0
Monday 15 Sep 2014 01:50

پی پی پی گلگت بلتستان کی پارٹی قیادت کیلئے 2 شاہ مدمقابل، مہدی شاہ کا مستقبل تاریک

پی پی پی گلگت بلتستان کی پارٹی قیادت کیلئے 2 شاہ مدمقابل، مہدی شاہ کا مستقبل تاریک
رپورٹ: میثم بلتی

گلگت بلتستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی تبدیلی کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ آج سے 5 سال قبل سید جعفر شاہ گلگت بلتستان پی پی پی کے صدر تھے اور وزیراعلٰی سید مہدی شاہ سیکرٹری جنرل کے عہدے پر براجمان تھے۔ 2009ء کے انتخابات سے قبل ہی سید جعفر شاہ نے بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر سیاست کو ترک کر کے عدلیہ جوائن کر لی اور سپریم اپیلٹ کورٹ میں جج تعینات ہو گئے، یوں مہدی شاہ کے لئے میدان خالی چھوڑ دیا۔ 2009ء میں وفاق کی مدد اور تعاون سے پی پی نے اسمبلی انتخابات جیت لئے، وہ اکثریتی پارٹی بن کر ابھری، بہت سے آزاد امیدوار بھی اس کی گود میں پکے ہوئے پھل کی طرح جاگرے، مرغ بادنما سیاسی جماعتوں نے بھی اتحاد کی پیش کش کر دی، اسلام آباد سے آصف زرداری بھی مفاہمتی سیاست کے نام پر سیاسی جماعتوں کو حکومت میں شامل کرنے کا حکم دیتے رہے، وزیراعلٰی کے تو دن پھر گئے، انہوں نے بادشاہوں کی طرح حکومت کی، ہوشیار تھے اس لئے انہوں نے ایک طرف قیادت کو خوش رکھا تو دوسری طرف ان قوتوں کو جن کے ہاتھوں میں ان کو ہٹانے یا لگانے کا اختیار تھا۔ حکومت کی حد تک ان کی گرفت مضبوط رہی لیکن اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی کارکن ان کے ہاتھ سے نکلنے لگے۔

پیپلز پارٹی اسکردو ان کی سب سے بڑی سیاسی قوت تصور کی جاتی تھی لیکن وہ بھی آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگی، ایک بار اس نے بددل ہوکر اجتماعی استعفے بھی دیئے لیکن مرکز کی سرد مہری کے باعث واپس لے لئے، تب سے ان کی مہدی شاہ سے بے رخی جاری ہے۔ جہاں تک پی پی گلگت، غذر، ہنزہ نگر، استور اور دیامر کا تعلق ہے تو یہ کبھی بھی دل سے مہدی شاہ کے ساتھ کھڑی نہیں رہی۔ گلگت کے چند ایک سیاسی رہنما جو جیالے کم اور موقع پرست زیادہ ہیں، مہدی شاہ کے حق میں بیانات دیتے رہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ پارٹی پر مہدی شاہ کا کوئی کنٹرول نہیں تھا اس میں ان کی شخصیت کے بعض کمزور پہلوﺅں کا بھی عمل دخل ہے۔ مہدی شاہ اس ساری صورت حال سے باخبر تھے، اس لئے انہوں نے حالیہ پانچ برس میں خود کو پارٹی سے الگ تھلگ رکھا۔ پارٹی کی صوبائی مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد کیا نہ ہی سینئر رہنماﺅں سے مشاورت کی زحمت کی۔ چند ایک کارکنوں کی سرپرستی ضرور کی ان کو فائدہ پہنچایا لیکن پارٹی کو منظم کرنا اور کارکنوں کے مسائل حل کرنا ان کی پالیسی کا حصہ نہیں رہا۔ اس کی وجہ سے بار بار جیالوں نے ان کے خلاف بغاوت کی، بات زرداری، بلاول بھٹو اور فریال تالپور تک پہنچی لیکن وہ قیادت کو مطمئن کر کے پارٹی صدارت بچانے میں کامیاب رہے لیکن کرپشن اور کارکنوں کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ قیادت کی تبدیلی کا مطالبہ ہر طرف سے اٹھنے لگا۔

دوسال قبل انہوں نے پارٹی کی ذیلی تنظیمیں توڑ ڈالیں اور چیئرمین ابراہیم کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی تاکہ دوبارہ سے عہدیداروں کی تقرری کی جا سکے لیکن یہ منصوبہ بھی کامیاب نہ ہو سکا اور اس کو ترک کرنا پڑا۔ اس دوران سید جعفر شاہ کا سپریم اپیلٹ کورٹ کا کنٹریکٹ ختم ہو گیا، وہ سرکاری ملازمت سے آزاد ہوگئے۔ اگرچہ مہدی شاہ نے کافی کوشش کی کہ ان کو توسیع مل جائے تاکہ وہ عدالت سے باہر آکر ان کے لئے مشکل پیدا نہ کر سکیں لیکن یہ چال کامیاب نہ ہوئی۔ اب جعفر شاہ پر سیاست میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں۔ پی پی کے جیالے مہدی شاہ کی قیادت سے تنگ آ چکے ہیں، وہ پارٹی قیادت میں تبدیلی چاہتے ہیں، جعفر شاہ ان کے لئے امید کی کرن بن چکے ہیں۔ جعفر شاہ بے داغ کردار کے سیاستدان ہیں۔ ان کی شخصیت کے بعض پہلوﺅں پر تحفظات کا اظہار کیا جا سکتا ہے لیکن پارٹی سے ان کی کمٹمنٹ اور لیڈرشپ کی صلاحیتوں کا ہر کوئی اعتراف کرتا ہے۔ وہ اگر دوبارہ عملی سیاست میں آنے کا ارادہ کرلیں تو صوبائی قیادت کا دروازہ ان کے لئے کھل سکتا ہے۔ اس کی اصل وجہ مہدی شاہ کی بیڈگورننس، کرپشن اور کارکنوں کو نظرانداز کرنا ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ مرکزی قیادت کا بھی ایک بڑا حصہ مہدی شاہ سے خوش نہیں، اس لئے حالات مہدی شاہ کے لئے سازگار نہیں۔ جعفرشاہ کی سیاست میں دوبارہ آمد علاقے کے لئے بھی نیک شگون ہے۔ انہیں اگر موقع ملے تو وہ بہتر انداز میں عوام کی خدمت کر سکتے ہیں۔

دوسری طرف مہدی شاہ آسانی کے ساتھ میدان نہیں چھوڑیں گے۔ پانچ سال میں انہوں نے مرکزی قیادت کا خاصا قرب حاصل کر لیا ہے۔ صوبائی قیادت کی تبدیلی کی وہ مزاحمت کر سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس میں کون کامیاب ہوتا ہے اور کون ناکام۔ آنے والے دن پی پی میں قیادت کی رسہ کشی کے حوالے سے اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ فیصلہ جیالوں نے ہی کرنا ہے، غالب امکان یہ ہی ہے کہ وہ مہدی شاہ پر جعفر شاہ کو ترجیح دیں گے، یہ مہدی شاہ کے لئے نیک شگون نہیں ہوگا، وہ اگر غلط تاویلیں نہ کریں اور اعتراف کر لیں کہ پانچ سال میں انہوں نے ایک طرف عوام کو مایوس کیا تو دوسری طرف کارکنوں کو بھی ناخوش۔ اس لئے قیادت کا حق دار میں نہیں کوئی دوسرا ہے تو یہ ان کا بہترین فیصلہ تصور کیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 409733
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش