1
0
Wednesday 12 Feb 2014 15:24

صدورِ انقلاب یعنی صدورِ نظام

صدورِ انقلاب یعنی صدورِ نظام
   تحریر: حسن عسکری

ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔
خدا کی ذات وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ اس دین کو تمام ادیان پر غلبہ اور اقتدار دے سکے۔ (سورہ مبارکہ توبہ، آیۃ32)
اسلام خدا کا کامل و ابدی دین ہے۔ اسلام انسانی زندگی کے لیے الٰہی مشوقر ہے۔ اسلام جہاں اخروی نجات کی بشارت دیتا ہے وہاں دنیوی علو، غلبہ، کرامت اور عزت کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ اسلام مادی دنیا اور ہرجائی معاشروں کو معنویت اور وحدانیت عطا کرتا ہے۔ دینِ اسلام ہر زمانے کے انسان کے لیے حجت ِ خدا ہے۔ اسلام ایک مکتب و آئیڈیالوجی ہے۔ انہی اوصاف سے متصف اسلامی انقلاب بھی ہے،  چونکہ اس کا سرچشمہ بھی اسلام، قرآن اور محمدؐ  و آلِ محمد ؑ ہیں۔ اسلامی انقلاب بھی  ایک جامع، کامل اور ابدیت جیسے عناصر پر مشتمل ہے۔ یہ خدا کی طرف سے بشریت کے لیے روشن راہ  اور امید کی کرن ہونے کے ساتھ ساتھ اتمام ِحجت  بھی ہے۔ اسلامی انقلاب بھی  کافۃ للناس ہونے کے سبب کسی علاقے، رنگ، نسل، قوم   حتی کسی عصر و عرصے اور صدی کے ساتھ مختص نہیں بلکہ ایک الٰہی، تاریخی اور ابدی حقیقت ہے۔ اسلامی انقلاب ایک مکتب اور آئیڈیالوجی کا نام ہے۔ جس طرح اسلام صرف وعظ و نصیحت اور توضیح المسائل میں محدود نہیں بلکہ ایک سسٹم و نظام پر مشتمل ہے اور پاکیزہ و مقدس ماحول کے لیے پہلے طاغوت شکنی کا مطالبہ کرتا ہے اور بعد میں خدا کی وحدانیت کا اقرار چاہتا ہے۔ اسی طرح اسلامی انقلاب بھی صرف چند ظواہر کی تبلیغ و صدور ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام طاغوتوں کے انکار اور مقابلے کے بعد قرآنی نظام کے اجراء و نفاذ کا نام ہے۔

صدیوں بعد قرآنی و اسلامی نظام خدا کی زمین کے ایک ٹکڑے پر نافذ ہوا اور صدرِ اسلام کی طرح اب کی بار بھی اس اسلامی نظام نے پوری زمین کو قرآن و اسلام کے زیرِ سایہ لانا ہے۔ صدورِ انقلاب کی اہمیت کے لیے یہی کافی ہے کہ بانی انقلاب کا انقلاب سے پہلے خود انقلاب پر زور تھا اور انقلاب کے بعد صدورِ انقلاب پر اور ہمیشہ حکومتی عہدے داروں کو متوجہ کرتے تھے، حتی کہ اپنے الٰہی وصیت نامہ میں بھی تحریر فرمایا کہ خبردار! صدور ِ انقلاب سے کبھی بھی غافل نہ ہونا اور صدور ِ انقلاب کے لیے "بسیج ِ جہانی" یا  "عالمی حزب اللہ"  تشکیل دینے کا امر فرمایا۔ اس کا مطلب کشور گشائی ہرگز نہیں ہے بلکہ ہر ملک و قوم اپنی اپنی سرزمین سے طاغوت زدائی کرکے قرآن و اسلام کی برکات سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ سید المقاومۃ سید حسن نصر اللہ نے دشمن کے اسی قسم کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام کا حزب اللہ کا حامی و دوست ہونا ارضِ لبنان کے استقلال کے لیے بالکل منافی نہیں ہے بلکہ وہ اس کی آزادی و استقلال کا محافظ ہے۔

ان آخری سالوں میں مختلف عرب ممالک میں اسلامی بیداری کی جو لہر آئی ہے، وہ بھی اسلامی انقلاب کے نتیجہ میں تھی، نیز صدورِ انقلاب کی حقیقی شکل صدورِ نظام کا جلوہ گر ہوکر سامنے آئی،  کیونکہ اس میں بھی ان اسلامی اقوام کا مطالبہ بالکل ایرانی قوم کی طرح عادلانہ و اسلامی نظام کے نفاذ کا تھا اور ہے۔ رہبر ِ معظم ِ انقلاب نے بھی اس بیداری کو اسلامی انقلاب کی تاثیر قرار دیتے ہوئے    امتِ اسلامیہ کی ہر ممکنہ راہنمائی، تائید و مدد فرمائی،  کہ جس سے  یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انقلاب طاغوتی نظاموں اور مبارک و معمر اور شریف و مشرف جیسوں کے ساتھ مصالحت و دریوزگی کا نام نہیں ہے بلکہ تحریر اسکوائرز اور طاغوتی اڈوں کے سامنے امت کے طاغوت شکن حضور سے ظالم و جابر حکمرانوں اور نظاموں کو سرنگوں کرنا ہے، و بہ عبارت دیگر صدورِ انقلاب یعنی صدورِ نظام ِ اسلامی ہے۔ وگرنہ امریکی استکبار، غربی استعمار اور عربی و غیر عربی استحمار کو ایسے نظام و سسٹم سے عاری سادہ لوح وعظ  و تبلیغ  سے کوئی خطرہ نہیں تھا اور بعض قوم پرست اور کمزور ایمان ایرانی بھی  صدورِ انقلاب سے پریشان و مضطرب نہ ہوتے کیونکہ حقیقی صدورِ انقلاب سے ان کو اپنے قومی، ملی اور ملکی مفادات سے عارضی طور پر ہاتھ دھونا پڑے اور قربانی اور فداکاری کے راستے پر چلنا پڑتا ہے۔

امام خمینی ؒ نے فرمایا: ہم اپنا فکری اور اسلامی انقلاب پوری دنیا کو برآمد کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ انقلاب برآمد ہوا  تو ہر جگہ اسی طرح کا انقلاب آئے گا۔ کوشش کیجئے جس طرح ایرانیوں نے انقلاب برپا کیا ہے اور ہر قسم کی قربانی کے لیے آمادہ ہیں، آپ بھی اپنی ملتوں کو بیدار کریں، تاکہ جیسی تبدیلی یہاں آئی ہے، ان جگہوں میں بھی آجائے۔  غیر ملکیوں کو خطاب، آئینِ انقلاب، ص 583۔     
ہم اسلامی نظام اس وقت برآمد کرسکتے ہیں جب ہمارا قول و عمل اسلامی ہو اور طاغوتی نہ ہو۔  آئینِ انقلاب ص 582۔
میں امیدوار ہوں کہ یہ تحریک اور انقلاب تمام ملکوں تک پہنچ جائے اور تمام مستضعفین مستکبروں کے مقابلے میں کھڑے ہو جائیں، اپنا حق حاصل کریں نیز جان لیں کہ حق لیا جاتا ہے خود بخود نہیں ملتا۔ کیا وہ وقت نہیں آن پہنچا کہ امت ِ مسلمہ اپنی سرزمینوں میں اٹھیں اور اپنے حکمرانوں کو اسلام کے مقابلے میں جھکا دیں یا پھر ان کے ساتھ ایران جیسا سلوک کریں۔

امید ہے کہ یہ اسلامی عدل و انصاف پہلے ایران میں اور اس کے بعد پوری دنیا میں رائج و نافذ کیا جاسکے۔ مشرقی و مغربی بلاک صدورِ انقلاب سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں اس سے اسلامی ممالک میں ان کے طاغوتی مراکز نابود نہ ہوجائیں۔ صدورِانقلاب ، ص 41۔
ہم عوامی، عادل اور انسان دوست حکومتوں اور ان کی رعیتوں کے درمیان صلح و آشتی چاہتے ہیں۔ صدورِانقلاب ، ص 67۔
بعض روشن فکروں نے امام خمینی ؒ کو  کہا کہ صدور ِ انقلاب سے ہمارے ملکی و قومی مفادات خطرے میں ہیں۔ توامام ؒ نے فرمایا:
بنااست اسلام بماند نہ ایران۔ 
ہمارا مقصد اسلام بچانا ہے نہ کہ ایران۔ 
گویا امام ؒ نے ان الفاظ میں یہ کہا کہ "سب سے پہلے پاکستان" کا نعرہ امریکی اسلام کا شاخص تو ہوسکتا ہے، لیکن محمدی اسلام کا نہیں۔

رہبرِ معظمِ انقلاب صدور ِانقلاب  یعنی صدور ِنظام  کے بارے میں فرماتے ہیں:
کتنے سالوں سے مغرب کی پست ثقافت بغیر کسی مانع و رکاوٹ کے اسلامی ممالک کو تباہ و برباد کرنے میں مصروف ہے۔ مغربی سیاست باز اپنے سیاسی سلطنت طلبی اور اقتصادی غارت گری کی راہ سے اپنی پست، گھٹیا اور ذلیل ثقافت اسلامی ممالک میں انڈیل رہے ہیں،  اور ان کو اس قسم کی بدبختی اور روسیاہی پورے عالم میں صادر کرنے میں کوئی شرمندگی و عار محسوس نہیں ہوتی! جب وہ اس خفت بار اور غیر انسانی کام پر شرم نہیں کرتے بلکہ برعکس اپنی ان پلید صادرات پر افتخار بھی کرتے ہیں! تو  ہم کیوں توحید، نبوت، فداکاری، اخلاص، تزکیہ اور انسانی اقدار کو دیگر ممالک میں صادر کرنے میں شرم محسوس کریں، نیز اس میں کیوں شرم کریں کہ  باطل قوتوں کے مقابلے میں مقاومت و استقامت کا درس دیں۔ ہم شر و فساد نہیں چاہتے بلکہ عدل و اصلاح چاہتے ہیں (یہ بالکل وہی جملہ ہے جو سیدالشہداء نے طاغوتِ زمان کے خلاف قیام کرتے ہوئے فرمایا تھا)۔ ہم  نے اقوام کو اور بالخصوص امت ِمسلمہ کو ان کی صحیح اسلامی شناخت، پہچان اور تشخص واپس دلوانا ہے۔   

ڈاکٹر رحیم پور صدور ِانقلاب کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
صدورِ انقلاب یعنی امت  ِاسلامیہ اور استکبار، استعمار و اس کے مزدور غلام طاغوتوں کے درمیان تنش، چپقلش، ناسازگاری اور ٹکراؤ ایجاد کرنا ہے۔
آیۃ اللہ شہید باقر الصدر ؒنے اسلامی انقلاب  کی کامیابی کے بعد فرمایا: سرزمینِ ایران میں اسلامی انقلاب امام خمینی کی قیادت و رہبری میں کامیابی سے ہمکنار ہوچکا ہے، ہم عراق میں بھی انہی کی اتباع میں اسلامی و انقلابی تحریک کا آغاز کرتے ہیں کہ اسی صدور ِ انقلاب کی راہ میں حسینی و زینبی کردار ادا  کرتے ہوئے انہوں نے اپنی اور اپنی بہن کی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی  پیش کر دیا۔ سرزمین ِ پاکستان میں شہید ِ صدور ِ انقلاب  فرزندِ خمینی ؒ سید عارف حسینی ؒ تھے، جنہوں نے اپنے پاکیزہ خون سے  وطنِ عزیز میں انقلابی فکر و سوچ کو جان بخشی اور قوم کے اندر طاغوت ستیزی اور استکبار سے نفرت کا ایک خاص ولولہ و جوش پیدا کیا۔ 

فرزندِ انقلاب سید جواد نقوی حفظہ اللہ نے بھی اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
انقلابیوں (چاہے ایرانی ہوں یا غیر ایرانی) نے صدورِ انقلاب کی بہت سی سنہری فرصتیں ضائع کی ہیں۔ آج  استکبار و استعمار کو سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوری نظام کے حامی و مبلغ مل گئے، اس لیے پوری دنیا پر ان کھوکھلے نظاموں کا راج ہے لیکن نظامِ ولایت و امامت کو چونکہ مبلغین کے بجائے "بخ بخ" اور واہ واہ کرنے والے ملے،اس لیے  ابھی اسلامی ممالک میں طاغوتوں کا راج ہے۔ خدا وہ وقت قریب لائے جب پورے عالم میں پرچم ِاسلام، نظامِ توحید اور اخلاقِ نبوی کی حاکمیت، عزت و اقتدار ہو۔ انشاءاللہ خداوند متعال کی عنایات و تائیدات سے پرچم ِ اسلام ِ ناب محمدی بہت جلد امتِ محمدی کے ہاتھوں بلکہ اسلامی عدالت کے تشنہ مظلومینِ جہان کے ہاتھوں پورے عالم میں لہرایا جائیگا۔
خبر کا کوڈ : 350675
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

جناب عالی نے بہت ہی اچھی بات لکھی ہے: "لیکن نظامِ ولایت و امامت کو چونکہ مبلغین کے بجائے "بخ بخ" اور واہ واہ کرنے والے ملے، اس لیے ابھی اسلامی ممالک میں طاغوتوں کا راج ہے۔"
اس لئے بہتر ہے کہ جس طرح شہید باقر الصدر اور علامہ عارف حسینی نے صدور انقلاب کیلئے اپنا کردار ادا کیا، اسی راہ پر چلا جائے، بخ بخ نہ کی جائے۔
ہماری پیشکش