0
Thursday 9 Jan 2014 20:51

شہادت امام حسن عسکری (ع)

شہادت امام حسن عسکری (ع)
تحریر و تزئین: جاوید عباس رضوی

امامت کے گیارویں ستارے اور وارث پیغمبر اکرم (ص) امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر تمام مسلمین عالم کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش خدمت ہے۔


اسم گرامی حسن قرار پایا اور القاب زکی، سراج، صامت، عسکری اور ابن الرضا قرار پایا، کنیت ابو محمد تھی، اور مادر گرامی کا نام حدیثہ یا صلیل تھا، عمر مبارک 4 سال کی تھی جب 236ھ میں امام علی نقی (ع) کو مدینہ سے سامرہ طلب کیا گیا اور آپ (ع) پدر بزرگوار کے ہمراہ سامرہ تشریف لے گئے، مدینہ سے رخصت ہونے سے پہلے امام علی نقی (ع) نے بزرگانِ مدینہ کو جمع کیا اور اعلان کیا کہ میرا وارث میرا یہ فرزند حسن (ع) ہے اور اس پر متعدد افراد کو گواہ بھی رکھا۔ آپ کا عقد جناب نرجس سے ہوا جو قیصر روم کی پوتی اور جناب شمعون وصی حضرت عیسٰی کی نواسی تھیں اور انتہائی پاکباز اور مقدس خاتون تھیں، جنھیں اللہ نے اپنی آخری حجت امام عصر (ع) کی مادر گرامی بننے کا شرف عنایت فرمایا تھا۔

احمد بن عبیداللہ نے کہا ’’سامراہ کے شہر میں امام حسن عسکری (ع) سے بہتر اور افضل میں نے کسی کو نہیں پایا، ان کا وقار، ان کی عظمت اور کرامت قابل رشک ہے، ان کے اپنے خاندان سے لیکر حکام تک، بنی ہاشم سے لیکر عوام تک، میں نے ایسا عظیم الشان کردار رکھنے والا انسان نہیں دیکھا، بنی ہاشم کے افراد ان کا بزرگوں اور توانگروں سے زیادہ احترام کرتے ہیں، جرنیلوں سے لیکر کر وزیروں تک، علماء سے لے کر عوام تک اور عوام الناس سے لیکر حکام تک سبھی ان کی تعظیم کرتے ہیں، میں نے جس جس کو دیکھا خواہ افسران بالا ہوں یا تعلیمی اتھارٹیز، قانونی ماہر ہوں ہا فقہاء و وزراء، سب کے سب ان کے کمالات کی قدر کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں، بزرگان ملت و شرفاء قوم حتٰی دوست تو دوست دشمن تک امام حسن عسکری (ع) کی فضیلتوں کا اقرار کرتے ہیں۔ (سیرۃ الائمہ)

امام حسن عسکری (ع) کے خادم شاکری امام کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’امام محراب عبادت میں یوں سجدہ پروردگار کرتے کہ ہم بسا اوقات سو سو کر بیدار ہوجاتے تھے مگر آپ سجدے کی حالت میں ہوتے تھے، آپ (ع) بہت مختصر کھانا تناول فرماتے تھے، جب امام (ع) کے پاس انجیر، انگور وغیرہ پیش کئے جاتے تھے تو آپ ایک یا دو دانے تناول کرتے تھے اور فرماتے تھے، اے محمد یہ سب کچھ اپنے بچوں کے لئے لے جاؤ۔
امام حسن عسکری (ع) قید خانے میں روزہ رکھتے تھے، تھوڑی سی غذا تناول کرتے تھے، بقیہ کھانا تقسیم کرتے تھے، مرحوم کلینی سے مننقول ہے کہ ’’حضرت امام حسن عسکری (ع) قید خانے کے اندر اپنا سارا وقت عبادت خدا اور یاد پروردگار میں گزارتے تھے، جس کی وجہ سے قید خانے کا دروغہ جو آپکو آزار و اذیت دینے پر مامور تھا، آپ (ع) کی عبادت کا حال دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔

شہادت:
یوں تو ائمہ معصومین (ع) کی زندگیاں ہمیشہ حکام وقت کی طرف سے مصائب و آلام اور مظالم کے نشانہ پر رہی ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا حاکم رہا ہو جس نے اپنی حکومت کا ایک اہم مقصد آل محمد (ص) پر ظلم و ستم کو نہپ قرار دیا ہو، لیکن امام حسن عسکری (ع) کی زندگی ایک رجیب و غریب مصیبت کا نشانہ رہی ہے، جس کی مثال دیگر معصومین کی زندگیوں میں بھی نہیں ملتی ہے اور اس کا اہم ترین راز یہ ہے کہ عالم اسلام نے دور پیغمبر اسلام سے ہی یہ بات سن رکھی تھی کہ میرا بارہواں وارث وہ حجت خدا ہوگا جو ظلم و طور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے معمور کر دے گا اور دنیا کے ہر نظام ظلم کا تختہ اُلٹ دے گا، اس بناء پر حکام وقت ہر دور میں اس نکتے کی طرف متوجہ رہے کہ وہ مہدی دوراں منظر عام پر نہ آنے پائے، امام حسن عسکری (ع) کے دور تک یہ اطمینان تھا کہ مہدی اولاد حسین (ع) کا نواں ہوگا، اور ابھی اولاد حسین (ع) کے آٹھ رہنما پورے نہیں ہوئے ہیں، لیکن امام حسن عسکری (ع) کا دور آنے تک ہر صاحب علم و خبر کو یہ اندازہ ہوگیا کہ اب وجود مہدی برحق کا دور قریب آگیا ہے اور وہ انہی کی اولاد میں ہوگا، چنانچہ امام عسکری کی خصوصی نگرانی شروع ہوگئی اور آپ کے گھر کے ساتھ وہی سلوک طے کیا گیا، جو فرعون نے بنی اسرائیل کے ساتھ روا رکھا تھا، صرف اس خوف سے کہ وہ فرزند دنیا میں نہ آنے پائے جو فرعون کے تخت و تاج کو تباہ و برباد کر دے گا۔

امام حسن عسکری (ع) کے اعلٰی کردار اور پاکیزہ شخصیت سے خوفزدہ افراد نے آخرکار آپ (ع) کو زہر دلوا دیا اور جب یہ خبر عام ہوئی کہ امام علیہ السلام کی حالت غیر ہو رہی ہے تو فوراً اطباء کو علاج کے لئے طلب کرلیا اور زعماء مملکت کے ساتھ دس عدد درباری علماء بھی جمع کر لئے جو اس بات کی گواہی دیں گے کہ یہ طبیعی بیماری کے اعتبار سے مریض ہیں اور انہیں زہر نہیں دیا گیا، چنانچہ ان لوگوں نے گواہی دے دی اور اس وقت تک وہاں حاضر رہے جب تک امام (ع) کی شہادت واقع نہ ہوگئی، آپ کی حیات میں آپ کو مسلسل قید خانوں کے حوالے کر دیا گیا اور داروغہ زنداں کو یہ ہدایت دی جاتی تھی کہ جس قدر ممکن ہو امام علیہ السلام کو اذیت دی جائے اور اسی اذیت کا اثر تھا کہ آپ 28 سال سے زیادہ اس دنیا میں نہ رہ سکے اور زہر دغا سے 8 ربیع الاول 260ھ کو عالم جاودانی کی طرف کوچ کرگئے۔

اقوال حکیمانہ:
1۔ لوگوں سے بے جا بحث مت کرو کہ تمہاری آبرو و عزت ختم ہوجائے گی، اور زیادہ مذاق نہ کرو کہ لوگوں کو تم سے بات کرنے کی جرات پیدا ہوجائے گی۔
2۔ محتاط ترین انسان وہ ہے جو مشتبہ مقامات پر رک جائے اور عابد ترین انسان وہ ہے جو فرائض کی پابندی کرے اور زاہد ترین انسان وہ ہے جو حرام کو ترک کر دے اور سخت ترین جہاد کرنے والا وہ ہے جو تمام گناہوں کو ترک کر دے۔
3۔ احمق کا دل اس کی زبان میں ہوتا ہے اور حکیم کی زبان اس کے دل میں ہوتی ہے۔ (یعنی احمق انسان سوچنے سے پہلے ہی بولنا شروع کرتا ہے اور صاحب حکمت پہلے سوچتا ہے اس کے بعد زبان کھولتا ہے)۔
4۔ جس رزق کی ضمانت دے دی گئی ہے وہ تمہیں اس عمل سے نہ روک دے جو تم پر فرض کر دیا گیا ہے۔
5۔ کسی غم رسیدہ کے سامنے خوشی کا اظہار کرنا ادب و تہذیب کے خلاف ہے۔ جس شخص نے اپنے برادر مومن کو تنہائی میں نصیحت کی اس نے اسے آراستہ بنانے کی کوشش کی اور جس نے عام مجمع میں نصیحت کی اس نے اسے عیب دار بنا دیا۔

6۔ ہر شے کی ایک مقدار اور حد معین ہے جس سے زیادہ نقصان دہ ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر جود و کرم کی ایک حد ہے، جس سے بڑھ جانے کے بعد انسان اسراف کی حدوں میں داخل ہوجاتا ہے، اور احتیاط کی بھی ایک حد معین ہے، جس سے تجاوز کر جانے کے بعد بزدلی شروع ہوجاتی ہے اور اقتصاد و اعتدال کی بھی ایک حد ہے جس کی زیادتی بخیل بنا دیتی ہے اور شجاعت کی بھی ایک مقدار ہے جس کی زیادتی تہور اور بے باکی پیدا کر دیتی ہے اور تہذیب نفس کا سب سے بہترین ذریعہ یہ ہے کہ جس چیز کو دوسرے کے لئے ناپسند کرے، اسے اپنے لئے بھی ناپسند کرے۔
7۔ جو دوسروں کی خطاؤں سے درگذر کرتا اللہ اس کے گناہوں سے درگذر کرتا ہے۔ تمام برائیوں کو ایک گھر میں جمع کیا گیا ہے اور اس گھر کی کنجی جھوٹ ہے۔
8۔ دنیا میں کوئی بھی بلاء و مصیبت ایسی نہیں ہے کہ جس میں اللہ کی طرف سے (انسان کے لئے) ایک نعمت پوشیدہ نہ ہو۔ ہوشیار افراد میں سب سے عقل مند وہ ہے کہ جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے (اور ایسا عمل کرے) جو اسے موت کے بعد کام آئے۔
9۔ لڑائی جھگڑا (جنگ و جدل) مت کرو کیونکہ اس سے تمہاری شخصیت ختم ہوگی۔
دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی شے نہیں، اللہ تعالٰی پر ایمان رکھنا اور اپنے بھائیوں کو فائدہ پہنچانا۔

10۔ تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور ہمارے لئے باعث زینت بنو نہ کہ باعث ذلت۔
11۔ سب سے زیادہ بے چین وہ شخص ہے کہ جو لوگوں سے بغض و کینہ رکھتا ہو۔
12۔ مومن کے کمال ایمان کی پانچ علامتیں ہیں:
۱۔ بلند آواز سے بسم اللہ کہے۔
۲۔ خاک پر سجدہ کرے۔
۳۔ داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنے۔
۴۔ دن و رات میں 51 رکعتیں نماز ادا کرے۔
۵۔ روز اربعین امام حسین (ع) کی زیارت پڑھے۔
خبر کا کوڈ : 339254
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش