0
Friday 19 Sep 2014 11:23

نوازشریف کی ہٹ دھرمی کیوجہ سے سیاسی معاملات اُلجھے ہوئے ہیں، زمرک خان اچکزئی

نوازشریف کی ہٹ دھرمی کیوجہ سے سیاسی معاملات اُلجھے ہوئے ہیں، زمرک خان اچکزئی
زمرک خان اچکزئی بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر ہیں۔ آپ 14 اگست 1962ء کو بلوچستان کے علاقے قلعہ عبداللہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے گریجویشن کی ڈگری بلوچستان یونیورسٹی سے حاصل کی۔ اس سے قبل آپ صوبائی وزیر ریوینیو بھی رہ چکے ہیں۔ آپکا تعلق عوامی نیشنل پارٹی سے ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں پی بی 12 قلعہ عبداللہ سے بلوچستان اسمبلی کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ اس وقت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ممبر بھی ہیں۔ اسلام آباد میں جاری سیاسی دھرنوں اور موجودہ حکومت کی مذاکراتی کوشش کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: پنجابی طالبان کیجانب سے عسکری کاروائی ترک کرنے کے فیصلے کو آپ کسطرح دیکھتے ہیں۔؟

زمرک خان اچکزئی: پنجابی طالبان کا ہتھیار ڈال کر پرامن تبلیغ کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے اور یہ ریاست کی بھی خواہش تھی کہ وہ سیاسی میدان میں‌ آکر موجودہ سسٹم کا حصہ بنیں۔ گو کہ انہوں نے ماضی میں خون ریزی کی ہیں اور انکی کاروائیوں سے ملک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ لیکن دیر آید درست آید کی مثال کو ہمیں اپنا کر آگے مثبت انداز میں بڑھنا ہوگا۔ ریاست شروع دن سے یہی کہہ رہی ہے کہ جو تشدد کو ترک کرکے واپس آئینگے، ہم انہیں معاشرے میں جگہ دینگے۔

اسلام ٹائمز: ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی بجائے حکومت اور سیاسی جماعتوں کا آپس میں الجھے رہنے سے کس قسم کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔؟
زمرک خان اچکزئی: بنیادی طور پر ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ پاکستان کو موجودہ وقت میں کن کن مسائل کا سامنا ہے۔ بنیادی طور پر ایک امن و امان اور دوسرا معاشی مسئلہ سب سے اہم ہے۔ معیشیت کو بھی سب سے زیادہ نقصان بدامنی سے پہنچتا ہے۔ بدامنی کے پیچھے بہت سے عوامل ہے، جوکہ ایک بڑی داستان ہے۔ لیکن یہ دونوں مسئلے فرد، خاندان، معاشرے اور ریاست، سبھی کے ہیں۔ اب موجودہ صورتحال میں ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہیئے۔ ایک طرف آئی ڈی پیز کا مسئلہ دوسری طرف سیلابی ریلاء۔ اسی طرح کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ کیا ان سب کی ترجیحات میں سب سے پہلے آئی ڈی پیز اور سیلاب ہونی چاہیئے یا صرف اور صرف اقتدار ہونی چاہیئے۔؟ تمام جماعتوں کو اتفاق رائے سے مسائل حل کرکے عوام کی خدمت کرنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیا سیاسی جرگے اور تحریک انصاف کے مابین جاری مذاکرات سے کوئی پرامن نتیجہ نکلے گا۔؟
زمرک خان اچکزئی: سیاسی جرگہ تو پچھلے کئی دنوں سے کوشش کر رہا ے کہ مسائل کا حل کسی طرح نکل آئے لیکن تینوں جماعتیں اپنے موقف میں لچک نہیں دکھا رہیں۔ تحریک انصاف تو کہہ رہی ہے کہ ہم وزیراعظم کے استعفے کے معاملے سے پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ اسکے بعد حکومت کی جانب سے جو رپورٹ آئی تھی اس میں بھی کافی ابہام موجود تھے کہ کمیشن کا کام انہی پر چھوڑ دیں۔ اب چینی صدر کا دورہ بھی انہی پر ڈال دیا گیا ہے کہ انکے دھرنوں کی وجہ سے ملتوی ہوگیا لیکن بنیادی ذمہ داری حکومت کی تھی کہ ان دھرنوں کو پرامن حل نکال کر اسے ختم کریں۔ حکومت اگر آگے بڑھتی اور مذاکرات میں مخلص ہوتی تو دھرنے شروع دنوں ہی میں ختم ہو جاتے۔ آخری دنوں میں انہوں نے چینی صدر کو اسلام آباد کی بجائے لاہور آنے کا مشورہ دیا، جبکہ یہی مشورہ حکومت پہلے دنوں میں دے سکتی تھی لیکن انہوں نے کہا کہ دھرنے والے جلد تھک جائینگے اور اپنے گھروں کو روانہ ہونگے۔ ابھی بھی چند وزراء کے بیانات اسی طرح ہیں۔ لہذٰا مسئلے کے سیاسی حل کیلئے سبھی فریقوں کو لچک دکھانی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: پاک افواج کو اس معاملے میں شامل کرنا ملک کی سیاسی ساکھ کیلئے کس حد تک منفی ثابت ہو سکتا ہے۔؟
زمرک خان اچکزئی: شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن سے پہلے ہی پاک افواج کو چیلنجز کا سامنا ہے جبکہ ملک میں کئی آمرانہ قوتوں کے آنے کے بعد چند سال ہی جمہوریت کو ہوئے ہیں۔ لہذٰا پارلیمنٹ یا جمہوریت اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ پھر کسی فوجی کو سیاسی معاملات میں الجھایا جائے۔ خاص کر حکومت کی جانب سے جنرل راحیل صاحب کو بلانا اور تعاون کی درخواست کرنا، تمام سیاسی جماعتوں کیلئے باعث تشویش ہے۔ لہذٰا ملک کے جتنے بھی مسائل ہیں، چاہے وہ سیاسی، اقتصادی یا امن و امان کے ہوں سارے مسائل کو حل کرنے کیلئے صرف سیاسی و جمہوری طریقہ کار ہی اپنانا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کیلئے عمران خان اور طاہرالقادری صاحب جوڈیشنل کمیشن پر اعتماد کیوں نہیں کر رہے۔؟
زمرک خان اچکزئی: الیکشن میں اصلاحات کیلئے تو عمران خان نے سب سے پہلے پارلیمنٹ کا راستہ ہی اپنایا۔ حکومت سے مختلف حلقوں میں تحقیقات کا مطالبہ کیا، لیکن انکی شکایت کا ازالہ نہیں کیا گیا۔ اسی لئے عمران خان نے دھرنے اور احتجاج کا راستہ اپنایا۔ اب معاملات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے نواز شریف صاحب نے جوڈیشنل کمیشن کے قیام کا اعلان کیا، لیکن تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ حکومت کو شروع دن سے معاملات کو سلجھانے چاہیئے تھے لیکن انکی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا اور یہی وجہ ہے کہ اب عمران خان جوڈیشنل کمیشن پر بھی اعتماد نہیں کر سکتے۔ اگر حکومت واقعی جمہوریت کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہے تو اسے عوام کی بات ماننا ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 410452
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش