3
0
Monday 7 Apr 2014 18:20

ملی یکجہتی کونسل کی دوسری عالمی اتحاد امت کانفرنس

ملی یکجہتی کونسل کی دوسری عالمی اتحاد امت کانفرنس
تحریر: ثاقب اکبر

ملی یکجہتی کونسل کے زیراہتمام 15 اپریل 2014ء بروز منگل اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں دوسری عالمی اتحاد امت کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ قبل ازیں ایک عظیم الشان عالمی اتحاد امت کانفرنس 11و 12 نومبر 2012ء کو اسلام آباد ہی میں جناب قاضی حسین احمد مرحوم کی سربراہی میں منعقد کی گئی تھی۔ اس کانفرنس کی یادیں ابھی تک دل و دماغ میں تازہ ہیں۔ اس میں ملی یکجہتی کونسل کی رکن جماعتوں کے علاوہ دیگر کئی ایک اہم مذہبی جماعتوں کے قائدین نے بھی شرکت کی تھی۔ نیز اس میں پاکستان کے دینی مدارس کی مختلف تنظیموں کے قائدین بھی شریک ہوئے تھے۔ مشائخ کرام کی بھی ایک قابل ذکر تعداد اس کانفرنس میں موجود تھی۔
 
موجودہ کانفرنس جو 15 اپریل کو منعقد ہونے جا رہی ہے اس میں اگرچہ عمومی اجتماع منعقد نہیں کیا جا رہا، تاہم اپنی ہمہ گیر نمائندگی کے لحاظ سے توقع ہے کہ یہ کانفرنس بھی پہلی کانفرنس کی نظیر ہوگی۔ اس میں تاحال جن مذہبی و سیاسی قائدین نے شرکت کی دعوت قبول کی ہے ان کے ناموں پر نظر ڈالی جائے تو توقع کی جانا چاہیے کہ نہ فقط نمائندگی کے اعتبار سے بلکہ اپنی تاثیر کے اعتبار سے بھی یہ کانفرنس نہایت مؤثر اور یادگار رہے گی۔ اس کانفرنس کے مختلف سیشنز میں جن موضوعات کو پیش نظر رکھا جا رہا ہے، ان میں وحدت اسلامی کے راستے میں حائل رکاوٹیں اور ان کا سدباب، قرآن و سنت رسولؐ کی نظر میں اتحاد امت، زوال امت کے اسباب اور امت کا روشن مستقبل نیز انتہا پسندی اور تکفیری رویوں کا سدباب شامل ہیں۔

اس وقت عالم اسلام میں بیک وقت جو مختلف مسائل سر اٹھائے ہوئے ہیں اور امت جن مشکلات سے دوچار ہے، ان کے پیش نظر ایسے اجتماعات کے انعقاد کی اہمیت اظہر من الشمس ہے۔ پاکستان میں ایک طرف حکومت اور طالبان کے مذاکرات چل رہے ہیں اور دوسری طرف دہشت گردی اور فرقہ وارانہ وارداتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ افغانستان میں جہاں ایک طرف صدارتی انتخابات منعقد ہوئے ہیں اور نیٹو فورسز نے سال رواں کے آخر میں افغانستان سے بیشتر اپنی افواج نکالنے کا عندیہ دے رکھا ہے، وہاں دوسری طرف افغان طالبان اپنے دیرینہ موقف پر قائم نظر آتے ہیں۔ عالم اسلام کا دیرینہ زخم فلسطین پہلے کی طرح ہرا ہے۔ فلسطینیوں کی جہادی تنظیم حماس صہیونیوں کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے اور اس کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ غزہ کے مظلوم سترہ لاکھ مسلمانوں کی زندگی دو بھر کی جاچکی ہے۔ فلسطین کے صدر محمود عباس جنھیں امریکہ اور اسرائیل اعتدال پسند راہنما قرار دیتے تھے، وہ بھی آج اسرائیلیوں سے مایوس ہو کر مذاکرات کا بائیکاٹ کرچکے ہیں۔

مصر میں منتخب حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد اپنے حقوق کے لیے اٹھنے والی ہر آواز کا گلہ ظلم و ستم سے دبایا جا رہا ہے۔ شام کا ناسور پہلے کی طرح سے رِس رہا ہے۔ کشمیر سے آہ و بکا کی آواز اسی طرح سے آ رہی ہے۔ میانمار کے مسلمانوں پر بدھ مت کے وحشی مسلسل ستم کے پہاڑ ڈھا رہے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمان نئے انتخابی معرکے کے دوران میں حسرت و خوف کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ضرورت تو اس بات کی تھی کہ مسلمانوں کی حکومتیں اور مسلمانوں کے عالمی ادارے اکٹھے ہوکر اپنی آواز مسلمانوں کے حقوق کے لیے بلند کرتے، لیکن افسوس کہ یہ نام نہاد ادارے ظلمت کی اس رات کو سحر میں بدلنے کے لیے کسی تدبیر کی اہلیت کا ثبوت دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ ایسے میں دردمند دل رکھنے والے مسلمان راہنماؤں کی ذمے داری سوا ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر جب وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اسلام دشمن قوتوں کے کچھ گماشتے مسلمانوں کے مابین افتراق و انتشار کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ دشمنوں کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے اپنے ہی بھائیوں کے خون کی ہولی کھیلنے والے عناصر مصروف ستم ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو مسلمانوں ہی کو کافر قرار دینے کے درپے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان میں ملی یکجہتی کونسل کا دم غنیمت ہے۔

ملی یکجہتی کونسل جسے کئی ایک چیلنجز درپیش ہیں، ایک دفعہ پھر اپنے اصل مقاصد کے حصول کے لیے پرعزم دکھائی دیتی ہے۔ کونسل کے بانی صدر مولانا شاہ احمد نورانی کی خدمات کو آج بھی تمام مسالک کے اکابر اور جماعتیں خراج عقیدت پیش کرتی ہیں۔ اسی طرح کونسل کے احیاء گر قاضی حسین احمد مرحوم کی مخلصانہ جدوجہد کو ایک جہان سراہتا ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم کے بعد کونسل کے لیے خود ایک ایسے عظیم قائد کے خلا کو پُر کرنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا، لیکن علامہ سید ساجد نقوی کے عبوری دور میں بھی کونسل متبادل قیادت کی فراہمی کی کوششوں کے ساتھ ساتھ اپنے اصل اہداف کے لیے بھی سرگرم عمل رہی۔ نئے صدر صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر اور نئے سیکرٹری جنرل جناب لیاقت بلوچ کے انتخاب کے بعد کونسل اپنے اہداف کے حصول کے لیے پھر رواں دواں ہے۔ پیش نظر عالمی اتحاد امت کانفرنس اس پر شاہد ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ اس کانفرنس میں بعض عالمی راہنما بھی شریک ہوں گے۔ جن کی موجودگی میں عالم اسلام کے اہم مسائل یقینی طور پر زیر بحث آئیں گے۔ نیز پاکستان میں جو مشکلات مسلمانوں کو درپیش ہیں وہ بھی موضوع گفتگو رہیں گی، تاہم کونسل کا چونکہ بنیادی مقصد مسلمانوں کے مابین ہم آہنگی اور وحدت کے راستوں کو استوار کرنا ہے، اس لیے ان راستوں کی رکاوٹوں پر زیادہ توجہ مرکوز رہے گی۔ ہماری رائے میں اتحاد امت کے راستے میں جہاں دیگر متعدد رکاوٹیں درپیش ہیں، وہاں خاص طور پر بعض عالمی طاقتوں کے ایماء پر تکفیریت کا طوفان بدتمیزی سب سے زیادہ بلاخیز ہے۔ اس طوفان کو اگر جرأت و ہمت نیز حکمت سے نہ روکا گیا تو پورا عالم اسلام اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ کونسل کے سیکرٹری جنرل جناب لیاقت بلوچ نے اسلام آباد میں 3 اپریل 2014ء کو کونسل کے دیگر راہنماؤں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملی یکجہتی کونسل کے زیراہتمام عالمی اتحاد امت کانفرنس کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا:
"پاکستان میں بسنے والے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے درمیان سوچی سمجھی سازش کے تحت نفرت کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے اور ملک میں شیعہ، سنی، دیوبندی، اہلحدیث کی تفریق کو ابھارا جا رہا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل ملک میں تمام مسالک کے درمیان قدر مشترک اور درد مشترک کے اصولوں پر مبنی اتحاد کے لئے کوشاں ہے۔ عالم اسلام میں شیعہ سنی کی بنیاد پر مکروہ فتنہ پھیلایا جا رہا ہے۔ قرآن وسنت کی نظر سے کسی کو اختیار حاصل نہیں کہ دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگائے۔"
خبر کا کوڈ : 370240
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ملی یکجہتی کونسل فقط دیوبندیوں کے دفاع کیلئے ہے، اس کا کوئی فائدہ نہیں، یہ فورم ہمیشہ شیعیت کیخلاف ہی استعمال ہوا ہے، خدا ہمارے بڑوں کو عقل دے۔
مجاہد حسین لاہور
اتحاد و وحدت کی ہر کوشش قابل تحسین ہے۔ بالخصوص آج کے پرآشوب دور میں۔
جزاک اللہ ۔ ۔ ۔
مجاہد صاحب کی رائے صد در صد غلط ہے۔ تمام شیعہ دھڑے اس میں فعال ہیں۔
ہماری پیشکش