0
Wednesday 30 Jul 2014 23:18
داعش کو اسلام کا چہرہ بگاڑنے کیلئے سامنے لایا گیا ہے

امت مسلمہ میں بیداری و یکجہتی کی کمی کیوجہ سے باطل طاقتیں فلسطین میں یہودیوں کو بسانے میں کامیاب ہوئیں، علامہ سید ذکی باقری

امت مسلمہ میں بیداری و یکجہتی کی کمی کیوجہ سے باطل طاقتیں فلسطین میں یہودیوں کو بسانے میں کامیاب ہوئیں، علامہ سید ذکی باقری
علامہ سید محمد ذکی باقری بھارتی شہر بنگلور کے علی پور سے تعلق رکھتے ہیں، پچھلے 30 سال سے کنیڈا میں مقیم ہیں، آپ برصغیر کے نامور عالم دین، مصنف اور خطیب ہیں، آپ کے زیر نگرانی متعدد دینی و تعلمی ادارے فعال ہیں، جن میں ’’دی کونسل آف اسلامک گائیڈینس‘‘ ہے جس کی بنیاد کنیڈا میں 1985ء میں ڈالی گئی، کنیڈا کے مسلم طبقے کو اسلامی احکامات، تعلیم و دیگر دینی و دنیاوی مسائل کے حل میں اپنا تعاون دے رہے ہیں، علامہ سید محمد ذکی باقری دارالزہراء ؑ علی پور کے بانی ہیں، آئندہ کچھ سالوں میں کنیڈا میں ہی ایک یونیورسٹی بنام الھدیٰ اسلامک سینٹر کا قیام عمل میں لانے والے ہیں، آپ البلاغ آرگنائیزیشن بنگلور کے سرپرست ہونے کے علاوہ انجمن جعفریہ بنگلور کے سربراہ بھی ہیں، اسلام ٹائمز نے علامہ سید محمد ذکی باقری سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ آپ نے ہندوستان کی جگہ کنیڈا کو منتخب کیا اور وہاں اپنی دینی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔؟

علامہ سید محمد ذکی باقری: کنیڈا کا انتخاب عارضی تھا نہ کہ مستقل، مگر شاید اللہ تعالٰی کو یہی منظور تھا کہ میرا قیام وہاں مستقل ہوجائے، اس کے باوجود بھی میں سال کے تقریباً 6 ماہ مختلف ممالک کے سفر میں گزارتا ہوں، محرم الحرام کا عشرہ کراچی پاکستان میں گزارتا ہوں، اس کے علاوہ دوسرے ممالک جیسے ہندوستان، ایران، عراق وغیرہ میں بھی دینی خدمات اور امت کی بیداری میں گزارتا ہوں، اس دور میں سمجھتا ہوں کہ ایک ہی جگہ بیٹھنے سے دین کی خدمت زیادہ نہیں کی جاسکتی، کیونکہ بیداری امت مسلمہ کی ضرورت آج شدت سے محسوس کی جا رہی ہے، اس لئے میں اگر کنیڈا میں مقیم ہوں لیکن میں اپنے آبائی وطن کے تمام مسائل سے آگاہ ہوں اور ان مسائل کو سلجھانے کے لئے میری خدمات ہر وقت میسر رہتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ عالمی سطح پر دہشتگردی کی پشت پناہی کی جا رہی ہے، کیوں ایک مسلمان گروہ کی پشت پناہی کی جا رہی ہے، تاکہ وہ تکبیر کا نعرہ بلند کرکے مسلمانوں کے گلے کاٹتے پھرے۔؟

علامہ سید محمد ذکی باقری: میرے خیال میں اس کی ایک بہت بڑی وجہ اسرائیل کے تحفظ کی راہیں تلاش کرنا ہے، جس طرح کسی پودے کی نشوونما اور بڑھنا اس کے آس پاس کے ماحول جیسے مٹی، پانی، معدنیات موانع کا نکالنا وغیرہ پر منحصر کرتا ہے، اسی طرح مغربی طاقتیں جیسے برطانیہ، امریکہ و دوسرے مغربی ممالک اسرائیل کے نجس و نحس وجود میں آنے سے اسرائیل تک اس کی نشوونما اور حفاظت کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس ناسور کے پھیلاؤ، حفاظت و ترقی کے لئے انہوں نے پہلے سے ہی پلاننگ کی ہوتی ہے جبکہ مسلمان آج تک ٹکراؤ کے شکار ہیں، امت مسلمہ میں بیداری و یکجہتی کی کمی کی وجہ سے باطل طاقتیں فلسطین میں یہودیوں کو بسانے میں کامیاب ہوئیں، اگر مسلمان 1919ء میں برپا ہونے والی نجدی حکومت جو بالکل انتہا پسند تھی اور جو امریکہ و دیگر مغربی ممالک کی مدد سے وجود میں آئی، اگر اس کیخلاف اٹھ کھڑے ہوتے تو آج مسلمانوں کی اتنی خستہ حالت نہ ہوتی، شام، پاکستان و دیگر آشفتہ صورتحال ہے تو یہ اسرائیل کی حفاظت، پھیلاؤ و گروتھ کے لئے موانع کا ہٹانا اور دوسری طرف سعودی عرب، قطر، ترکی جیسے ممالک کو اسرائیل کے خلاف ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، اس صورتحال کی وجہ اگر دیکھی جائے تو صرف اور صرف مسلم امہ میں خلفشار و انتشار ہے، جب تک یہ خلفشار، انتشار اور رسہ کشی رہے گی، تب تک باطل اسرائیل کی بقا رہے گی اور باطل کا غلبہ رہے گا۔

اسلام ٹائمز: داعش کی اسلام دشمنی کے بارے میں آپ کے تاثرات جاننا چاہیں گے۔؟

علامہ سید محمد ذکی باقری: داعش کو سمجھنے کے لئے ہمیں تاریخ میں تھوڑا پیچھے جانا پڑے گا، اسلامی انقلاب ایران کے بعد سے ہی مغربی عالمی میڈیا میں کچھ جملے استعمال ہونے لگے، ان میں سے ایک جملہ Crescent of Shia’s یعنی ایک ہلال شیعوں کا ابھر رہا ہے، اس طرح سے انقلاب مخالفین نے ایک ذہن تیار کیا، جو شیعوں کے ابھرنے کے خلاف تھا اور انقلاب اسلامی باقی ملکوں میں پھیلنے نہ پائے، اس کی روک تھام کے لئے انہوں نے کچھ مسلح گروپ تیار کئے، انہیں ٹریننگ، ہتھیار دیئے اور ہر چیز سے نوازا، ان مسلح گروپوں میں القاعدہ، طالبان، النصرہ، داعش اور دوسرے انتہا پسند گروپ شامل ہیں، اس سلسلے کی ایک اہم کڑی داعش کا وجود ہے، عراق امریکی مداخلت کو اگر دیکھا جائے تو امریکہ نے پہلے ہی ایسے اشارے دیئے ہیں کہ عراق تین حصوں میں بٹنا چاہئے، ایک حصہ شیعوں کے لئے، دوسرا کردستان اور تیسرا سنیوں کے لئے، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے تقسیم کرو اور حکومت کرو پالیسی اپنائی، سنیوں کو شیعوں سے لڑوایا، شیعہ کو سنی سے اور کرد پہلے سے ہی اپنی الگ اسٹیٹ چاہتے تھے، ان سب حالات میں داعش کو مہرے کی صورت میں سامنے لایا گیا، تاکہ استعماری طاقتیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکیں، مطلب یہ کہ داعش کو عراق کے تین حصے کرنے اور مسئلہ فلسطین سے توجہ ہٹانے کے لئے سامنے لایا گیا۔

اسلام ٹائمز: عالمی میڈیا کی کوشش رہی ہے کہ داعش کو سنی مسلمانوں سے جوڑا جائے، کیا سنی مسلمان اس گروہ کو تسلیم کرتے نظر آرہے ہیں۔؟
علامہ سید محمد ذکی باقری: نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، کوئی بھی سنی داعش کو قبول نہیں کرتا، یہاں تک کہ سلفی اور وہابی بھی نہ اس گروہ کو قبول کرتے ہیں نہ ہی حمایت، یہ گروہ دین اسلام کے چہرے کو بگاڑنے کے لئے سامنے لایا گیا ہے، اس کا کسی مذہب کسی مہذب گروہ سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف تو داعش امریکہ اور استعماری طاقتوں کی ہی پیداوار ہے تو دوسری طرف امریکہ داعش سے نمٹنے میں عراقی حکومت کا مددگار بننا چاہتا ہے۔؟

علامہ سید محمد ذکی باقری: اگر امریکہ کی معاشی حالت کو دیکھا جائے تو بقول امام سید علی خامنہ ای، ایک ایسے پہاڑ کی مانند ہے جو اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہے اور کبھی بھی گر کر چور چور ہوسکتا ہے، اور عراق دنیا کا دوسرا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے، داعش کا استعمال امریکہ اپنی معاشی حالت کو مستحکم کرنے کے لئے کر رہا ہے، آج اگر دیکھا جائے تو عراق میں تیل کی پیداوار پر امریکہ کا کنٹرول ہے، جسے استعمال کرکے امریکہ اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے، اس کے علاوہ روزانہ اربوں بیرل خام تیل عراق سے امریکہ کے ذریعے غائب یا چوری ہو رہا ہے، جسکا کئی بار انہوں نے اظہار بھی کیا ہے، داعش کو ختم کرنے کا جو اعلان انہوں نے کیا، کہیں نہ کہیں یہ ایک نرم لہجہ اہل تشیع کی جانب ہے، کیونکہ امریکہ دیکھ رہا ہے کہ مسلمانوں میں صرف مکتب تشیع ایسا فکری پلیٹ فارم ہے جو ٹھوس بنیادوں پر قائم ہے۔

اسلام ٹائمز: عالم اسلام میں داعش کس نوعیت کا گروپ بن کر ابھر رہا ہے، داعش کی پہچان عالم اسلام میں۔؟

علامہ سید محمد ذکی باقری: جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ مسلمان خاص طور سے عراق و شام کے مسلمان داعش کو ایک انتہا پسند گروہ جانتے ہیں اور ان کے بہکاوے میں آتے نظر نہیں آرہے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ان کا خاتمہ جلد از جلد ہوگا، پہلی بات یہ کہ اس گروہ نے پلاننگ کی تھی مگر اس کی عمل آوری میں جلد بازی کی اور انتہا پسندی کی حد کر دی، حتیٰ کہ طالبان نے بھی انہیں انتہائی انتہا پسند جماعت کہہ کر ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ دوسری بات کہ علماء اہل سنت و اہل تشیع نے ملک کر جو داعش کے خلاف اعلان جہاد کیا ہے، یہ بھی ایک وجہ ہے کہ مومنین عراق و شام اس گروہ سے دو دو ہاتھ کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں اور انشاءاللہ وہ دن دور نہیں جب اس گروہ کا خاتمہ اور ایک متحد عراق بن کر سامنے آئے گا۔

اسلام ٹائمز: کیوں شام، عراق، پاکستان اور عالم اسلام کے دیگر ممالک ہی استعمار کے نشانے پر نظر آرہے ہیں۔؟
علامہ سید محمد ذکی باقری: انقلاب اسلامی ایران نے امت مسلمہ میں جو بیداری پیدا کی، مغربی ممالک اور دوسری استکباری طاقتیں اس بیداری کو پھیلنے نہیں دینا چاہتی، اس کے لئے انہوں نے بہت سی پالیسیاں بنائیں، جن میں ایک یہ ہے کہ مسلمان ممالک کو کبھی بھی متحد نہ ہونے دیا جائے، اگر آپ دیکھیں آج دنیا میں 59 مسلم ممالک ہیں، جو اپنے آپ میں ایک بہت بڑی طاقت ہیں، اگر یہ ممالک آپس میں متحد ہوجائیں تو مجھے لگتا ہے کہ وہ اپنی ہر بات بِنا جنگ کئے منوا سکتے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ایسا نہیں ہو پا رہا ہے اور اس کی بڑی وجہ مسلم امہ کی خوابیدگی ہے، غفلت ہے اور آپسی انتشار ہے۔

اسلام ٹائمز: ہندوستان کی بات کرنا چاہوں گا، ہندوستان میں مسلمانوں کے پچھڑنے کی کیا وجہ ہے۔؟
علامہ سید محمد ذی باقری: میرے خیال میں ہندوستانی مسلمانوں کے پچھڑنے کی سب سے بڑی وجہ سیاسی بصیرت کا نہ ہونا ہے، اگر دیکھا جائے تو اسرائیل کی جتنی بھی لابی ہندوستان میں آگے بڑھی ہے، اتنی ہماری پیش رفت نہیں ہے، ہم سے زیادہ اسرائیل ہندوستان میں کام کر رہا ہے، ہندوستان کے لئے بہتر یہی تھا کہ مسلم امت سے قربت رکھتے، کیونکہ ہندوستان کے آس پاس مسلم ممالک ہی ہیں، مگر مسلمانوں سے عداوت کی بنیاد پر وہ ایسا نہیں کر رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: ہندوستان میں مسلمانوں کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں، جو کچھ دباو انکے ساتھ روا رکھا گیا ہے، اس کا ردعمل کیا ہونا چاہئے۔؟

علامہ سید محمد ذکی باقری: سب سے پہلے ہمیں ایسی پالیسیاں مرتب کرنی ہیں، جن کو عمل میں لاکر ہم آگے بڑھ سکتے ہیں، اپنے بچوں کو تعلیم کے نور سے منور کرنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ کوئی مسلمان جاہل نہ رہنے پائے، اگر ہم اعداد و شمار اٹھا کر دیکھیں تو ہم یہ دیکھیں گے کہ مسلمانوں کی اکثریت جاہل ہے اور جاہل قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی، دوسرا ہمیں اسلامی بیداری پیدا کرنی ہے نہ کہ مذہبی بیداری، ہمیں مختلف مکاتب فکر سے اٹھ کر امت مسلمہ کی فکر کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے تب جاکر ہم اپنی آنے والے نسلوں کو ایک ترقی یافتہ اور متمدن معاشرہ دے سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: عالمی سطح پر جو مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، مختلف استعماری طاقتوں کے ذریعے اس حوالے سے ہماری کیا ذمہ داری ہے۔؟
علامہ سید محمد ذکی باقری: انقلاب اسلامی ایران نے اس حوالے سے ہمیں بہت بڑا اور بہترین درس دیا ہے اور بقول امام خمینی (رہ) جو یہ کہے کہ میں سنی ہوں یا میں شیعہ ہوں، وہ وہ سنی ہے اور نہ شیعہ بلکہ استعمار کا آلہ کار ہے، یہ شیعہ سنی انتشار جہالت کی بنیاد پر ہے، اگر ہم تھوڑا سا بلند ہوجائیں تو یہ انتشار خود بہ خود ختم ہوجائے گا، اس کے علاوہ ہمیں ہر میدان مین آگے بڑھنا ہے، اس عملی دنیا میں دین اسلام کے علاوہ کوئی اور دین نہیں ہے جو دوسروں کو مطمئن کرسکے اور صحیح راہ دکھائے، ہمین قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر دنیا میں زندگی گزارنی ہوگی، اگر ایسا کیا تو کوئی بھی بیرونی طاقت ہمارے درمیان انتشار پھیلا نہیں سکتی۔ دین اسلام کے تمام فرقے اگر اسلام کے نام پر متحد ہوجائیں تو تمام مسائل کا حل نکل سکتا ہے، ضروت ایجاد کی ماں ہے اور آج کی دنیا میں مسلمانوں کو متحد ہونے کی سب سے زیادہ ضروت ہے، کیونکہ استعماری قوتیں شیعہ سنی نہیں دیکھتیں بلکہ اسلام کو مٹانے پر تلی ہوئی ہیں، ان حالات میں ہمارے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ متحد ہوجائیں اور حالات کو مزید بگڑنے سے بچائیں۔
خبر کا کوڈ : 402235
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش