0
Friday 14 Mar 2014 15:35

بھارت کی عام آدمی پارٹی اور عام و خاص مسلمان

بھارت کی عام آدمی پارٹی اور عام و خاص مسلمان
تحریر: جاوید عباس رضوی

آج ہندوستان کا سماجی و سیاسی ماحول انتہائی کش مکش اور تذبذب کے عالم میں ہے، بالخصوص مسلمانوں کی حالت تو بھیڑوں کے اُس ریوڑ کی طرح ہے کہ جس کا نہ کوئی رکھوالا ہے نہ چرواہا اور نہ ہی کسی منزل کا پتا، بس جو جیسے چاہ رہا ہے انہیں راستے لگا رہا ہے، اور یہ بے چاری بھولی بھیڑیں نہ جانے کس دھن میں ان کے منصوبوں اور عزائم کی تکمیل کی بھینٹ چڑھے جا رہی ہیں، بھارت بھر میں زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کو لاتعداد مسائل کا سامنا ہے، سیاست کے ساتھ ساتھ ترقی و پیشرفت اور تعلیمی میدان میں شاید ہی کوئی قابلِ ذکر گراف مسلمانوں کا موجود ہے۔ نتیجتاً پوری قوم گوناگوں مسائل میں گِھری ہوئی ہے، آج کی تاریخ میں سیاسی طور پر بھارتی مسلمان سب سے زیادہ مظلوم اور انگنت مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، الیکشن کے موسم میں تو برساتی مینڈکوں کی طرح مسلمانوں کے ہمدرد پیدا ہو جاتے ہیں، اسی موسم میں مسلمانوں کے تمام پنہاں و آشکار مسائل نظر آتے ہیں اور ان کے حل کے لئے زبردست غیر مسلم و غیر وابستہ تحریکیں چلائی جاتی ہیں، اس انتخابی موسم میں بنامِ مسلم بہت سارے چہرے، پارٹیاں اور تنظیمیں مسلمانوں کے گِرد پنپ رہی ہیں۔

یہاں پر ”عام آدمی پارٹی“ کی بات کرنا مقصود ہے کہ جس کو بھارتی مسلمان یا تو دیوتا یا پھر آسمان سے آئے ہوئے فرشتوں کی جماعت تصور کرتے نظر آ رہے ہیں ، بھلے ہی بھارت کی اس نومولود ”عام آدمی پارٹی“ نے دہلی انتخاب میں امید سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہو، مگر جن لوگوں نے اس پارٹی کو عام سے خاص بناکر دہلی میں دوسری بڑی اکثریت دلائی، ان میں سے بہت سے شاید اب پارٹی کے ڈھلمل رویہ کی بنیاد پر متنفر ہونے لگے ہیں اور ہر آئے دن پارٹی رہنما اروند کیجریوال کی رہائش گاہ کے سامنے گلے پھاڑ پھاڑ کر احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں، ڈھلمل رویہ میں ہنوز تیزی آتی جارہی ہے، ٹکٹ کی تقسیم اور عام آدمی پارٹی لیڈروں کے عام انتخابات لڑنے اور نہ لڑنے کے نظریہ نے صاف ظاہر کردیا ہے کہ کسی بھی معاملہ پر ان کا نظریہ صاف نہیں ہے، عام آدمی پارٹی کے ذریعہ بنی دہلی میں حکومت سے قطع نظر ٹکٹ کی تقسیم کے لئے یہ پارٹی جو روش اختیار کررہی ہے ، وہ بھی اپنے آپ میں مضحکہ خیز ہے اور قول و عمل میں تضاد کی واضح دلیل بھی، بسا اوقات ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس پارٹی کا جھکاؤ فرقہ پرستوں کی طرف ہے، شاید انہیں ہی مضبوط کرنے کے لئے سیاسی گلیاروں میں آکر دھما چوکڑی اور ہڑبونگ مچارہی ہے۔

لوک سبھا کے لئے جاری لسٹوں کو بھی سامنے رکھ کر اس پارٹی کے نظریات کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی اندازہ ہوگا کہ عام آدمی کو ترجیح دینے والی پارٹی خاص لوگوں میں ہی محدود ہوکر اپنا سیاسی سفر جاری رکھنا چاہتی ہے، منظر عام پر آئی فہرست سے جہاں یہ ثابت ہوگیا کہ ہندو شدت پسند جماعت ’’بی جے پی‘‘ جس طرح مسلمانوں کو ٹکٹ دینے میں آنا کانی کرتی ہے اور ہمیشہ کرتی آئی ہے، بالکل اسی راہ پر عام آدمی پارٹی کے لیڈران بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ جیسا کہ عام آدمی پارٹی کا نعرہ ہے کہ ہم بھید بھاو کی سیاست نہیں کرتے ہیں، فرقہ اور جماعت کی تقسیم میں ہمارا یقین نہیں ہے، اگر اسی نظریہ کو سامنے رکھیں تو 70 لوگوں کی فہرست میں ایسے چہروں کو شامل کیا جاتا، جن سے لگتا کہ عام آدمی پارٹی چہروں اور مذاہب کو سامنے رکھ کر ٹکٹ تقسیم نہیں کررہی ہے، مگر جاری ہونے والی لسٹ سے صاف اور بالکل صاف ظاہر ہے کہ اندرون میں بنائے گئے لائحہ عمل کی بنیاد پر ہی ٹکٹ تقسیم ہوئی ہے، اگر ٹکٹ کے اس کھیل کو مسلم نظریہ سے دیکھیں تو بھی مایوسی ہوگی، کیوں کہ کسی نہ کسی سطح پر عام آدمی پارٹی میں دم مار رہے چند مسلم چہرہ مسلمانوں کو عام آدمی پارٹی کی طرف مائل کرنے میں جڑے ہیں، وہ بھی مسلمانوں کو ٹکٹ دلوانے میں سو فیصد ناکام نظر آئے، حتی کہ خود ان کا ٹکٹ بھی خطرہ میں نظر آرہا ہے، ٹکٹ کی تقسیم سے صاف ظاہر ہوگیا ہے کہ عام آدمی پارٹی اب تک نہ سیکولر ہے اور نہ ہی مسلم نواز، کیوں کہ اگر سیکولر ہوتی تو بھی مسلم امیدوار کی تعداد زیادہ ہوتی اور اگر مسلم نواز ہوتی تو ایسے چہرہ شامل ضرور ہوتے ہی جو واقعی مسلمانوں کو مین اسٹریم سے جوڑنے میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں، اس سیاسی کھیل سے یہ کہنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے، آخر عام آدمی پارٹی کیا ہے، کیا وہ ڈھلمل رویہ کی بنیاد پر ٹکٹ کی تقسیم میں غیر جانبداری نہیں اپنا رہی ہے یا پھر جن کے اشاروں پر ناچ رہی ہے، انہیں خوش کرنے کے لئے یہ ڈرامہ جاری ہے۔

تعجب تو اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ ایک طرف جہاں مسلم دانشوروں کا طبقہ عام آدمی پارٹی کی طرف مائل ہورہا ہے، وہیں دوسری طرف عام آدمی پارٹی کے لیڈران ان کے سہارے مسلمانوں کو سبز باغ دکھاتے مصروف نظر آرہے ہیں، غرض کہ سیاسی طور بھارتی مسلمانوں کا بار بار استحصال اور اب ایک بار پھر استتحصال، نئی دہلی میں واقع ایوان غالب میں 22 فروری کو عام آدمی پارٹی میں نمبر دو کی حیثیت رکھنے والے منیش سسودیا نے مسلم دانشوروں سے مل کر جو یقین دہانی کرائی اور سب باغات کی سیر کرائی، وہ بھی جاری ہونے والی لسٹ کے مدنظر مذاق لگ رہی ہے، اب بھارتی مسلمانوں کو  ذہن نشین کرلینا چاہیئے کہ جو پارٹی ٹکٹ کی تقسیم میں جانبداری کا کھیل کھیلے وہ کیسے مسلم مسائل کے تئیں سنجیدہ ہو سکتی ہے۔ کھیل ختم نہیں ہوا دیگر پارٹیوں کے ساتھ ساتھ عام آدمی پارٹی بھی مسلمانوں کو لبھانے کی کوشش میں مصروف ہے، آپ کو بتا دیں کہ عام آدمی پارٹی نے 70 امیدواروں پر مشتمل جو دو لسٹ جاری کی ہے، ان میں فقط 4 مسلم ہیں، یعنی اس تقسیم میں مسلمانوں کی نمائندگی 6 فیصد ہے، بات یہ سامنے آئی کہ جو پارٹی مسلمانوں کو 15 فیصد ٹکٹ دے، اسے ہی مسلمان حمایت کریں گے ، 70 امیدواروں کی فہرست میں صرف 4 مسلمان شامل ہیں جو یہاں کے مسلمانوں کے لئے قابل غور ہے اور قابل عبرت بھی، دہلی میں گرچہ کوئی بھی مسلم ممبر اسمبلی منتخب نہیں ہو سکا، مگر کئی حلقوں میں بڑی کامیابی حاصل کرکے کئی مسلم چہروں نے اپنی شناخت پیدا کرلی، جس سے یہ امید ہو چلی تھی کہ انہیں پارلیمنٹ (لوک سبھا) کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی قسمت آزمائی کا موقع دے گی، مگر اب جب کہ ٹکٹ کی تقسیم جاری ہے تو انہیں بھی نظرانداز کردیا گیا۔ یہ ہیں وہ باتیں جو بھارت کے مسلمانوں سے متعلق ہیں کہ عام آدمی پارٹی کس نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو روکنے میں جٹی ہیں اور دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح اس پارٹی کے قول و عمل میں بھی تضاد واضح نظر آرہا ہے، مسلمانوں سے قطع نظر ٹکٹ کی تقسیم سے بھی یہ صاف نظر آرہا ہے کہ آخر اس پارٹی کا 2014ء کے انتخابات کے لئے نظریہ کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 361538
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش