0
Thursday 17 Apr 2014 17:44

جنگ بھی، جنگ بندی کا احسان بھی

جنگ بھی، جنگ بندی کا احسان بھی
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

جب بھی طالبان کے خلاف کاروائی ہو تو جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام کے دونوں دھڑے اور تحریک انصاف پر زور احتجاج کرتے ہیں کہ آپریشن روک دیا جائے ورنہ پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ انہی بنیادوں پر نواز حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا، ڈرون حملے بند ہوئے لیکن دہشت گردی جاری رہی، طالبان کی طرف سے کیے گئے دھماکوں پر فوجی آپریشن کی مخالف جماعتیں ہمیشہ خاموش رہی ہیں یا طالبان کے اس مکارانہ موقف کی تائید کرتی رہی ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ اگر دہشت گردی طالبان کا شیوہ نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان کے پاس دہشت گردی کی بنیاد پہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مینڈیٹ بھی نہیں، اسی طرح جماعت، جمعیت اور پی ٹی آئی کا کردار بھی زیر سوال آتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے متعلق حکومتی موقف کی تائید کیوں کرتے ہیں۔ بے شک طالبان جیسے دہشت گردوں کو دودھ پلانے کا عمل فوج نے شروع کیا تھا، لیکن جب وزیرستان میں جیٹ طیارے زمینی آپریشن کے لیے فضا تیار کر رہے تھے تو نواز حکومت نے مسلح افواج کیخلاف تضحیک آمیز رویہ اپناتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ رائے ونڈ اور امارت اسلامیہ وزیرستان کے مفادات ایک ہیں۔ البتہ حکومت اور طالبان نواز سیاسی قوتوں نے تکرار کے ساتھ عوام کو باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ ہم پاکستان میں ہر قیمت پر امن کا قیام چاہتے ہیں۔

جب سیکورٹی اور انٹیلیجنس اداروں کو ضیا کی فوجی جنتا نے یہ حکم دیا تھا کہ جہاد کے نام پر مخصوص مسلک کے مولویوں کو غیر ریاستی جنگجو بھرتی کرنے کے لیے سرکاری خرچ پر استعمال کیا جائے، اس وقت کی فوجی حکومت کا بھی عوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے یہی موقف تھا کہ سرکاری افواج، کمانڈو دستوں، سیکورٹی اداروں اور ایٹمی ہتتھاروں کی موجودگی میں پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے دہشت گردی کا ہتھیار نا گزیر ہے۔ جس طرح تمام فوجی طالع آزما ملکی مفادات اور وطن کے تحفظ کے نام پہ دہشت گردوں کو پروان چڑھاتے رہے اسی طرح سیاسی حکمران بھی اپنی ہی حکومت اور اپنے خاندانوں کی جانیں بچانے کے لیے دہشت گردوں کو مذاکرات کے نام پر، کھلا چھوڑنے کے حامی ہیں۔

پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کے قاتل اور پاکستانی آئین کو تسلیم کرنے والے اٹھارہ کروڑ مسلمانوں کو کافر اور مرتد کہنے والے طالبان، مکمل طور پر بے نقاب ہو چکے تھے اور رائے عامہ کے تمام اشاریے یہ بتا رہے تھے کہ پاکستان اور طالبان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ جماعت اسلامی، جمعیت، تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن آگے بڑھے اور طالبان سے دوستی کا اعلان کیا۔ پاکستانی عوام کی آواز تو دھماکوں کی گونج میں دب گئی لیکن کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان وقفے وقفے سے بیان جاری کرتے رہتے ہیں کہ حکومت غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہی ہے، ہمارے ساتھیوں کے خلاف گرفتاریوں، چھاپوں، گولہ باری اور قیدیوں پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے، یہ سلسلہ مذاکراتی عمل کے لیے پیدا کردہ بہتر ماحول کو متاثر کر رہا ہے۔ کوئٹہ، چلاس، کامرہ، مستونگ سمیت پاکستان کے چپے چپے میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے خون کا مذاق اڑاتے ہوئے وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان پوری سنجیدگی کے ساتھ جنگ بندی کے فیصلے پر عمل پیرا ہے اور احرار الہند اور جند اللہ جیسے گروپوں سے لاتعلقی کا اعلان بھی کر چکی ہے، تاہم حکومتی صفوں میں موجود بہت سے عناصر مذاکراتی ماحول کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جب طالبان کی جانب سے متعدد بار مسلم لیگ نون کی طالبان دوست حکومت کو یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ ایسے عناصر کو قابو کر کے ان کی سرزنش کرے، تو وفاقی وزیر داخلہ، پنجاب کے وزیر قانون اور مذاکراتی کمیٹی، وزیر اعظم کے Be Half پہ صفائی پیش کرتے ہیں کہ طالبان بھائیوں کو ناراض نہیں ہونا چاہیے ہم سندھ حکومت کو سمجھائیں گے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالبان ساتھیوں کو چھوڑ دیں اور اگر طالبان ساتھی کہیں دہشت گردی کریں تو مسلح افواج جنگ بندی کے عہد پہ قائم رہیں۔ جیسا کہ گذشتہ دور حکومت میں مسلم لیگ نون کے وزیر اعلیٰ طالبان بھائیوں کو عوامی جلسوں میں یہ درخواست کیا کرتے تھے کہ دیکھیں جی، آپ بھی امریکہ کے مخالف اور ہم بھی، تو پھر پنجاب میں حملے کیسے؟

جب بے نظیر بھٹو القاعدہ اور طالبان کے مشترکہ حملے میں ماری گئیں تو نواز شریف سیاسی رہنماوں میں سے نواز شریف پہلے رہنما تھے جو ہسپتال پہنچے، محترمہ کے بچوں کے سر پہ ہاتھ رکھا اور انکے غم میں شریک ہوئے۔ مشرف گھر چلے گئے، الیکشن ہوئے پی پی پی کو ووٹ ملے، نواز شریف حکومت سے باہر ہی رہے، پانچ سال کے انتظار کے بعد نئے انتخابات کا اعلان ہوا، اسکے ساتھ ہی راولپنڈی کے سرکاری ہسپتال میں بے نظیر کی لاش پہ میاں نواز شریف کے ٹپکائے ہوئے آنسووں کی حقیقت ظاہر ہونا شروع ہوئی۔ میاں نواز شریف نے واضح طور پر جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور طالبان کے ساتھ ملکر سیاسی محاذ بنایا اور پی پی پی کو انتخابی مہم سے باہر کر دیا، جمہوریت کا راگ الپنے والے لیگی قائدین نے پاکستان کی قیمت پر اقتدار کی کرسی حاصل کرنے کے لیے طالبان کا سہارا لیا اور طالبان نے دھماکوں، دھمکیوں اور اغوا کاریوں کے ذریعے مسلم لیگ نون کے مخالفین کو الیکشن کمپین سے باہر رکھا، اس طرح ایک بار پھر واضح برتری کے ساتھ نون لیگ کی حکومت بن گئی۔ اس دفعہ نون لیگ کو اقتدار کی سیڑھی چڑھانے والی فوج نہیں بلکہ فوج کیخلاف جنگ کرنے والے دہشت گرد تھے، جب ایسا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مسلم لیگ نون دہشت گردوں کے مقابل فوج کے ساتھ کھڑی ہو۔

اسی دوران پنجاب میں موجود لشکر جھنگوی اور کالعدم سپاہ صحابہ جیسے طالبان نواز شدت پسند گروہوں کے ساتھ جھنگ اور کراچی میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر نون لیگ کی ان بن ہو گئی، جسکی وجہ سے طالبان اور لشکر جھنگوی نے شریف فیملی کو واضح اشاروں کے ساتھ یہ باور کروایا کہ حکومت میں آجانے کے بعد دوستوں کے ساتھ بے وفائی مہنگی پڑ سکتی ہے، جسکے بعد نواز حکومت نے نہ صرف انکے خلاف آپریشن اور عدالتی کاروائی معطل کروا دی، بلکہ یہ طے کیا کہ ہر قیمت پر پاکستان میں امن قائم کیا جائے گا۔ احمد لدھیانوی کو ملنے والی قومی اسمبلی کی سیٹ اور امن مذاکرات اسی مساعی کا نتیجہ ہیں۔ شہباز شریف، میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی ہیں، شہباز شریف کا پنجاب وہی ہے جو نواز شریف کا پاکستان ہے، یعنی خود میاں نواز شریف، چھوٹا بھائی شہباز شریف، بھتیجا حمزہ شہباز اور بیٹی مریم نواز، یہ ہے مسلم لیگ نون کا پاکستان، جی ہاں یہی وہ پاکستان ہے جسے شریف بردران پرامن اور محفوظ رکھنے کی سعی کر رہے ہیں، کیونکہ لشکر جھنگوی کی طرف سے انہی کو اغوا کرنے، قتل کرنے یا دہشت گردی کا نشانہ بنائے جانے کا پیغام موصول ہوا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ حکمرانو! ہوش کرو کہ اگر پاکستان نہیں رہے گا تو حکومت کس پر کرو گے لیکن حکمرانوں کو یقین ہو چلا ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اگر حکمران ہوں گے تو پاکستان پر حکومت کی جا سکے گی، ورنہ پاکستان غیر محفوظ اور بے امن رہے گا۔

طالبان کے ساتھ نام نہاد جنگ بندی، طالبان قیدیوں کی رہائی، طالبان قیدیوں کا جیلوں سے فرار، وفاقی حکومت کی طرف سے یکطرفہ طور پر دہشت گردوں کے خلاف کاروائی روکنے کا حکم اور جماعت اسلامی، جمعیت، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کے طالبان کے ساتھ مشترکہ امن مذاکرات در اصل پاکستان اور پاکستانی عوام کیخلاف طالبان کی جنگ کی حمایت کا اعلان ہے، اسی لیے تو جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر پاکستانی آئین میں اصلاح کر لی جائے تو طالبان بھائیوں کو راضی کیا جا سکتا ہے۔ دراصل طالبان کے سہارے دوسری طالبان نواز قوتیں بھی چاہتی ہیں کہ نون لیگ اقتدار میں انکا حصہ بڑھائے۔ یہ لوگ پاکستان کیخلاف جنگ میں طالبان کی صفوں میں شامل ہیں، لیکن جنگ بندی کے نام پر پاکستانیوں پر احسان بھی جتلاتے ہیں، کہ لو دیکھو جی ہم نے کراچی میں قتل ہونے والے پولیس والوں، اسلام آباد میں ججوں، وکیلوں اور مزدورں کو مارنے والے اپنے ہی بھائیوں احرار الہند کی مذمت کر کے جو احسان پاکستان پر کیا ہے یہ قائد اعظم کے احسان سے بڑا ہے، اب تو ہمارا حق بنتا ہے کہ جو ہم کہیں وہی پاکستان کا قانون کہلائے۔ یہ عوامی اور جمہوری قوتوں کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کی فضاووں پر بیداری کی لہر کے اتنے اثرات تو دکھائی دیں کہ جو لوگ پاکستان کیخلاف جنگ میں شریک ہیں وہ اتنے تو بے نقاب ہوں کہ جنگ بندی کا احسان جتلاتے ہوئے انہیں احساس جرم نہیں تو احساس شرم تو ہو۔
مصنف :
خبر کا کوڈ : 373760
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش