0
Sunday 20 Apr 2014 18:23

جشن ولایت نور بتول (س)

ولادت سیدہ فاطمۃ الزہراء (س) کی مناسبت سے خصوصی تحریر
جشن ولایت نور بتول (س)
تحریر و تزئین: جاوید عباس رضوی

حضرت فاطمہ زہرا (س) پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ (ص) اور جناب خدیجہ الکبریٰ کی اکلوتی بیٹی تھیں، حضرت امام علی (ع) کی رفیقہ حیات اور امام حسن و امام حسین (ع) جناب زینب اور ام کلثوم کی مادر گرامی اور نو اماموں کی جدہ ماجدہ تھیں، آپ کے مشہور القاب زہرا، صدیقہ، بتول، سیدۃ النساء العالمین، راضیہ، مرضیہ، بضعۃ الرسول (ص) اور ام ابیہا تھے، وطن کے اعتبار سے جائے پیدائش مدینہ منورہ بیت رسالت، خاندانی افضلیت کے اعتبار سے کائنات کا منتخب ترین گھرانہ بنی ہاشم، زبان کے اعتبار سے لغت قرآن میں گفتگو کرنے والی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی ایسا موقعہ دنیا والے کبھی نہیں پیش کرسکے کہ جس میں فاطمہ زہرا نے اپنے نفس کو کسی معمولی انسان کے نفس پر ترجیح دی ہو، آپ ہمیشہ اپنے پر دوسروں کو مقدم رکھتی تھیں، علامہ مجلسی ( رہ) لکھتے ہیں کہ نماز شب میں حضرت امام حسن (ع) برابر سنا کرتے تھے کہ میرے پالنے والے ہمارے پڑوسیوں کو بخیر رکھ اور ان کے مقاصد کو پورا کر، آپ امام نے عرض کی کہ مادر گرامی آپ نے کبھی اپنے کو اور اپنے گھروالوں کو پہلے یاد نہ فرمایا؟ ارشاد ہوا اے بیٹا پڑوسی گھر والوں پر مقدم ہیں، پہلے پڑوسی پھر گھر۔

آپ کا نورِ وجود نورِ رسالت کے ساتھ خلقت کائنات سے بہت پہلے پیدا ہو چکا تھا لیکن بظاہر آپ کی ولادت باسعادت 5 بعثت 20 جمادی الثانی بمطابق 614ء یا 615 ء یوم جمعہ ہوئی، روایت میں ہے کہ جب جناب فاطمہ زہرا (س) کا بچپن تھا تو ام سلمٰی سے کہا گیا کہ فاطمہ زہرا کو اصول تہذیب سکھائیں انہوں نے جواب دیا کہ میں مجسمہ عصمت و طہارت کو اخلاق کی کیا تعلیم دے سکتی ہوں، میں تو خود اس کمسن بچی سے تعلیم اصول حاصل کیا کرتی ہوں، تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا سارا بچپن عبادت خدا اور خدمت والدین میں گذرا ہے، ساتھ ہی ساتھ لکھا ہے کہ آپ نے بچپن میں فقر و فاقہ اور انتہائی تنگی و مصائب کا سامنا کیا ہے، حضرت علی (ع) نے 500 درہم میں اپنی زرہ فروخت کی اور اسی رقم کو مہر قرار دے کر یکم ذی الحجہ 2ھ کو حضرت فاطمہ زہرا (س) کے ساتھ عقد کیا، حضرت علی (ع) کے یہاں جانے کے بعد نظام زندگی کا بہترین نمونہ پیش کیا آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھیں، نہ کبھی کوئی فرمائش، نہ خادمہ کا مطالبہ اور نہ ماتھے پر بل آنا، فاطمہ زہرا (س) نے علی (ع) کی ایسی خدمت کی کہ مشکل سے اس کی مثال مل سکے گی، آپ نے ہرحال میں اطاعت شوہر کا لحاظ رکھا اور مثال قائم کی، حضرت فاطمہ زہرا حقوق خاوند سے جس درجہ واقف تھیں دنیا میں کوئی بھی واقف نہ تھا۔

پیغمبر اسلام (ص) کی نگاہ میں فاطمہ کی زہرا قدر و منزلت، عزت و وقار کی کوئی حد نہ تھی، ملائکہ بھی آسمانوں سے اتر کر زمین پر فاطمہ زہرا کی خدمت میں مصروف ہوتے تھے، کبھی جنت کا طبق لائے، کبھی حسنین (ع) کا جھولا جھلا کر آپ کی معاونت کی، پیغمبر اسلام کا فرمان ہے کہ فاطمہ بہشتی خواتین کی سردار ہیں، تمام جہاں کی عورتوں کی سردار ہیں، آپ کی رضا سے اللہ راضی ہوتا ہے اور جس نے فاطمہ زہرا کو ایذا و تکلیف دی اس نے رسول اللہ کو ایذا دی، رسول اکرم (ص) کا ارشاد ہے کہ اللہ نے فاطمہ کی بدولت آپ کے ماننے والوں کو جہنم سے نجات دی ہے، آپ (ص) فرماتے ہیں کہ مردوں میں بہت لوگ کامل گذرے ہیں لیکن خواتین میں صرف 4 عورتیں کامل گذری ہیں، مریم، آسیہ، خدیجہ اور فاطمہ زہرا، اور ان میں سب سے بڑا درجہ کمال فاطمہ کو حاصل ہے، حضرت رسول خدا فاطمہ زہرا سے انتہائی محبت رکھتے تھے، اور کمال عزت بھی، جب فاطمہ زہرا (س) اپنے باپ کے گھر جاتے تھے تو آپ (ص) تعظیم کے لئے کھڑے ہوتے تھے بوسہ دیتے تھے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے، غزوات سے واپسی پر سب سے پہلے فاطمہ زہرا (س) کو دیکھنے آتے تھے اور انکی خبرگیری کرتے تھے، پیغمبر خدا (ص) کا فرمان ہے کہ فاطمہ میرا جز ہے جو اسے اذیت پہنچائے اس نے مجھے اذیت پہنچائی۔

مثالی کردار کی جھلکیاں
آپ کی والدہ گرامی ملیکۃ العرب تھیں لیکن آپ نے کبھی بھی راحت و آرام، زیب و زینت کی زندگی پسند نہیں کی بلکہ ہمیشہ اپنے کردار کو ایک نمونہ عمل بنا کر رکھا۔
آپ کے والد محترم مختار کائنات تھے، آپ انکی اکلوتی بیٹی تھیں لیکن آپ نے کبھی اس رشتہ سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ زندگی بھر ہر طرح کی مصیبت و زحمت برداشت کرتی رہیں۔
آپ کے شوہر امیرالمومنین تھے لیکن آپ نے اپنی تمام زندگی میں کوئی فرمائش نہیں کی۔
آپ کے فرزند سرداران جوانان جنت تھے لیکن اس کے بعد بھی آپ نے فاقوں پر زندگی گذاری۔
آپ کائنات کی تنہا خاتون ہیں جن کے رشتہ ازدواج میں زوجہ و شوہر دونوں معصوم تھے اور جس کا رشتہ عرش اعظم پر انجام پایا۔
آپ کائنات کی وہ بےمثال خاتوں ہیں جنہیں دو اماموں کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا اور جن کی نسل میں امامت قائم رہ گئی۔
آپ وہ ممدوحہ ہیں جن کی مدح سورہ کوثر، آیت تطہیر، آیہ مباہلہ اور سورہ دہر جیسی قرآنی آیات میں کی گئی۔
آپ وہ اکیلی دختر ہیں جن سے رسول اکرم (ص) نے ہر سفر کے موقع پر سب سے آخر میں الوداع کہا ہے اور واپسی پر سب سے پہلے آپ سے ملاقات کرتے تھے۔
آپ وہ معصومہ ہیں جن کی ذاتی عصمت کے علاوہ ان کے رشتے بھی معصوم تھے، باپ معصوم، شوہر معصوم اور دو فرزند معصوم سب کے تعارف کا ذریعہ بھی آپ ہی کی ذات کو بنایا گیا ہے۔
آپ وہ عبادت گذار ہیں جس کی نماز کے وقت زمین سے آسمان تک ایک نور کا سلسلہ قائم ہو جاتا تھا۔
بقول استاد علامہ ذیشان حیدر جوادی خصائص فاطمہ زہرا (ص) کو بیان کرنے میں دشواری یہ ہے کہ صدیقہ طاہرہ کا تقابل عام بنی نوع انسان سے نہیں کیا جا سکتا ہے اور ان کے سامنے دیگر افراد کا تذکرہ کرنا بھی ایک طرح کی توہین کا درجہ رکھتا ہے، اس لئے کی افضلیت کا سوال وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں دونوں طرح فضیلت ہو اور صرف کم و بیش کا فرق ہو، لیکن جہاں ایک طرح فضیلت ہی فضیلت ہو اور دوسری طرح فقدان ہی فقدان ہے وہاں تقابل کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

اقوام زریں معصومہ کونین (س)

1۔ اطاعت والدین عذاب الٰہی سے محفوظ رکھتی ہے۔
2۔ وہ عورت جو اپنے شوہر کو اذیت دے خداوند عالم اسکے نیک کاموں کو بھی قبول نہ کرے گا۔
3۔ زوجہ جب تک اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے گویا اس نے خدا کے حق کو ادا نہیں کیا۔
4۔ امربالمعروف عوام کی بھلائی کے لئے ہے۔
5۔ صلہ رحم عمر میں اضافہ کا باعث ہے۔
6۔ ایمان اور حیا کا چولی دامن کا ساتھ ہے اگر ان میں سے کوئی ایک چلا جائے تو دوسرا باقی نہ رہ سکے گا۔
7۔ وہ مرد جو ہَوا و ہوس کے بندے ہوں وہ سماج کے لئے باعث ذلت ہیں۔
8۔ ہم اہل بیت (ع) کی اطاعت کو ملت میں نظم و ضبط کے لئے اور ہماری امامت کو اختلاف و تفرقہ سے محفوظ رکھنے کے لئے قرار دیا۔
9۔ نماز کو تکبر اور خود پرستی سے دوری کے لئے قرار دیا گیا۔
10۔ جو عورت اپنے شوہر کو سخت اور مشکل کاموں کے لئے مجبور نہ کرے وہ جنتی ہے۔
11۔ کتنے بدبخت ہیں وہ لوگ جن میں عزم و پختگی نہ ہو اور وہ اہم کاموں کو مزاح میں ٹال جائیں۔
12۔ جو عورت نماز کی پابند ہو اور بغیر شوہر کی اجازت گھر سے باہر قدم نہ رکھے اور اس کی فرمانبردار ہو، خداوندعالم اس کے گناہوں کو معاف کردیگا۔
13۔ روزہ کو عزم و ارادہ نفسانی اور خلوص نیت کے لئے قرار دیا ہے۔
14۔ تہمت لگانے والا لعنت کا سزاوار ہے۔
خبر کا کوڈ : 374633
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش