0
Tuesday 26 Aug 2014 15:42

65 سالوں سے ملکی انتخابات میں عوام کے حقوق چھین کر جعلی لیڈروں کو آگے لایا گیا، طلال اکبر خان بگٹی

65 سالوں سے ملکی انتخابات میں عوام کے حقوق چھین کر جعلی لیڈروں کو آگے لایا گیا، طلال اکبر خان بگٹی
طلال اکبر خان بگٹی جمہوری وطن پارٹی کے چئیرمین اور بگٹی قبائل کے نواب ہیں۔ آپ 17 مارچ 1952ء کو ڈیرہ بگٹی میں پیدا ہوئے۔ آپ نواب اکبر بگٹی کے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔ آپ نے 1957ء میں ابتدائی تعلیم بگٹی سے حاصل کرنے کے بعد کوئٹہ گرائمر اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور بعدازاں 1959ء میں لاہور سے انٹرمیڈیٹ کرکے بی اے کی ڈگری بھی پنجاب سے حاصل کی۔ طلال اکبر خان بگٹی سے بگٹی مہاجرین کی واپسی اور نواب اکبر بگٹی کے قتل سمیت صوبے کی موجودہ صورتحال کے بارے میں ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: سوئی میں گیس کے ذخائر کے حوالے سے نواب اکبر خان بگٹی اور حکومت کے درمیان کیا اختلافات تھے۔؟
طلال اکبر بگٹی: سوئی سے گیس کی دریافت کے بعد حکومت کی دلچسپی اس علاقے میں زیادہ بڑھنے لگی۔ مری سمیت دیگر قبائل تو سوئی گیس کے نکالنے کے مخالف تھے۔ انکا کہنا تھا کہ بلوچوں کے قومی ذخائر کو پنجاب اپنے لئے استعمال کرے گا، لیکن اس سے بلوچوں کو کوئی فائدہ نہیں‌ ہوگا تاہم نواب اکبر خان بگٹی صاحب نے نحجی کمپنی برما اور سوئی سدرن گیس کو اجازت دی کہ وہاں سے گیس نکالے۔ معاہدے کے تحت انہوں نے وعدہ کیا کہ سوئی میں اسکول، کالجز، ہسپتال سمیت دیگر اہم پراجیکٹس پر ہمارے ساتھ تعاون کرینگے لیکن انہیں بعد میں پتہ چلا کہ سوئی سدرن گیس کے پلانٹ میں کراچی کے رہنے والے کام کررہے ہیں۔ انکے بچوں اور گھر والوں کو مراعات اور نوکریاں دی جارہی ہیں جبکہ بگٹی کے مقامی افراد کو بالکل نظر انداز کیا گیا۔ تقریباً دو سو بلوچ افراد کی نوکریاں‌ وہاں سے وابستہ تھیں، جسے مستقل کرنے کیلئے نواب صاحب نے کمپنی سے رابطہ کیا، لیکن انہیں بھی مستقل نہیں کیا گیا۔ 1952ء میں گیس سوئی کے علاقے سے نکل کر پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں پہنچ چکی تھی جبکہ بلوچستان کے لوگوں کو اس چیز سے محروم رکھا گیا تھا۔ لہذٰا انہی باتوں کی وجہ سے آہستہ آہستہ دوریاں بڑھتی گئی۔

اسلام ٹائمز: نواب صاحب نے تو خود ذاتی طور پر پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالا تھا، لیکن بعد میں پاکستان سے منحرف کیوں ہوگئے۔؟
طلال اکبر بگٹی: بالکل نواب صاحب بلوچستان میں ان پانچ افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالا۔ اسکے علاوہ جب قائداعظم صوبے کا دورہ کرتے تھے تو سب سے پہلے میرے والد ہی انکا استقبال کرنے جاتے تھے۔ اکبر بگٹی صاحب وفاقی وزیر، صوبائی گورنر اور وزیراعلٰی بھی رہے۔ یعنی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس حد تک وہ پاکستان سے محبت رکھتے تھے لیکن یہ چند آمرانہ و سیاسی قوتوں کی ہی پالیسیاں تھیں، جن کی بناء پر انہوں نے علحیدگی کے آپشن کو چنا۔

اسلام ٹائمز: جنرل مشرف اور نواب اکبر خان بگٹی کے درمیان آخری اوقات میں کونسے واقعات رونماء ہوئے۔؟
طلال اکبر بگٹی: جنرل مشرف کی پالیسیاں تو شروع دن سے ہی ہمارے مخالف رہی ہیں تاہم آخری دنوں میں مسلم لیگ (ق) کے رہنماء چوہدری شجاعت صاحب اور سینیٹر مشاہد حسین میرے والد سے ملاقات کرنے آئے تھے۔ اکبر خان بگٹی صاحب نے انکے ساتھ ملاقات بھی کی، معاملات بہتری کی جانب بڑھ رہے تھے۔ اگلے دن مشرف نے میرے والد سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور انہیں اسلام آباد بلایا۔ جب میرے والد کوہلو ائیرپورٹ پر پہنچے تو انکے لئے پرائیویٹ جہاز بھیجا گیا تھا، لیکن وہاں پر یہ ڈرامہ کیا گیا کہ جہاز فی الحال خراب ہے، اور انجئیرز کو اسلام آباد سے بلانا پڑے گا۔ میرے والد وہاں سے دوبارہ گھر کی جانب روانہ ہوئے تو اسی اثناء جہاز ائیرپورٹ سے اُڑا اور اسی طرح خالی واپس چلا گیا۔ میرے والد کو اندازہ ہوگیا کہ وفاق کسی بھی قسم کی مفاہمت کا ارادہ نہیں رکھتا۔ لہذٰا اسکے بعد انہیں شہید کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ تاثر صحیح ہے کہ بلوچوں‌ کے نواب اپنے علاقے کے لوگوں کو تعلیم سے دور رکھتے ہیں، تاکہ ان پر اپنی حکمرانی قائم رکھ سکیں۔؟
طلال اکبر خان بگٹی: ان باتوں کا حقیقت کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلوچ قبائل میں کئی سردار ایسے ہیں جن کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل ہے۔ اگر ہم اپنے لوگوں پر ظلم کرتے ہیں تو کم از کم انہیں اپنی عوام کو تعلیم یافتہ بنانے کیلئے کوشش کرنی چاہیئے تھی لیکن اسکے برعکس ہمارے باپ دادائوں نے اپنے علاقے میں محدود وسائل ہونے کے باوجود اپنے قبیلے میں تعلیم و صحت پر توجہ دی۔ ریاست خود ہماری عوام کو پسماندہ رکھنا چاہتی ہے تاکہ انہیں اپنے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرسکے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان سے باہر رہنے والے چند بلوچ قوم پرست رہنماء صرف بلوچستان کی آزادی کی بات کرتے ہیں، انہیں قومی دھارے میں‌ کس طرح واپس لایا جا سکتا ہے۔؟
طلال اکبر خان بگٹی: نہ صرف ان خودساختہ بلوچ رہنماؤں کو، بلکہ دیگر ناراض بلوچوں کو بھی منایا جا سکتا ہے لیکن اسکے لئے صوبے بھر میں جاری آپریشن کو ختم کرنے، وسائل پر بلوچوں کے حق حکمرانی کو قبول کرنے سمیت ہمیں صوبائی خودمختاری بھی دینی ہوگی۔ تب انہیں منانے میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا بلکہ اگر ہمارے حقوق صحیح انداز میں دیئے جائیں تو ان ناراض رہنماؤں کو واپس لانے کیلئے میں ذاتی طور پر خود بھی کردار ادا کرونگا۔

اسلام ٹائمز: کیا ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی طرح ایک مڈل کلاس وزیراعلٰی کا انتخاب وفاق کی نیک نیتی کا واضح ثبوت نہیں۔؟
طلال اکبر بگٹی: وزیراعلٰی بلوچستان بےاختیار ہیں، انہیں استعفٰی دیکر عوام میں چلے جانا جاہیئے۔ بلوچستان سمیت پورے ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اب بھی صوبے میں مختلف انداز میں آپریشن جاری ہے۔ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے کوئی شخص محفوظ نہیں ہے۔ ٹارگٹ کلنگ میں جمہوری وطن پارٹی کے کئی کارکنان اور رہنماؤں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ موجودہ حکومت سے ہمیں کافی توقعات تھیں مگر صوبائی حکومت کے پاس کوئی اختیارت نہیں۔ اگر وزیراعلٰی بلوچستان کے پاس اختیارات نہیں، تو انہیں اقتدار کی کرسی پر بیٹھنا نہیں چاہیئے بلکہ استعفٰی دیکر عوام کے پاس چلے جانا چاہیئے۔ گذشتہ انتخابات میں جعلی لوگوں کو منتخب کیا گیا۔ 65 سالوں سے ملک میں شفاف انتخابات نہیں ہوئے۔ ہمیشہ عوام کے حق کو چھینا گیا ہے اور جعلی لیڈروں کو آگے لاکر اقتدار انکے حوالے کیا گیا ہے۔ اگر ملک کو بچانا ہے تو حکمرانوں کو اپنے انداز کو بدلنا ہوگا اور اپنی سیاست کو تبدیل کرنا ہوگا۔ چاروں یونٹس کو متحد کرکے ان کے حقوق ان کے حوالے کئے جائیں، تب ہی فیڈریشن مضبوط ہوگی۔

اسلام ٹائمز: آپکی جماعت نے گذشتہ انتخابات کا بائیکاٹ کیوں کیا تھا۔؟
طلال اکبر بگٹی: بگٹی میں جاری سالوں سے آپریشن کی وجہ سے وہاں کے مقامی افراد لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کرچکے ہیں۔ جب ہمارے علاقے میں ہماری اپنی ہی آبادی موجود نہ ہوگی تو انتخابات میں کیسے حصہ لے سکتے ہیں۔ ہم نے گذشتہ حکومت سے مطالبہ بھی کیا تھا کہ تمام بگٹی مہاجرین کی واپسی کیلئے جلد از جلد اقدامات کئے جائیں، لیکن اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اسی وجہ سے ہم نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔

اسلام ٹائمز: عمران خان اور طاہرالقادری کے احتجاجی دھرںوں کو کس طرح دیکھتے ہیں۔؟
طلال اکبر بگٹی: ویسے تو دونوں‌ جماعتیں ہی بلوچستان کے بارے میں خاطر خواہ مطالبات نہیں کر رہی۔ انہیں صرف پنجاب کی پڑی ہوئی ہے لیکن اس ملک میں ہمیشہ دھاندلی ہوئی ہے اور ایسے سسٹم کو تبدیل کرنے کیلئے کسی نہ کسی کو اُٹھنا ہوگا۔ اب دونوں جماعتوں کو بھی اپنے مطالبات کیساتھ ساتھ جمہوریت کی بھی فکر کرنی چاہیئے کیونکہ اگر حالات خراب ہوئے تو ایک بار پھر ملک میں آمرانہ دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ لہذٰا انہیں نہ صرف وفاقی سطح پر، بلکہ دیگر صوبوں خصوصاً بلوچستان میں بھی عوام کے جائز حقوق کیلئے آواز بلند کرنی چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 406736
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش