0
Wednesday 8 Jan 2014 10:47

نام نہاد امن مذاکرات، فلسطینیوں سے خیانت

نام نہاد امن مذاکرات، فلسطینیوں سے خیانت
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)


مسئلہ فلسطین کہ جسے پینسٹھ برس بیت جانے کے بعد بھی نہ تو عالمی برادری حل کرنے میں کامیاب رہی اور نہ عرب مسلم ریاستوں کا کوئی خاطر خواہ کردار نظر آیا، البتہ اس اجتماعی خیانت کاری میں نقصان اگر کسی کو پہنچا تو وہ صرف اور صرف فلسطینی عوام کو اور مسلم امہ کے مقدسات کو، جسے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے یہودیانے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ حال ہی میں امریکی اعلٰی عہدیدار جان کیری نے مشرق وسطٰی کا دورہ کیا، جبکہ اس دورے میں وہ غاصب اسرائیلی حکمرانوں سے بھی ملے ہیں اور فلسطینی اتھارٹی اور غاصب اسرائیل کے مابین ہونے والے نام نہاد امن مذاکرات کے عمل کو تیز کرنے کی باتیں کی گئیں، جان کیری نے اسرائیلی دورے کے دوران زور دیا ہے کہ فلسطین اور غاصب اسرائیل کے مابین مذاکرات کا عمل تیز کیا جائے، تاکہ خطے میں اسرائیلی بالادستی کو مزید توسیع دی جاسکے۔ واضح رہے کہ امریکی سیکرٹری ریاست جان کیری کا غاصب اسرائیل کی طرف دسواں سفر ہے۔

ایک طرف امریکہ اور اس کے حواری فلسطینی اتھارٹی کو اس بات پر مجبور کر رہے ہیں کہ غاصب اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری رکھا جائے، جبکہ دوسری طرف مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ 1967ء کے بعد سے اب تک ہونے والے امن مذاکرات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے بلکہ اس کے برعکس فلسطینیوں کی قتل و غارت میں اضافے کے ساتھ ساتھ صیہونی غاصب ریاست کی طرف سے شدید مظالم کے سلسلے کو مزید تیز کیا گیا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ مظالم کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام کو ان کے گھروں سے بے گھر کرنے کا عمل بھی تیز کر دیا گیا، تاکہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل آبادی کے تناسب کو تبدیل کرکے عالمی برادری پر یہ واضح کرسکے کہ فلسطینی سرزمینوں پر بسنے والے عرب مسلمان فلسطینی نہیں بلکہ صیہونی ہیں، اور اسی ناپاک مقصد کی تکمیل کی خاطر آئے روز غاصب اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرتی ہے اور ان کے گھروں کی جگہ پر صیہونی آبادکاروں کے لئے بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں۔

جان کیری نے اسرائیلی دورے کے دوران زور دیا ہے کہ فلسطین اور غاصب اسرائیل کے مابین مذاکرات کا عمل تیز کیا جائے، تاکہ خطے میں اسرائیلی بالادستی کو مزید توسیع دی جاسکے۔ غاصب اسرائیل کا ناپاک منصوبہ ہے کہ فلسطینی دارالحکومت مقبوضہ بیت المقدس کو یہودیا لیا جائے اور آبادی کے تناسب کو تبدیل کرکے قبلہ اول پر یہودیوں کا حق تسلیم کروا لیا جائے، یہی وجہ ہے کہ آئے روز اسرائیلی درندے مسلم امہ کے تیسرے مقدس مقام مسجد اقصٰی (بیت المقدس) میں داخل ہوتے ہیں اور پھر مسجد کی بے حرمتی کرنے کے ساتھ ساتھ مسجد میں رقص کی محفلیں منعقد کرتے ہیں اور فلسطینیوں کو مسجد میں نماز ادا کرنے سے بھی روکتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ 1969ء میں انتہا پسند یہودیوں نے مسجد اقصٰی کو مکمل طور پر نذر آتش کرکے منہدم کرنے کی گھنائونی سازش بھی رچائی تھی، جس کے نتیجے میں مسجد اقصٰی کو نذر آتش کر دیا گیا تھا، خیر یہ تو غاصب اسرائیلی ریاست کے متعدد ناپاک عزائم میں سے چند ایک عزائم ہیں، جن میں پہلے نمبر پر قبلہ اول بیت المقدس کو یہودیانے کے ساتھ ساتھ القدس شہر کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے اور اسی فارمولے کے تحت پورے فلسطین میں یہودی آباد کاری کے ذریعے فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا ہے۔

ماضی کے تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اوسلو معاہدے کے بعد سے آج تک فلسطینی اتھارٹی اور غاصب اسرائیل کے مابین ہونے والے نام نہاد امن مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے، بلکہ ان تمام معاہدوں اور مذاکرات کے نتیجے میں دیکھا گیا ہے کہ اسرائیلی چیرہ دستیاں زور پکڑتی رہی ہیں، جبکہ فلسطینی جو پہلے ہی اسرائیل مظالم کی چکی میں پیسے جا رہے ہیں، انہیں مزید ظلم اور بربریت کا نشانہ بنایا جاتا ہے، فلسطینی کسانوں کی زمینوں پر قبضہ کیا جاتا ہے، فلسطینی عوام کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا جاتا ہے، اگر اس معاملے میں کوئی ذرا سی مزاحمت بھی کرے تو غاصب اسرائیلی پورے کے پورے گھر کو اس طرح مسمار کر دیتے ہیں کہ گھر کے اندر لوگوں کو بند کیا جاتا ہے اور پھر گھر کو بڑے بڑے بلڈوزروں کے ذریعے مسمار کر دیا جاتا ہے، اس طرح کے واقعات میں گھروں کے ملبے تلے دب کر شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ان گنت ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ ایک طرف غاصب اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی امریکی ایماء پر نام نہاد امن مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جبکہ دوسری طرف اسرائیل ہے کہ جس نے اپنے تمام تر مظالم کو ٹھیک اسی طرح جاری رکھا ہوا ہے، جس طرح 1948ء میں فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے کے لئے کئے گئے تھے، حال ہی میں ایک طرف امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے اور اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کی اور اس ملاقات کا دورانیہ پانچ گھنٹے رہا، تاہم تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں اسرائیل پر امریکہ نے بھرپور دبائو ڈالا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مذاکراتی عمل کو جاری رکھے، کیونکہ یہ نام نہاد امن مذاکرات جہاں ایک طرف اسرائیل کے لئے فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیں، وہاں امریکہ کے لئے بھی مثبت ہیں، کیونکہ امریکہ خود کو دنیا میں امن قائم کرنے کا ٹھیکیدار سمجھتا ہے اور یہی چاہتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور غاصب اسرائیل کے مابین نام نہاد مذاکراتی عمل جاری رہے۔ اسی طرح جان کیری نے نیتن یاہو کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے بھی ملاقات کی ہے اور اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کو جاری رکھنے کا عندیہ دیتے ہوئے جولائی 2014ء تک کسی اہم فیصلے کی یقین دہانی کروائی ہے۔

حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ ایک طرف مذاکرات کی بات کی جا رہی ہے، جبکہ دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک مرتبہ پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل چودہ سو (1400) نئی یہودی بستیاں تعمیر کرے گا اور یہ تمام بستیاں فلسطینی سرزمین پر بنائی جائیں گی اور ہزاروں فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے بعد بنائی جائیں گی۔ ان بستیوں کی تعمیر کے لئے مشرقی القدس کا تعین کیا گیا ہے، جہاں پر فلسطینی آباد ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس امریکہ اور غاصب اسرائیل کے ساتھ ان نام نہاد امن مذاکرات میں کیوں شامل ہیں، جبکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل آئے روز فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر رہا ہے اور حال ہی میں چودہ سو یہودی بستیوں کے اعلان کے باوجود بھی محمود عباس نے اس معاملے پر کسی قسم کے اعتراض کا اظہار نہیں کیا ہے، جبکہ دوسری طرف فلسطینی عوام نے اسرائیل اعلان کے بعد شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے سخت احتجاج کیا ہے اور فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کرنے والے تمام دھڑوں نے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کو فلسطین اور قبلہ اول بیت المقدس کے خلاف گھنائونی سازش قرار دیتے ہوئے محمود عباس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان نام نہاد امن مذاکرات میں شریک نہ ہوں۔

خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ کی تاریخ عیاں ہے کہ جس میں کبھی بھی مسلم امہ اور بالخصوص فلسطین کے لئے کسی قسم کا خوش آئند اقدام نہیں کیا گیا ہے، تاہم امریکی سربراہی میں ہونے والے امن مذاکرات دراصل مشرق وسطٰی پر اسرائیلی غاصبانہ تسلط کو مزید توسیع دینے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور امریکہ کی جانب سے صرف فلسطین اور فلسطینیوں کے ساتھ خیانت نہیں کی جا رہی، بلکہ یہ پوری انسانیت کے ساتھ خیانت کے مترادف ہے۔ اسرائیلی ہٹ دھرمی کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ مزاحمت ہے کہ جسے آزادی ٔفلسطین کی جدوجہد میں مصروف دھڑوں نے احسن طریقے سے انجام دینے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھی ہے، لہذٰا فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو بھی ہوش کے ناخن لیتے ہوئے امریکی کاسہ لیسی کو ترک کرتے ہوئے فلسطینیوں کی امنگوں کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں اور امریکی اور اسرائیلی دبائو کو مسترد کرتے ہوئے نام نہاد امن مذاکرات میں شمولیت نہیں کرنی چاہئیے۔
خبر کا کوڈ : 338688
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش