0
Sunday 26 Oct 2014 23:53
کسی بھی دہشتگرد گروہ کیلئے نرم گوشہ نہیں‌ رکھتے

فرقہ واریت نہیں بلکہ شیعہ ہزارہ قوم پر یکطرفہ دہشتگردی ہو رہی ہے، میر سرفراز بگٹی

انتہا پسندوں کو مشترکہ طور پر شکست دینی ہوگی
فرقہ واریت نہیں بلکہ شیعہ ہزارہ قوم پر یکطرفہ دہشتگردی ہو رہی ہے، میر سرفراز بگٹی
میر سرفراز بگٹی یکم جنوری 1964ء کو بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی ضلع کوہلو کے گاوں روجھان بگٹی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم روجھان میں ہی حاصل کی۔ بعد ازاں سینٹ لارنس کالج گھوڑا گلی مری، ایچیسن کالج لاہور اور 1985ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے تاریخ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ میر سرفراز بگٹی ڈیرہ بگٹی سے اپنے حلقے سے کئی بار صوبائی اسمبلی بلوچستان کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ مئی 2013ء کے انتخابات میں بھی اپنے حلقے سے کامیاب اُمیدوار قرار پائے اور بلوچستان کابینہ میں صوبائی وزیر داخلہ قبائلی امور و پی ڈی ایم کے سربراہ منتخب ہوئے۔ کوئٹہ میں رونماء ہونے والے دہشتگردی کے حالیہ واقعات پر ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان کیساتھ ایک مختصر نشست کی، جس کا احوال قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: دہشتگردی کی روک تھام کیلئے ہمارے ملکی ادارے کیا اقدامات اُٹھا رہے ہیں۔؟
میر سرفراز بگٹی: سب سے پہلے تو میں حالیہ دہشتگردی کے واقعات کی پرزور مذمت کرتا ہوں۔ انٹیلی جنس ادارے جو ہمیں معلومات فراہم کرتے ہیں تو ہم ٹارگٹڈ آپریشن ضرور کرتے ہیں۔ اس وقت بھی کالعدم تنظیموں کے کارکنان کوئٹہ کی جیلوں میں قید ہیں۔ تو ہماری حکومت کے پاس جتنے بھی وسائل ہیں، ہم اسے بروئے کار لاتے ہوئے ہرممکن اقدامات اُٹھا رہے ہیں۔ اب اگر آپ جوڈیشنل نظام کی بات کرتے ہیں تو یقیناً اس میں بہتری کی انتہائی ضرورت ہے۔ دہشتگردی کے واقعات میں ملوث عناصر کیخلاف موثر کاروائی کیلئے ہمیں‌ وفاقی و صوبائی اسمبلیوں سمیت سپریم کورٹ میں ترامیم کرنی ہونگی جبکہ ان واقعات میں بیرونی ممالک کے ملوث ہونے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اسلام ٹائمز: اگر بیرونی ممالک ملوث ہیں تو انکے شواہد دنیا کے سامنے پیش کرکے انکے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی جاتی۔؟
میر سرفراز بگٹی: پہلی بات تو یہ کہ اگر ان عناصر کے پیچھے را، سی آئی اے اور موساد وغیرہ ملوث ہیں تو ان کیخلاف تو ہم اپنی عدالتوں میں کاروائی نہیں کرسکتے اور یہ لوگ جو بارڈروں سے باہر اپنے مراکز بنا کر بیٹھے ہیں، ان تک رسائی بہت مشکل ہے۔ آپ یہ دیکھئے کہ افغانستان کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے۔ اسی طرح کی اور بہت سی چیزیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔ ایک تو ہمیں ملکی صورتحال کو بہتر بنانا ہے، اسکے علاوہ ہمیں خطے کی سطح پر بھی معاملات کو دیکھنا ہوگا۔ افغانستان ایک گڑھ بنا ہوا ہے جہاں پچاس سے زائد ممالک موجود ہیں۔ اب وہ بھی ہمارے ملک میں مختلف کاروائیاں کرتے ہیں۔ اب اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک حملہ ہماری کامرہ اور مہران بیس کے اوپر ہوتا ہے اور دہشتگرد جاکر قومی تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں تو اسکا فائدہ براہ راست کسے ہوگا۔؟ اب ضرب عضب میں بھی ایسی کاروائیاں ہوئی ہیں جسکے نتیجے میں بین الاقوامی کرنسی اور اسلحہ برآمد ہوا۔ لہذٰا اس میں غیر ملکی مداخلت ضرور ہے۔ لیکن ہمیں بھی چاہیئے کہ جتنا بڑا چیلنج ہے، اتنی بڑی ہماری تیاری بھی ہونی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ حکومت پر تو یہ الزام تھا کہ وہ دہشتگردوں کو شیلٹر دے رہی ہے۔ کیا موجودہ حکومت بدامنی کا خاتمہ کر پائی۔؟
میر سرفراز بگٹی: میں یہی تو کہہ رہا ہوں کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ہم نے وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا ہوا ہے۔ جس سے انکی کمر ٹوٹ گئی ہیں اور آپریشن کے بعد اب تک دہشتگردی کے واقعات میں خاصی کمی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ لیکن کبھی کبھار وہ دوبارہ ردعمل دکھا دیتے ہیں۔ لیکن انشاءاللہ ہمیں اُمید ہے کہ آہستہ آہستہ ملک بھر سے انکا صفایا ہو جائے گا۔ ہم ناکام نہیں ہوئے پوری پاکستانی قوم کے حوصلے بلند ہیں اور وہ انہیں بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کوئٹہ شہر میں ایک مخصوص گروہ (اہلسنت والجماعت) کا بازاروں میں سینکڑوں کی تعداد میں کلاشنکوف لیکر خوف و ہراس پھیلانا درست بات ہے۔؟ کیا ریاست قانون کی دھجیاں اُڑانے والوں کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔؟
میر سرفراز بگٹی: ملک کے اندر کہیں بھی قانون کی حکمرانی حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس بات کا اعتراف میں خود کرتا ہوں لیکن یہ کہنا کہ ہم انکے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں یہ بالکل غلط بات ہے۔ میں آپکو یقین دلاتا ہوں‌ کہ یہ جو دہشتگرد ہیں، یہ انسانیت کے قاتل اور پاکستان کے دشمن ہیں۔ کسی بھی دہشتگرد کیلئے نرم گوشے کی کوئی گنجائش نہیں۔ انکے خلاف ہم فیصلہ کن جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اس میں ہمیں پوری قوم کا ساتھ چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر مالک صاحب کہتے ہیں کہ ہزار گنجی جانے سے قبل سبزی فروشوں نے انہیں مطلع نہیں کیا لیکن چھ لاکھ کی آبادی کے ہر فرد کو آپ کسطرح الگ الگ سکیورٹی فراہم کرسکتے ہیں۔؟
میر سرفراز بگٹی: بالکل آپ کی بات درست ہے لیکن ایک جانب ملک میں دہشتگردوں کیخلاف آپریشن جاری ہیں، لہذٰا جس طرح مجھ سمیت دیگر وی آئی پیز اور خاص کر شیعہ ہزارہ قوم پر حملے کے خطرات موجود ہیں، اسی لئے انہیں بھی احتیاط کرنی ہوگی۔ سب سے پہلے تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تمام عوام کے جان و مال کا تحفظ کرے لیکن ایسی موجودہ ملکی صورتحال میں تمام شیعہ ہزارہ قوم کو ہمارا ساتھ دینا ہوگا، تاکہ دہشتگردی کیخلاف اس جنگ کو جیتا جا سکے۔ اور اس بات کی یقین دہانی کرانی ہوگی کہ آئندہ کسی بھی موومنٹ سے پہلے حکام کو اطلاع دے دی جائے۔

اسلام ٹائمز: پے در پے واقعات ہوتے جا رہے ہیں، موجودہ حالات کے تناظر میں آپکی حکومت آئندہ کونسے اقدامات اُٹھانے جارہی ہیں۔؟
میر سرفراز بگٹی: میں سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ہمیں تین قسم کے چیلنجز کا سامنا تھا۔ ان میں سے ایک شیعہ ہزارہ قوم پر ہونے والی دہشتگردی کے واقعات ہیں، جسے فرقہ وارانہ شدت پسندی کا نام بھی دیا جاتا ہے لیکن میں اسے یکطرفہ دہشتگردی کا نام دونگا کیونکہ یہاں صرف ایک مخصوص طبقے کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لہذٰا گذشتہ دنوں‌ وزیراعلٰی کی زیرصدارت سکیورٹی کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر طویل اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں تمام پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا۔ حکومت اس بارے میں یقینی طور پر کوشش کر رہی ہے کہ کسی بھی قیمت پر ایسے واقعات رونماء نہ ہوں اور محرم الحرام میں آپ کو صورتحال میں مزید بہتری نظر آئے گی۔
خبر کا کوڈ : 416537
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش