادہ جس سے ملاقاتیں اور مشاورت کی وہ یہی ہیں۔ صہیونیوں سے فوجی انٹیلی جنس اور سکیورٹی پر تعاون کا تذکرہ بھی کیا۔ نیتن یاہو نے واضح کر دیا کہ ایران کے بارے میں امریکہ کی پالیسی کچھ بھی ہو، لیکن اسرائیل ایران کے خلاف اپنے ’’دفاع‘‘ میں سب کچھ کر گذرنے کا ’’حق ‘‘رکھتا ہے۔ انہیں فلسطینیوں سے شکایت تھی کہ اسرائیل نے ان کے لئے غزہ خالی کر دیا اور مغربی کنارے کے کچھ علاقے بھی انہیں دے دیئے، لیکن بدلے میں انہیں راکٹ ملے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ بیت المقدس سمیت وہ پورا علاقہ جس پر قبضہ کرکے اسرائیل نامی ناجائز نسل پرست ریاست قائم کی گئی ہے، یہ پورا علاقہ دراصل فلسطین ہے۔ بیس بائیس فیصد زمین فلسطینیوں کے لئے خالی کر دینا کوئی احسان نہیں ہے۔ فلسطینی پورے فلسطین پر حق رکھتے ہیں۔
 
برطانوی وزیراعظم کے دورے کی خاص بات یہ تھی کہ مشرقی یروشلم میں 13 مارچ کو انہوں نے اپنے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر سے ملاقات کی۔ امریکی سامراج کے پالتو کتے اور وزیر خارجہ کا لقب پانے والے ٹونی بلیئر چار کے ٹولے کے نمائندہ ہیں۔ چار کے ٹولے سے مراد Quartet ہے جو اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکا اور روس پر مشتمل ہے۔ کیمرون اور بلیئر میں فرق صرف جماعتوں کا ہے۔ موجودہ وزیراعظم کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور بلیئر کا تعلق لیبر پارٹی سے ہے۔ اوبامہ امریکا کے سب سے نوجوان صدر ہیں اور کیمرون برطانیہ کے کم عمر ترین وزیراعظم۔ صہیونی حکومت کے ذمے داروں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں، لیکن سب سے زیادہ اہمیت اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کو حاصل ہوئی۔ وہاں احتجاج کا ماحول تھا، مہمان وزیراعظم بھی زد میں آگئے۔ بہت سے اراکین واک آؤٹ کرگئے اور کئی اراکین کو کیمرون کے خطاب نے بور کیا۔ صہیونی اراکین کو یہ بھی یاد تھا کہ دورہ ترکی کے دوران جولائی 2010ء میں انہوں نے غزہ کے محصور فلسطینیوں کی حمایت میں جو بیان دیا تھا، اس میں اسرائیل پر تنقید کی تھی۔ ایک رکن کنیسیٹ نے تو کہہ دیا کہ ماضی کی داستانیں سننے کے لئے نہیں بیٹھے، مستقبل کی بات کریں۔
 
برطانوی مصنف اور نقاد نکولس بلنکو نے برجستہ تبصرہ کیا ہے کہ اسرائیل کا سیاسی طبقہ ایک بلبلے میں قید ہے اور اس بلبلے کے اندر وہ اپنے خیالات پر کاربند ہیں، خواہ وہ حقائق سے کتنے ہی دور کیوں نہ ہوں۔ اس کی ایک مثال انہوں نے نیتن یاہو کے خطاب کے اس جملے کو قرار دیا کہ فلسطینی انتظامیہ اور عرب علاقوں میں نسل پرستانہ بنیادوں پر تعمیر کی جانے والی ناجائز و غیر قانونی بستیاں نہیں ہیں بلکہ فلسطینی انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم نہ کیا جانا امن عمل کی کامیابی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو کی دلیل دراصل یہ ہے کہ اسرائیل کو دنیا میں ایک استثنائی حیثیت حاصل ہے کہ وہ جو سمجھے اور چاہے وہ کرتا رہے، بین الاقوامی معیار اور اخلاقیات کوئی حیثیت نہیں رکھتے، لہٰذا دنیا کو چاہیے کہ اس موقف کو یاد رکھے اور قبول کرے۔ نکولس بلنکو نے زور دیا ہے کہ 20 سالہ ناکام امن عمل کے پیش نظر اسرائیل کے اس تصوراتی موقف کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔
 
تنظیم آزادی فلسطین کی ترجمان حنان اشروی نے بھی یورپی پارلیمنٹ کی ایڈ ہاک کمیٹی کے اراکین سے رملہ میں ہونے والی ملاقات میں اسی نکتے پر زور دیا کہ دنیا میں قانون کی حکمرانی کے لئے بین الاقوامی قوانین موجود ہیں اور یہ اسرائیل پر بھی لاگو ہونے چاہئیں۔ محمود عباس کی الفتح کے امور خارجہ کے شعبے کے نائب سربراہ عبداللہ عبداللہ نے ڈیوڈ کیمرون پر شدید نکتہ چینی کی۔ نومبر 1917ء میں بالفور اعلامیہ برطانوی سامراج کا سیاہ کارنامہ تھا، جس میں یہودیوں کے ہوم لینڈ کی اصطلاح استعمال کی گئی اور اسی کو فلسطین پر صہیونی قبضے یعنی اسرائیل کے قیام کے لئے ایک جواز کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ان کی رائے میں اب برطانیہ اپنی اس غلطی کا ازالہ کرنے کا اخلاقی طور پر پابند ہے۔ کیمرون سمیت پورے برطانیہ کا ان کی رائے سے متفق ہونا ویسے بھی ضروری نہیں ہے۔
 
ان ساری تفصیلات کے بعد کیا فلسطینیوں کے حق میں کوئی بھی عملی اقدام دیکھنے میں آئے، جواب ہے نہیں۔ فلسطینی انتظامیہ فی الحال اس وجہ سے اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم نہیں کر رہی کہ ان کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی حکومت کے زیرانتظام علاقوں میں 16 لاکھ فلسطینی عرب آباد ہیں۔ وہ امریکا کا کتنا دباؤ برداشت کر پائیں گے، آنے والا وقت خود ہی بتادے گا۔ اب تک فلسطین کی اس قیادت نے جو مغربی کنارے میں پائی جاتی ہے، بہت سے اہم مطالبات سے دست برداری بھی کی ہے اور بہت سے مطالبات پر ڈٹ جانے کے بعد پسپائی بھی اختیار کی ہے۔ ان میں سے اہم ترین فلسطینی مہاجرین جو دیگر ممالک میں آباد ہیں، ان کی اپنے وطن واپسی ہے۔ اس کا مطلب ان علاقوں میں واپسی ہے، جہاں سے انہیں صہیونی دہشت گردوں نے بے دخل کرکے جلاوطنی پر مجبور کیا تھا۔ اسرائیل اس شرط کو نہیں مانتا اور محمود عباس بھی اس پر پسپائی اختیار کرچکے ہیں۔ فی الوقت وہ اسرائیلی جیلوں میں قید مروان برغوثی اور احمد سعدات سمیت دیگر فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی خبر سننے کے متمنی ہیں، لیکن ان کی رہائی بھی فلسطینیوں کے مصائب کو کم نہیں کرسکے گی، کیونکہ حنان اشروی کے الفاظ میں سارے فلسطینی جیل میں ہی رہتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 371799
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سلام
ہمیشہ کی طرح اچھا لکھا۔
ماشاءاللہ
اللہ جزائے خیر دے۔
ہماری پیشکش