10
0
Friday 10 Oct 2014 07:50

نیریٹیو کی جنگ اور شیعہ مسلمان

War of Narratives and Shia Muslims
نیریٹیو کی جنگ اور شیعہ مسلمان
تحریر: عرفان علی
 
دنیا میں اس وقت نیریٹیو کی جنگ اپنے عروج پر ہے۔ یہ جنگ انہوں نے شروع کی ہے جو اس دنیا کو اپنے استعماری و استکباری اہداف کی تجربہ گاہ بنائے ہوئے ہیں۔ اردو میں اس کا ترجمہ بہت ہی مشکل ہے یعنی متضمن حکایت یا روایت۔ شان الحق حقی نے اس لفظ کا ترجمہ یوں کیا ہے: بیانیہ اصلوب پر مشتمل یا بیان سے متعلق، داستان گوئی یا اس کا فن، تحریری یا زبانی طور پر واقعات کا مسلسل ترتیب وار دہرانا۔ آج کل نیوز چینلز پر بہت سے تجزیہ نگار نیریٹیو کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ امید ہے کہ ابھی تک اس لفظ کی تشریح مکمل طور سمجھ نہیں آئی ہوگی۔ آسان مثال یہ ہے کہ کوئی بھی ملک، حکومت، یا طبقہ فکر مختلف ایشوز پر اپنا ایک مخصوص موقف رکھتا ہے اور اسے بیان کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 14 اگست 1947ء یوم آزادی پاکستان، 6 ستمبر 1965ء یوم دفاع، یا دہشت گردی کے بارے میں کوئی موقف جو مسلسل قوم کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
 
امریکہ نے دنیا میں اپنی پالیسی کے حق میں ایک نیریٹیو دنیا کے سامنے بیان کیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے بارے میں اس کا ایک نیریٹیو دنیا کے سامنے کس طرح پیش کیا گیا۔ افغانستان اور عراق پر جنگ کے بارے میں اس کا ایک نیریٹیو ہے۔ ایران کی حکومت اسلامی اور فلسطین و لبنان کی اسلامی مقاومتی تحریکوں کے بارے میں ایک امریکی نیریٹیو ہے۔ طول تاریخ میں شیعہ دشمن حکومتوں نے بھی اسلام ناب محمدی اور امت اسلام ناب کے خلاف ایک نیریٹیو کو پھیلایا اور اسی نیریٹیو کی بنیاد پر آج عالم استکبار نے اسلام دشمن نیریٹیو تیار کیا ہے۔ تکفیری نیریٹیو بھی انہی کا تیار کردہ ہے۔ لیکن کیا شیعہ اسلام کا بھی مختلف ایشوز پر کوئی نیریٹیو ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو کیا وہ اسی طرح عام مسلمانوں اور دیگر انسانوں تک پہنچ گیا ہے یا نہیں، نہ پہنچنے کی وجوہات کیا ہیں اور اگر کوئی نیریٹیو ہی نہیں تو پھر اس کی ذمے داری کس پر ہے۔ 

پاکستانی صحافی روزنامہ جنگ کے کالم نگار حامد میر نے پاکستانی سیاست میں فوجی مداخلت کی تاریخ پر لکھا تو اسکندر مرزا کو میر جعفر تک اور میر جعفر کو نجف کے گورنر حسین نجفی تک رگید ڈالا۔ میر جعفر اور میر صادق کو برصغیر کی تاریخ کا مرکزی ولن بنانے والا نیریٹیو خود چیخ چیخ کر متوجہ کرتا ہے کہ شیعہ مسلمان اور خاص طور پر پاکستان و ہندستان کے شیعہ مسلمان نیریٹیوز کی اس جنگ سے کوئی آگاہی نہیں رکھتے۔ بندہ حامد میر کے کالم کے جواب میں جو ماہنامہ منتظر سحر میں انہی دنوں شایع ہوگیا تھا، اس میں لکھ چکا کہ گورنر جنرل غلام محمد نے پاکستان میں سول اور ملٹری بیوروکریسی کی حکمرانی کو جنم دیا نہ کہ اسکندر مرزا نے۔ اگر سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کے خلاف جنگ کرنے والے یا ان سے غداری کرنے والے مرکزی کردار سنی یا غیر مسلم نہ ہوتے تو میر جعفر اور میر صادق کا نیریٹیو نہ پھیلایا جاتا۔ پاکستان میں امت اسلام ناب محمدی کی بیداری نہ جانے کب شروع ہوگی۔
 
اوریا مقبول جان نے صدام کی پھانسی کے وقت اسے ’’حر‘‘ بنا دیا، تب بھی راقم الحروف نے ان کے جواب میں شیعہ نیریٹیو بیان کیا جو ماہنامہ منتظر سحر میں شایع ہوا۔ اب آپ یہ دیکھئے کہ صدام کے بیٹوں کو امریکی فوجیوں نے مارا اور لاشیں عوامی نمائش کے لئے رکھ دیں۔ کسی نے امریکا کے خلاف لب کشائی نہیں کی۔ امریکا کی اس کارروائی پر عراق کے عوام نے جشن منایا، یہ نکات بیان کئے گئے۔ لیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لے پالک صدام کو قانونی تقاضے پورے کرکے عدالت نے صرف ایک مرتبہ پھانسی کی سزا سنائی اور اس پر عمل کیا گیا تو عراقی حکومت کو ولن بنایا گیا۔ اسے فرقہ واریت کہا گیا! یہ ہے نیریٹیو کی جنگ۔ بندہ یہ جانتا ہے کہ اس امت کے درد مند افراد مجھ سے بہت سی امیدیں رکھتے ہیں۔ نوجوان ہی نہیں بزرگان بھی اس ناچیز کی تحریروں کو پسند کرتے ہیں۔ شہید مظفر کرمانی کو بھی ذرائع ابلاغ اور نیریٹیو کی اس جنگ میں راقم الحروف سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں۔ اس لئے بندہ اس بوجھ تلے دب کر دل کے پھپھولے پھوڑنے پر مجبور ہے۔ حضور جاگئے، بیدار ہوجایئے۔ 

بندہ نوعمری میں ہی ڈاکٹر علی شریعتی کی کتابیں پڑھ چکا، شہید معظم مطہری، شہید اعظم بہشتی و باقرالصدر و دیگران کو شریعتی کے بعد پڑھا، تب جا کر اسلام سمجھ میں آیا، تب جا کر خط مستقیم امام سمجھ میں آیا۔ آج شیعہ مسلمان جہاں جہاں دنیا بھر میں آباد ہیں، انہیں دنیا کے ہر ایشو پر شیعہ نیریٹیو پھیلانا ہوگا۔ پاکستانی شیعہ مسلمانوں کی خدمت میں عرض کہ قیام پاکستان کی ایک شیعہ تاریخ لکھنے کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد کے دوست یہ کام کریں کہ علمائے امامیہ پاکستان نامی کتاب کو اپ ڈیٹ کرکے نئی اشاعت کے بارے میں متعلقہ افراد کو قائل کریں۔ قیام پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے لئے اور قیام پاکستان کے بعد شیعہ مسلمانوں کے کردار کی تاریخ لکھنا ایک ایسا کام ہے جو ناگزیر ہے۔ وصی خان کی ایک کتاب کافی نہیں ہے۔ شیعہ نیریٹیو کے لئے یہ مفصل اور جامع تاریخ لکھنا بے حد ضروری ہے۔ صرف بانی پاکستان محمد علی جناح، ان کی بہن فاطمہ جناح اور راجہ صاحب محمود آباد ہی نہیں، بلکہ میرزا ابوالحسن اصفھانی بھی تو شیعہ تھے۔ پی آئی اے انہوں نے ہی حکومت پاکستان کو دی۔ آج بھی کراچی ایئرپورٹ پر اصفہانی ہینگر انہی کے نام سے منسوب ہے۔ 

مفتی جعفر حسین پر ایک جامع کتاب لکھی جانا چاہئے۔ صوبہ سندھ سے گلگت بلتستان تک، بلوچستان سے پارا چنار تک، پنجاب سے کشمیر تک شیعہ قائدین، سیاستدان، زعماء، ماہرین و خواص کے تعمیری و فکری کردار کی تاریخ۔ ان کی تصنیفات و تالیفات۔ معاشرے میں ان کا کردار۔ مذکورہ خطوں میں مدفوں امام زادگان کی تاریخ۔ اہلبیت نبوت سے عوام الناس کی عقیدت و محبت کی وہ تاریخ جو آج بھی پاکستان میں مجسم دکھائی دیتی ہے۔ جی ہاں، میں اس تاریخ کی بات کر رہا ہوں۔ شیعہ نیریٹیو موجود ہے، اسے خود سمجھنے اور دوسروں تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں کہ شریعتی نے اپنی کتاب حج کے ابتدائیہ میں ایک فکر انگیز حقیقت بیان کی ہے، آج دنیا بھر میں پھیلا ہوا نیریٹیو اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ استکبار نے اسلام کا بغور مطالعہ کرکے بالکل اس کے برعکس ایک نیریٹیو پھیلا دیا ہے اور اسے اسلام کا لبادہ پہنا دیا گیا ہے۔ 

بندہ اس بات پر بھی حیران پریشان ہے کہ جنہیں شیعہ نیریٹیو تیار کرنا چاہئے اور اسے پھیلانا چاہئے، وہ بھی استکباری نیریٹیو کی حمایت کے مترادف نیریٹیو پھیلا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں معلوم ہے کہ امریکی حکومت، سعودی حکومت علی الاعلان نواز شریف کی حکومت کے ساتھ ہیں اور اس حکومت کے خلاف دو سیاستدانوں کے دھرنوں پر امریکا کا دھرنا مخالف موقف سامنے آگیا ہے، لیکن ایک قابل احترام عالم دین کو اس دھرنے میں جین شارپ کا نظریہ یاد آیا۔ انہوں نے ایک ہی سانس میں سارے جعلی امریکی ایجنٹوں کے انقلابات کو مخملی انقلاب کے عنوان سے یاد کیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ امریکا کے حامیوں نے جارجیا میں روز (یعنی گلاب)، یوکرین میں اورینج (یعنی نارنگی) اور کرغیزستان میں ٹیولپ (یعنی گل لالہ) انقلاب برپا کئے اور امریکا نے کھل کر اس کی مدد اور حمایت کی۔ ویلویٹ (یعنی مخملی) انقلاب کا تجربہ صرف ایران میں کیا گیا۔ ہم پہلے بھی اپنا نیریٹیو بیان کرچکے کہ ان دھرنوں کے شرکاء و قائدین کے مطالبات تو خود امریکی سعودی اتحادی حکومت نے اور سارے مخالفین نے بھی جائز تسلیم کئے ہیں۔ اختلاف صرف وزیراعظم نواز شریف کے استعفٰی پر ہے۔ لیکن مدعی سست گواہ چست پر مبنی نیریٹیو کیسے منطقی تسلیم کیا جائے گا، کیونکہ امریکا تو حکومت کی حمایت پر کمر بستہ ہے۔
 
حیرت اس بات پر بھی ہے کہ ملی یکجہتی کاؤنسل میں شامل نامور شیعہ رہنما خود دیگر قائدین کے ساتھ حکومت اور انقلاب مارچ کے قائدین کے مابین مفاہمت کروانے گئے اور ان رہنماؤں نے بھی طاہرالقادری صاحب کے مطالبات کو جائز قرار دیا، لیکن انہی شیعہ رہنما کے حامی سوشل میڈیا پر قادری صاحب کے اتحادی شیعہ رہنما اور ان کی جماعت پر اس حمایت کی پالیسی پر تنقید کر رہے ہیں۔ یہ بھی حیرت انگیز امر ہے کہ ایسا کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ انہی طاہرالقادری صاحب کے ساتھ ملی یکجہتی کاؤنسل میں شامل مذکورہ شیعہ رہنما کی جماعت کا اتحاد تھا جو کم از کم دو سال تک جاری رہا اور انہوں نے دس نکاتی ضابطہ اخلاق بھی بنایا تھا۔ اب جو شیعہ رہنما اور جماعت قادری صاحب کے اتحادی ہیں، انہوں نے چودہ نکاتی ایجنڈا پر اتحاد کیا ہے۔ دوستوں سے گذارش ہے کہ غیر عادلانہ اور غیر عاقلانہ موقف سے گریز کریں۔ خط مقدس امام یہی ہے کہ عادلانہ و عاقلانہ موقف پر مبنی شیعہ نیریٹیو پیش کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 413882
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

jab abu sufyaan nay imam ali say kaha tha k ap khalifa say jang karay may ap ki himayat karo ga q k islam khatray may hay to imam nay jawab dia tha k tum kab say islam k khair kuwah ban gahay .
masla dr shab k mutalbat ka nhe hay k wo mutalbat jaiz hay ya nhe masla ya hay k ya log kab say pakistan may awamk khair khuwh ban gahy .
chaudari baradran k hath may hukumat ahe to unhoo nay tamam record toor dia thay awami istahsaal k. aj ya inqilab ki bat kar rahay hay
جزاک اللہ خدا توفیقات خیر میں اضافہ فرمائیں اور زور قلم آور بڑھے۔ آمین
ہا ہا ہا۔ انگریزی میں جو پہلا تبصرہ ہے وہ بہت اچھا ہے مگر بھائی ایک طرف تو ہونا پڑے گا۔ ابو سفیان نے سقیفہ کے صاحبان کے خلاف بات کی تھی تو اب یہ بھی واضح کر دیں کہ آج کی اس سیاست میں صاحبان سقیفہ کون ہیں، تاکہ علوی سیاست کا اطلاق ہم سب اپنے آپ پر کرسکیں۔ بہرحال دلچسپی کا شکریہ۔ اگر ہم اسی طرح تبادلہ خیال کریں گے تو کوئی زیادہ اچھی حکمت عملی تجویز کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں امریکی اسلام تکفیریوں کے ذریعے پنپ رہا ہے اور مقالہ نگار نے قادری کو تکفیریوں کی مخالفت کی وجہ سے کم برا اتحادی قرار دیا ہے۔ نہ تو ہمیں اس انقلاب سے کوئی کام ہے اور نہ ہی چوہدری شجاعت سے۔ التماس دعا
Pakistan
بہت خوب جامع انداز میں شیعہ سیاسی کردار کو واضح کیا ہے عرفان صاحب آپ نے اور منافقین کی منافقت کو بھی، خدا سلامت رکھے آپکو۔
ارے میرے دوستو اور برادران گرامی جین شارپ اور مخملی انقلاب کی بات ہوئی ہے، بہتر ہے کہ سقیفہ تک نہ جائے اس لئے جس دوست کو ابو س یاد آیاد ہے ان سے درخواست کہ دلیل کو اس تحریر تک محدود رکھیں۔ یہاں کوئی ابو س نہیں آیا کسی کے پاس، سب مشترکات پر اتحادی ہیں اور بس۔ یا پھر ابو س کی خصوصیات کا اس پر اطلاق ثابت کرکے دکھائیں۔ اب جنگ تکفیریوں اور ان کے مخالفین کے درمیان ہے۔ منطقی بات کریں۔ امید ہے کہ ناراض نہ ہوں گے۔
برادر گرامی، تعریف کا شکریہ لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ اپنوں کے لئے لفظ منافق سمیت کوئی نازیبا الفاظ استعمال نہ کریں۔ یہ دلیل کی جنگ ہے، اسے دلیل سے جیتیں۔ امید ہے کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔ التماس دعا۔۔۔
عرفان علی
Iran, Islamic Republic of
بدقسمتی سے شیعہ قیادت ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن کا کوئی و‍‌ژن ہی نہیں، یہ ذاتی رقابتوں کے تناظر میں قومی فیصلے کرتے ہیں۔ پڑھے لکھے شیعہ ان کے قریب نہیں آتے یا یہ ان کو قریب برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ لہذا ان سے کسی بڑی چیز کی توقع مت رکھیں۔ اس کا ذمہ دار ایک مخصوص حلقہ ہے جو ایک خاص لباس میں ہے، اگر کھل کر لکھ دیا تو -----خدا اہل فکر و تدبر کو صبر دے اور اس حلقہ سے نجات دے۔
ہم نے سنا اور پڑھا تھا کہ تاریخ بدل دی گئی ہے، زن، زر اور زمین کی لالچ نے مورخ کے قلم کو خرید ڈالا تھا، پڑھنا، سننا ایک الگ بات ہے مگر محترم کالم نگار کی یہ تحریر دیکھ کر میرا اشتیاق بڑھ رہا ہے کہ ان بکے ہوئے قلمکاروں اور تاریخ کے ان مکروہ چہروں کو اس دور میں دیکھ کر عبرت حاصل کروں۔ تمہاری کردار کشی کرنے کی کوششیں نقش برآب ثابت ہو رہی ہیں اور تمہاری مایوسی بڑھ رہی ہے، صرف اک لحظہ کے لئے ٹھہرو اور سوچو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ قرآن فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
اسلام ٹائمز کی پالیسی ہی "میں میاں مٹھو" کی ہے۔ اختلاف رائے کی قطعی گنجائش نہیں۔ لہذا یہ تنقیدی رائے بھی کچرے کی ٹوکری کی زینت بنے گی۔ مسئلہ نہیں ہے، صرف مصنف تک ہی پہنچ جائے تو بڑی بات ہے۔ شکریہ
میرا خیال ہے کہ اسلام ٹائمز نے آپ کی رائے شائع کر دی، اس لئے یہ تو میاں مٹھو نہیں ہوئے اور آپ غلط ثابت ہوئے۔ دوسری بات اس مقالے کا عنوان ہی نیریٹیو کی جنگ ہے۔ آپ نے الزامات کی جنگ شروع کی ہے، یہ بھی نیریٹیو کی جنگ کا ہی حصہ ہے۔ لیکن جس آدمی میں وہ خامی یا برائی نہ ہو جو اس سے منسوب کر دی جائے تو اس کے بارے میں بھی قران و اہلبیت بہت کچھ نہیں تو کچھ نہ کچھ ضرور کہتے ہوں گے۔ اس مصنف کے مالی حالات کا بھی مجھے علم ہے اور جن کا دفاع آپ نے کیا ہے، ان کے مالی حالات کا موازنہ کیا جائے گا تو حساب دینا مشکل ہوجائے گا۔
عرفان بھائی بس آپ جاری رکھیں امر بالمعروف کا یہ فریضہ۔ آپ پر جو سطحی اور بھونڈی تنقید ہوئی اس سے ثابت ہوگیا کہ آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے۔۔۔آصف
ہماری پیشکش