0
Thursday 12 Apr 2012 12:59

افغانستان، امریکی حکمت عملی اور حقائق میں تفاوت

افغانستان، امریکی حکمت عملی اور حقائق میں تفاوت
تحریر: ڈاکٹر ملیحہ لودھی 
 
حالیہ رونما ہونے والے حالات کے تسلسل نے امریکا کی افغانستان میں حکمت عملی کی بابت شکوت و شبہات میں ایک بار پھر جان ڈال دی ہے، اگرچہ امریکی حکام بدستور مصر ہیں کہ ان کے منصوبے "صحیح پٹری" پر ہیں اور یہ کہ حکمت عملی میں کسی تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بیانات افغانستان کے زمینی حقائق اور نیٹو کے وہاں سے 2014ء میں انخلاء کی ڈیڈ لائن کے مابین، جب وہاں سے تمام غیر ملکی لڑاکا دستوں کو رخصت ہونا ہے، بڑھتی ہوئی دوری کے چہرے پر نقاب ڈالنے کے مترادف ہیں۔ تمام خطے میں اس حوالے سے تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے کہ افغانستان کی صورتحال ہر کسی کے کنٹرول سے باہر نکل جانے کے خطرے سے دوچار ہے۔ امریکی حکمت عملی کے دو بنیادی نکات پر جن کا مقصد افغانستان سے پرامن انخلا کو یقینی بنانا ہے، غیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں یعنی افغان فورسز کے ساتھ اس وقت شراکت کار جب انہوں نے سکیورٹی کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لینا ہے اور طالبان کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ وہ امن عمل میں شمولیت اختیار کر لیں۔ اس بات نے انخلا کے موجودہ منصوبے کی نتیجہ خیزی کے سامنے سوالیہ نشان لا کھڑا کیا ہے۔
 
افغانستان میں نام نہاد استحکام کے بخیوں کو ادھڑنے سے بچانے کے لیے واشنگٹن کو اپنی طرز فکر پر نظرثانی کرنے اور اپنی حکمت عملی پر دوبارہ غور کرتے ہوئے اپنے فوجی مشن کو جنگ کے اختتام کے لیے خود بیان کردہ سیاسی حل کی تلاش سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ "فائٹ ٹاک" (fight-talk) کی حکمت عملی کو "ٹاک ٹاک" (talk-talk) کی حکمت عملی سے تبدیل کر دیا جائے۔ گزشتہ مہینے ایک امریکی فوجی کے ہاتھوں قرآن پاک کی بے حرمتی اور ایک دوسرے سپاہی کے ہاتھوں 16 افغان شہریوں کے بہیمانہ قتل کے واقعات کے بعد ملک کے طول و عرض میں پھوٹ پڑنے والے خونیں مظاہرے افغانستان میں غیر ملکی غاصبیت کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی ناراضگی کا سنگین اشارہ ہیں اور افغان سپاہیوں کے اپنی بندوقوں کا رخ نیٹو فوجیوں کے خلاف پھیرنے کے بڑھتے ہوئے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس غم و غصے کی جڑیں افغان زمین میں کتنی گہرائی تک اتر چکی ہیں۔
 
یہ قطعاً مربوط واقعات مغربی اور افغان فورسز کے مابین شدت پکڑتی مخاصمت کے عکاس ہیں۔ فروری میں پینٹاگون کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2007ء سے اور زیادہ تر گزشتہ دو سالوں میں، 80 مغربی فوجی افغان سپاہیوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ ایک امریکی افسر نے میرے سامنے تسلیم کیا کہ "جتنی زیادہ دیر ہم یہاں قیام کریں گے، ایسے واقعات کی شرح اتنی ہی زیادہ بڑھتی جائے گی"۔ بڑھتا ہوا عوامی غیض و غضب پہلے ہی صدر کرزئی کو نیٹو فورسز سے فوری طور پر افغان دیہاتوں سے نکل جانے کا مطالبہ کرنے پر مجبور کر چکا ہے۔ ان واقعات کے فوراً بعد طالبان امریکی مصالحت کاروں سے بات چیت کرنے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ اگرچہ امریکی حکام طالبان کی جانب سے مذاکرات میں تعطل کو مذاکرات کے خاتمے سے نہیں بلکہ بات چیت کی ایک تدبیر سے تعبیر کر رہے ہیں، مگر ان نوخیر مذاکرات میں یہ دھچکا افغانستان میں قریب آتے "اینڈ گیم" کی نازک ترین صورتحال کے موقع پر لگا ہے۔ واشنگٹن کی مسلسل سر اٹھاتی مشکلات بلاشبہ صرف افغانستان تک ہی محدود نہیں ہیں۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات ابھی معمول پر لائے جانے ہیں۔ گزشتہ چار ماہ سے نیٹو کے سپلائی روٹ کی بندش اور پارلیمنٹ میں تعلقات کی نئی شرائط کے تعین میں تاخیر نے امریکا کی علاقائی حکمت عملی کو بہتے پانیوں میں لا ڈالا ہے۔
 
پاکستان کے ساتھ طویل ہوتے سفارتی تعطل اور افغانستان میں مخالفانہ حالات نے امریکا کی نیٹو سمٹ سے وابستہ توقعات کو پہلے ہی مدھم کر دیا ہے۔ 20-21 مئی کو شکاگو میں ہونے والے اس سمٹ کو امریکی حکام نے اہم ترین موقع قرار دیا تھا جس میں 2014ء کے انخلا کے حصول سے متعلق ایک جامع ترین منصوبے کی رو نمائی سمیت افغانستان میں رسمی امن عمل کے آغاز کا اعلان کیا جانا تھا۔ مگر اب سمٹ کے لیے نسبتاً دھیمے مقاصد کا تعین کیا جا رہا ہے اور لگتا ہے کہ امن مذاکرات اور قطر میں طالبان کے دفتر کو رسمی طور پر کھولے جانے سے متعلق اعلانات ایک بار پھر موخر کر دیئے جائیں گے۔ امریکا کی پاکستان کو شکاگو سمٹ میں شرکت کرنے کی غیر رسمی پیش کش کے پیچھے دیگر اسباب بھی ہیں، مگر اسے اسلام آباد کے لیے ایک "ترغیب" کے طور پر بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک بار پھر فوری طور پر "گراؤنڈ لائنز آف کمیونکیشن" (GLOCs) کھول دے۔
 
امریکا کے چوٹی کے فوجی افسر جنرل مارٹن نے حال ہی میں کہا ہے کہ مئی سے قبل GLOCs کی بحالی کی "بہت شدت کے ساتھ" کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ صرف بہار میں جنگی موسم میں فوجی رسد یقینی بنانے کے لیے ہی ضروری نہیں ہے، بلکہ انخلا کے دوران افغانستان سے بھاری فوجی ساز و سامان نکالنے کے لیے بھی لازمی ہے۔ آئندہ 18 ماہ کے دوران افغانستان سے نیٹو کے ہزاروں فوجی نکالے جائیں گے، جن میں اس ستمبر میں 22 ہزار "سرج" فورسز کا انخلا بھی شامل ہے اور اسی دوران وہاں سے فوجی ساز و سامان بھی ہٹایا جانا ہے۔
 
انتخابی سال کے تناظر میں صدر اوباما کے لیے یہ سمٹ جس نے افغانستان میں جنگ کے خاتمے کا "ذمے داری" کے ساتھ ایک قابل بھروسہ منصوبہ پیش کرنا ہے بطور خاص اہم ہے۔ انتخابی مہم کے آغاز سے قبل یہ ان کا آخری عظیم بین الاقوامی ایونٹ ہو گا۔ وہ ایک تیز رفتار انخلا کا اعلان بھی کر سکتے ہیں۔ ان کی ملٹری کمانڈ اگرچہ اس فیصلے کو ناپسند کرے گی مگر ان کی عوام اس کا خیرمقدم کریں گے۔ حالیہ دھچکے پہلے ہی امریکی رائے عامہ کو قطعی طور پر جنگ کے خلاف کر چکے ہیں۔ تازہ ترین نیویارک ٹائم/سی بی ایس پول کے نتائج کے مطابق 69 فی صد امریکی جنگ کی حمایت نہیں کرتے اور پول کے دیگر نتائج کو تقویت دیتے ہیں، جن کے مطابق اکثریت امریکی فوجی دستوں کا جلد از جلد افغانستان سے انخلا چاہتی ہے۔ 

جیسے جیسے شکاگو سمٹ قریب آ رہا ہے، امریکی کوششیں کابل کے ساتھ تزویراتی شراکت کار کا کوئی معاہدہ انجام دینے کیلئے شدت اختیار کر چکی ہیں۔ اس سے امریکا 2014ء کے بعد افغانستان میں طویل مدت تک اپنی فوجی موجودگی کو یقینی بنا سکے گا اور اسے افغان بیسز تک رسائی بھی حاصل ہو گی۔ نیوز رپورٹس کے مطابق مئی سے پہلے پہلے ایسے کسی معاہدے کے حصول کیلئے سر توڑ کوششیں جاری ہیں۔ طالبان کی کسی بھی غیر ملکی افواج کی موجودگی کی مخالفت کے تناظر میں، امریکی حکام ایسے معاہدے کو ایک ایسے ذریعے کے طور پر دیکھ رہے ہیں جس سے طالبان کو ایک بار پھر مذکرات کرنے پر آمادہ کیا جائے اور اس سفارتی سہارے کو ایک بار پھر حاصل کیا جا سکے، جسے وہ افغانستان میں صورتحال خراب ہونے کے ساتھ ساتھ کھو چکے ہیں۔
 
اس بات کا ابھی تعین کیا جانا ہے کہ آیا کہ یہ معاہدہ مذاکرات کی ذیل میں ایک سہارا ہو سکتا ہے نا کہ طالبان کے ساتھ ڈیل کرنے کا کوئی ذریعہ۔ ایسا معاہدہ یقینی طور پر خطے کی پہلی ہی سے کمزور ہوتی رائے عامہ کو ملیا میٹ کر دے گا۔ افغانستان کے تمام ہمسائے اور خطے کی اہم طاقتیں افغانستان میں غیر تعین کردہ، لامحدود فوجی موجودگی کے، اس کے حجم یا کیفیت سے قطع نظر بالکل خلاف ہیں۔ حتٰی کہ خود کابل نے واشنگٹن سے مزید قیام کرنے والی فورس کی کیفیت یا بنیادوں کی بابت سوال کئے ہیں۔ جہاں تک معطل شدہ امن مذاکرات کا تعلق ہے، طالبان نے مستقبل میں مذاکرات کا در وا رکھا ہوا ہے۔ تاہم مذاکرات کا دوبارہ آغاز اوباما انتظامیہ سے اس سے زیادہ سیاسی سرمائے کو خرچ کرنے کا مطالبہ کرے گا جتنا کہ وہ اس کے لیے تیار کر رہی ہے۔ اوباما انتظامیہ کی جانب سے کسی سفارتی اقدام کو شروع کیے جانے میں تاخیر کا بڑا سبب واشنگٹن کی یہ تشویش ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات کے کیا منفی سیاسی اثرات کیا ہوں گے، جن سے وہ دس سال سے نبرد آزما رہی ہے۔ مگر اس کا ایک دیگر سبب صدر اوباما کا اپنا طریقہ عمل بھی ہے، جس کی رو سے وہ مسلسل مشغول رہنے اور اپنی ہی پالیسی کے پیچھے اپنا وزن رکھنے میں ہچکچاہٹ دکھاتے ہیں۔ 

طالبان رسمی مذاکرات کے آغاز سے قبل پانچ قیدیوں کو گوانتاناموبے سے قطر منتقل کیے جانے پر مصر ہیں۔ کانگریس کی مخالفت سے نمٹنے میں اپنے سیاسی سرمائے کو استعمال کرنے سے گریزاں اوباما انتظامیہ تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے مصر ہے کہ طالبان "بحالی اعتماد کے متعدد اقدامات" پر راضی ہو جائیں جس میں "دیگر افغانیوں" کے ساتھ (یعنی کرزئی حکومت) امن عمل میں شمولیت بھی شامل ہے۔ طالبان کے رہنما تاحال اسے مسترد کر چکے ہیں جسے وہ نئی شرائط قرار دیتے ہیں اور اس ذیل میں انہوں نے قیدیوں کی منتقلی سے متعلق واشنگٹن کی "ناقابل وضاحت تاخیر" کو گزشتہ مہینے مذکرات میں پڑنے والے تعطل کا سبب قرار دیا ہے۔ 

طالبان کے ترجمان نے "بہیمانہ اقدامات" کی ایک لڑی کے باعث ماحول کے بگاڑ کو بھی بات چیت کے خاتمے کا ایک دیگر سبب قرار دیا۔ جب تک امریکا مزید توانائی اور سیاسی سرمائے کو سفارتی عمل پر مرتکز اور قابل عمل شرائط کا تعین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، اس وقت تک مذکرات کی گاڑی کو بہ سہولت دوبارہ پٹری پر چڑھانا مشکل ہو گا۔ واشنگٹن فی الوقت اسے سیاسی طور پر مہنگا سمجھتے ہوئے صدارتی انتخابات کے بعد تک انتظار کرنے کو ترجیح دے سکتا ہے۔ مگر تاخیری حربے اور اور مذکرات کو انتخابات کے تابع کرنے سے 2014ء میں انخلا کا منصوبہ خطرے میں پڑ جائے گا، کیونکہ اس کا اصولی طور پر دارومدار مذاکرات کے ذریعے حل نکالنے میں ہے۔ بغیر کسی سفارتی کامیابی کے جیسے جیسے 2014ء قریب آئے گا، اسی طرح طالبان کی مذاکرات میں دلچسپی کم ہوتی جائے گی۔
وہ سوال جس کا واشنگٹن نے تاحال قابل قبول جواب دینا ہے اور جس کے خطے پر دور رس اثرات ہیں، یہ ہے کہ آیا کہ امریکا "مناسب طریقے" سے اپنا چہرہ بچاتے ہوئے محض افغانستان سے نکل بھاگنا چاہتا ہے، یا اسے واقعتاً سنجیدگی کے ساتھ افغانستان کے سیاسی حل کی تلاش ہے اور وہ تزویراتی تبدیلیوں اور سمجھوتوں کے ساتھ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تیار ہے۔ اگر دوسری بات سچ ہے تو امریکا کے لیے نیٹو سمٹ کی نمائش منعقد کرنے سے زیادہ اہم وہ تبدیلیاں ہیں جو واشنگٹن کو اپنی حکمت عملی میں بروئے کار لانی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ باہمی طور پر تشدد میں کمی لانے اور خطے میں لڑائی کے خاتمے کے لیے جنگ بندی پر مذکرات کو یقینی بنانے کے لیے کوششوں کو مرتکز کرنا ہو گا۔
 
مزید لڑائی نہ صرف یہ کہ جنگ کے پرامن خاتمے کے مواقعوں میں تاخیر کرے گی بلکہ انہیں کم بھی کرتی جائے گی۔ جنگ میں ایک تزویراتی وقفہ بامقصد مذاکرات کے لیے حالات کو جنم دے گا اور امن عمل کی رفتار میں اضافہ کر دے گا۔ اس عمل کا آغاز "نائٹ ریڈز" کے خاتمے سے کیا جا سکتا ہے جس کے جواب میں طالبان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ لوگوں کو ہلاک کرنے کی مہم سے باز آجائیں گے۔ اوباما انتظامیہ کا ماننا ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ ان الفاظ کو حکمت عملی کا روپ دینے کا وقت آ چکا ہے۔ اس سے امریکی مقاصد علاقائی معاملات سے ہم آہنگ ہو جائیں گے، جبکہ پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات آسان اور شاید زیادہ دیرپا ہو سکیں گے۔
"روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 152657
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش