1
0
Friday 7 Mar 2014 10:22

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، نقوش قدم

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، نقوش قدم
تحریر: ارشاد حسین ناصر

اس فانی و مادی دنیا میں آنے والے ہر انسان کی شناخت و پہچان اس کا کردار و عمل ہی ہوتا ہے، جب سے کائنات وجود میں آئی ہے کروڑ ہا انسان آئے اور چلے گئے، ان چلے جانے والوں میں اکثر کی خاک بھی نہیں ملتی، مگر ان چلے جانے والوں میں سے بہت سوں کے کردار و اعمال ہمارے لئے مثال کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہم ان کے ناموں کے ساتھ ان کے کرداروں کو اکثر اپنی باتوں، اپنے خطابات، اپنی تقاریر و تحاریر میں بطور استعارہ و مثال استعمال بھی کرتے ہیں۔ اس میں اچھے اور برے ہر دو طرح کے کردار ہوسکتے ہیں، البتہ اچھے کردار و اعمال والوں کو اچھائی اور برے اعمال و کردار والے کردارں کو بری مثالوں کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یوں کہہ لیجئے کہ اچھے کردار والے لوگ بطور رہنما، راہ عمل سامنے رہتے ہیں اور برے اعمال والے کردار اپنے ناموں کے ساتھ بدکردار کے طور پر اور نفرین کے ساتھ پیش نظر رہتے ہیں۔ آج جب دنیا کی آبادی اربوں میں ہوچکی ہے، ان اربوں انسانوں میں کتنے لوگ ہیں جو اپنی کوئی شناخت بنا پاتے ہیں، اور پھر اچھے کرداروں کیساتھ مثالی اور آئیڈیل کے طور پر ان کی پہچان بن پاتی ہے۔ عمومی طور پر ہم نے دیکھا ہے کہ ان پہچان بن جانے والوں کی پہچان کا کوئی ایک ہی زاویہ اور پہلو ہوتا ہے، کوئی ایک شعبہ زندگی، کوئی ایک سیکٹر، کوئی ایک کردار ان کو یاد و شناخت کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔

آج جب ہم ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی 19ویں برسی منا رہے ہیں تو میرے پیش نگاہ یہ نکتہ ہے کہ اتنے برس گذر جانے کے بعد جن نوجوانوں نے انہیں دیکھا تک نہیں، ان کی یاد میں تڑپتے ہیں، ان کی خوشبو محسوس کرتے ہیں، ان سے فیضیاب ہوتے ہیں، ان کو آئیڈیلائز کرتے ہیں، ان کے انداز کو اپناتے ہیں، ان سے عقیدت رکھتے ہیں۔ آخر وہ کونسا کردار ہے جس نے ان کی شناخت و پہچان ان نوجوانوں میں اس قدر بنا دی ہے کہ ان کی یادوں کے چراغ جلائے جا رہے ہیں۔ ان سے عقیدت کا اظہار کیا جا رہا ہے، ان کی باتوں کو دہرایا جا رہا ہے؟ یوں تو ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید 28 ستمبر 1952ء کو پیدا ہوئے اور 7 مارچ 1995ء کی صبح لاہور کے یتیم خانہ چوک میں دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ اس تینتالیس برس کی فانی و مادی دنیا میں وہ ایسا کونسا کام کر گئے کہ ہم انہیں سفیر انقلاب کہتے ہوئے یاد کرتے ہیں، ہم انہیں روح ملت کہہ کر پکارتے ہیں، ہم انہیں مسیحائے ملت کے القاب سے نوازتے ہیں، ہم انہیں درد آشنا جانتے ہیں، ہم انہیں مبارز و مجاہد اور مرد مومن کے طور پر شناخت کرتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی زندگی کا مطالعہ کریں تو یہ آشکار ہوتا ہے کہ اس مرد مومن، مجاہدِ ملت کی زندگی و کردار کا ہر پہلو رہنمائی کا عنوان ہے، بلکہ یہ بات لکھتے ہوئے کوئی جھجھک محسوس نہیں ہو رہی کہ وہ ہمہ جہت آئیڈیالائز کئے جاسکتے ہیں، ان کی پہچان و شناخت کیلئے کس کردار کو اہمیت دی جائے یا کس کردار و عمل کو فوقیت دی جائے، بہت مشکل محسوس ہوتا ہے، ان کے کس کام کو بڑا کہا جائے اور کس کارنامے کو سب سے اونچے درجے پر رکھا جائے، ان کی زندگی کہ بہاریں ان کے ساتھ گذارنے یا ان کی شہادت کے بعد ان کی زندگی کا مطالعہ کرنے والے کسی محقق کیلئے بھی یہ کام خاصا مشکل لگتا ہے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے اوائل عمر سے ہی فعال و متحرک کردار ادا کئے ہیں۔
 
انہوں نے تعلیمی میدان میں بھی خود کو منوایا، اور دینی و تنظیمی میدان میں بھی سرخیل کے طور پر سامنے رہے، انہوں نے وقار دین و علمائے دین کا بیڑا بھی اٹھایا اور انہیں مدرسوں و خانقاہوں سے باہر نکال کر سیاست کے افق پر نمایاں بھی کیا، وہ ملت کے درد کا درماں کرتے بھی نظر آئے اور مسیحائی جیسے پراثر پیشے سے بھی منسلک دکھائی دیئے، وہ ان تھک مبارز کے طور بھی سامنے رہے اور مجاہد ملت کے طور پر ان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، وہ ایک شجاع اور دلیر شخصیت کے مالک کے طور بھی پہچان رکھتے تھے اور زیرک و دور اندیش حکمت کار کے حامل بھی دیکھے گئے، انہیں جاننے والون نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرشتہ صفت بھی کہا اور وہ عابد شب زندہ دار، قاری و دعا و مناجات خواں کے کردار میں ڈھلے بھی دیکھے گئے۔

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید منکسر مزاج، انصاف پسند، دیانت دار، شجر سایہ دار، مقرر اثر پذیر، مفکر عمل گیر، اخلاق حسنہ کی عملی تصویر تھے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید ہمدرد، غمگسار، معاون، مددگار، محسن، متقی پرہیز گار اور بہت ہی ملنسار تھے۔ وہ کربلا کے حقیقی پیرو تھے، انہیں صادق و سچا عاشق کربلا کہا جاسکتا ہے جو اے کاش ہم کربلا میں ہوتے نہیں بلکہ اس کا عمل و کرادر بتائے کہ جیسے ہم کربلا میں ہیں اور اپنا کردار ادا کرنے کا موقعہ ہے، وہ رہ حسینؑ کا مسافر تھا جس نے خمینی کی کربلا میں حسینی دعوت پر لبیک کہا اور ایک لمحہ کیلئے بھی اپنی جان کی فکر نہیں کی اور نہ ہی کسی اور رکاوٹ اور بہانے کو سد راہ بنایا۔ 

میں نے ڈاکٹر شہید کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں کو دقت نگاہ سے جانچنے کی کوشش کی، پرکھا اور سمجھا، برادر تسلیم رضا خان کیساتھ سفیر انقلاب کتاب کے مواد کی جمع آوری اور اشاعت میں بھی ہر مرحلہ میں ساتھ رہا، مجھے ڈاکٹر شہید کے دو کاموں نے بے حد متاثر کیا، دو کام ایسے ہیں جو کسی بھی طور بھلائے نہیں جاسکتے، جن کو آپ ڈاکٹر شہید کی شناخت و پہچان قرار دے سکتے ہیں، وہ دونوں کام جان پر کھیلنے سے ہی ممکن ہوئے، ان میں ایک تو ایران کی عراق کیساتھ جنگ میں امام خمینی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے محاذ پر پہنچنا اور وہ بھی اس حالت میں کہ گھر والوں کو بھی بعد میں پتہ چلے، اور اس محاذ جنگ پر جہادی و طبی خدمات کی سرانجام دہی، ان کے امام خمینی کی ذات سے عشق و جنون اور اسلام حقیقی کیلئے اپنی کمٹمنٹ کا بہترین نمونہ ہے، انہوں نے اس حوالے سے کسی کی پروا نہیں کی، کسی ملامت کا، کسی طنز و تیر کا بہانہ نہیں کیا اور اپنے چند دوستوں کیساتھ عملی میدان میں جا پہنچے۔ 

دوسرا کام جس نے بیحد متاثر کیا اور جسے ڈاکٹر شہید کی شناخت و پہچان یا آئیدیالائز کیا جاسکتا ہے ان کا مکہ جانا ہے، جب امام خمینی نے شہید قائد کی زبان میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس برس جب ایران و لبنان کے حاجیوں پر پابندیاں لگا دی گئیں، تاکہ برات از مشرکین کا فریضہ حج کے موقعہ پر انجام نہ پائیں تو ڈاکٹر شہید اپنے چند ساتھیوں کیساتھ مکہ حج پر پہنچ جاتے ہیں، یہ بہت بڑا فیصلہ تھا، عمومی طور پر سیاسی و دینی تحریکوں میں یہ بات دیکھنے کو ملتی ہے کہ جب کسی جگہ خطرہ ہو، جان کے چلے جانے کا خطرہ تو قیادت کرنے والوں کو سائیڈ لائن کر دیا جاتا ہے۔ اس خیال کیساتھ کہ اگر قائد ہی شہید ہوگیا تو رہنمائی کون کرے گا، یا یہ کہ فوجی مثال دی جاتی ہے کہ اگر کمانڈر ہی چلا گیا تو فوج کے حوصلے پست ہوجائیں گے اور شکست مقدر ہوجائے گی۔ قیادت کو بچا لیا جاتا ہے۔
 
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر شہید جو اس قوم کے سرخیل تھے، قیادت کرنے والے تھے، نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن تھے، وہ خود مرد میدان کے طور پر سامنے آئے اور کسی خطر کی پروا نہیں کی، مکہ میں برات از مشرکین کا فریضہ نہایت کامیابی سے ادا کیا اور آخر میں آکر اسیر ہوگئے، انہیں پھانسی کا آرڈر ہوگیا، پھانسی کا آرڈر ان کیلئے اچھنبے کی بات نہ تھی بلکہ یہ تو ہر صور ت میں ہونا تھا، جس سے وہ آگاہ تھے، یہ معمولی واقعہ نہیں جس کو فراموش کر دیا جائے، جسے نظر انداز کیا جائے، ان کا آگاہانہ انتخاب اتنا اثر انگیز اور مثالی ہے کہ یہ انمٹ نقش ہے۔ قیادت کو حفظ کرنا بھی بے حد ضروری ہوتا ہے، مگر کسی بھی انسان کی ذاتی کمٹمنٹ بھی ہوتی ہے، جو انسان کو بے چین رکھتی ہے، جب تک اس کو عملی نہ کیا جائے، روحی و جسمی طور پر چین میسر نہیں آتا، ڈاکٹر شہید نے مکے جا کر براءت از مشرکین کا فرض ادا کرکے ہی چین پایا، خدا نے ان کو کچھ مزید سال زندگی کے دیئے اور وہ رہا ہوگئے۔

ڈاکٹر شہید کی کتاب زندگی میں یہ دو کارنامے واقعی انمٹ نقوش رکھتے ہیں، مگر اس کے باوجود میں یہ کہوں گا کہ اصل بات ان کی کمٹمنٹ ہے، ان کا تعہد ہے، ان کی استقامت ہے، ان کا آگاہانہ انتخاب ہے، ان کا مبارزانہ کردار ہے جس کا انتخاب شعوری طور پر کیا، اسی لئے وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں، ہمارے قلب و چشم میں بسیرا کئے ہوئے ہیں، ان کی زندگی ورق ورق ہمارے لئے بیداری، تحرک، اور استقامت کا پیغام لئے ہوئے ہے، ہم اس پر گامزن رہینگے، ہم اس راستے کے راہی رہینگے، جس پر چلتے ہوئے ڈاکٹر شہید نے اپنی قیمتی ترین متاع کو نچھاور کر دیا۔ ہمیں یقین ہے کہ حضرت حجت کی آمد کیساتھ جب ڈاکٹر شہید کی کمان میں دستے تشکیل پائیں گے تو ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلنے والوں میں سے ہوں گے۔
چھوڑ جاتے ہیں جو نقوش قدم 
ایسے راہبر، مرا نہیں کرتے
خبر کا کوڈ : 358947
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی ملت کے جوانوں سے ۔۔
میرے وطن پہ نہ ظلمت کا راج چل جائے
میرے لہو کے چراغوں کو سرخرو رکھنا
کسی مقام پر ملت نہ تنہا رہ جائے
میرے لہو کی بس اتنی سی آبرو رکھنا
ہماری پیشکش