0
Thursday 30 Jan 2014 01:17

صہیونی قابضین اور امریکن صہیونی لابی

صہیونی قابضین اور امریکن صہیونی لابی
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)


دور حاضر میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات بالخصوص مشرق وسطٰی کے حوالے سے تبدیل ہونے والی صورتحال کے بعد فلسطین پر قابض صیہونیوں اور امریکہ میں موجود صیہونی لابی AIPAC کے مابین شبہات جنم لے رہے ہیں جس کے باعث امریکن صیہونی لابی اور صیہونی قابضین نے مل بیٹھ کر اپنے مابین پیدا ہوئے شبہات کو دور کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ فلسطین پر صیہونیوں کے غاصبانہ تسلط کو قائم رکھا جا سکے۔ صیہونیوں کی گھبراہٹ اور پریشانی کے بارے میں چند امریکن سیاسی تجزیہ نگاروں نے امریکہ اور ایران کے مابین ہونے والی مثبت گفتگو کو قرار دیا ہے اور اس مسئلہ کو صیہونیوں کی سب سے بڑی پریشانی قرار دیا ہے، واضح رہے کہ صیہونی غاصب ریاست اسرائیل ہمیشہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرتے ہوئے راگ الاپتی رہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران مشرق وسطٰی کے لئے خطرہ ہے تاہم موجودہ حالات اور واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ خود صیہونی غاصب ریاست اسرائیل اور امریکہ میں موجود صیہونی لابی ہی نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پورے خطے سمیت پوری دنیا کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے، حال ہی میں ایک عالمی ادارے کے سروے کی رپورٹ میں شائع ہوا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل دنیا کے امن کے لئے خطرہ ہیں۔

حال ہی میں 20جنوری 2014ء کو ایران پر عالمی پابندیوں کو نرم کر دیا ہے جس کے بدلے میں ایران نے بین الاقوامی معاہدے کے مطابق یورینیم کی افزودگی میں کمی کی ہے، پہلے کی طرح اب بھی ایران نے اٹامک انرجی کے بین الاقوامی ادارے IAEAکے ساتھ تعاون سمیت ادارے کے مشاہدہ کاروں کو ایٹمی پلانٹ کے معائنے کی اجازت دی ہے جس کے بعد حالات میں تیزی سے تبدیلی آنا شروع ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل اور امریکہ میں موجود صیہونی لابی شدید شبہات اور پریشانی میں مبتلا ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ ایران نے نومبر2013ء میں طے پانے والے ایک معاہدے میں جس میں امریکہ سمیت روس، چین اور یورپی ممالک شامل تھے، چھ ماہ تک یورینیم کی افزودگی میں کمی کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے جواب میں امریکہ سمیت یورپی یونین نے ایران پر سے کچھ پابندیوں میں نرمی کا اعلان کر دیا تھا، چھ مہینے کا ہونے والا یہ معاہدہ ہر طرح سے ایران کے حق میں رہا اور ایران کو موقع ملا کہ ان چھ ما ہ میں اپنی تجارتی سرگرمیوں کو تیز کر سکے، جبکہ دوسری طرف صیہونی اس فیصلے سے شدید پریشان نظر آئے۔

یہی وجہ تھی کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل سمیت امریکہ میں موجود صیہونی لابی نے روز اول سے امریکہ، یورپی یونین اور ایران کے درمیان ہونیوالے مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے اس بات کی کوشش کی کہ کسی طرح اس معاہدے کو ختم کیا جائے کیونکہ صیہونی غاصب ریاست اسرائیل نے پہلے روز سے ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے نیوکلیئر منصوبوں کو خطرہ قرار دے رکھا تھا جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایران واحد ملک ہے جو مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے سنجیدہ کوششوں میں مصروف عمل ہے اور اس کی واضح مثال ایران کی جانب سے فلسطینیوں کو دی جانیوالے کروڑوں ڈالر کی امداد سمیت مسلح مدد بھی شامل ہے، غاصب اسرائیل کو ایران کا یہ رویہ شدید ناگوار گزرتا ہے اور خود اسرائیل کہ جس کے پاس سیکڑوں ایٹم بم اور خطرناک ہتھیار موجود ہیں، ایران کو خطرہ قرار دیتا ہے جو کہ مضحکہ خیز ہے۔

امریکہ میں موجود صیہونی لابی کی جانب سے امریکہ اور عالمی طاقتوں کے ایران کے ساتھ ہونیوالے کامیاب مذاکرات اور ایران پر سے پابندیوں کو کم کئے جانے کے بعد زبر دست مہم کا آغاز کیا گیا جس کا خود امریکہ میں صیہونی لابیAIPAC کے ایک سابق ذمے دار MJ Rosenburg نے بھی چند ہفتوں پہلے انکشاف کیا کہ امریکہ میں موجود صیہونی لابی امریکی سیاست پر ہمیشہ کی طرح اب بھی اثر انداز ہونے کی زیادہ کوششیں اس لئے کر رہی ہے کہ عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین طے پانے والے معاہدے کو منسوخ کیا جائے۔ MJ Rosenburg کا کہنا ہے کہ شام پر امریکی حملہ کا ماحول بنانا بھی امریکہ میں موجود صیہونی لابی کا براہ راست کارنامہ تھا، کیونکہ فلسطین پر قابض صیہونی اور امریکہ میں صیہونی لابی چاہتے ہیں کہ ایرانی مفادات کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے۔ لیکن شام پر امریکی حملے کے معاملے میں AIPACبری طرح ناکام رہی اور ان کی مہم کامیاب نہ ہو سکی۔

امریکہ میں موجود صیہونیوں کی تنظیم AIPACکے ایک اعلیٰ عہدیدار Steve Rosen اپنے انٹرویو کے دوران ایک رومال دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم چوبیس گھنٹوں سے بھی پہلے اس رومال پر امریکن کانگریس کے 70سینیٹرز کے دستخط حاصل کر سکتے ہیں، ان کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ میں موجود صیہونی لابی کس طرح سے امریکن کانگریس پر کنٹرول رکھتی ہے لیکن شام پر امریکی حملے کے بارے میں امریکن عوام نے امریکی انتظامیہ پر شدید دبائو دیا تھا جس کے باعث امریکہ نے شام پر حملہ کرنے سے خود کو دور رکھا۔ امریکہ میں موجود صیہونی لابی کی یہ تنظیم AIPAC امریکن سیاست دانوں کو ٹیلی فون کالز پر بھاری رقوم کی آفر کرتے ہیں جبکہ سیاست دانوں کو خریدا جاتا ہے تا کہ ملک کی سیاست پر مکمل کنٹرول حاصل رہے یہی وجہ ہے کہ امریکن انتظامیہ نہ چاہتے ہوئے بھی متعدد مرتبہ فلسطین پر قابض صیہونیوں اور امریکہ میں موجود صہیونی لابی کے سامنے بے بس نظر آتی ہے، حال ہی میں جنیوا ٹو کے رونما ہونے کے بعد فلسطین پر قابض صیہونی اور امریکہ میں موجود صیہونی لابی ایک مرتبہ پر سر گرم ہو گئی ہے جبکہ رپورٹس میں آیا ہے کہ صیہونی لابی شدید شبہات کا شکار بھی ہو چکی ہے۔

غاصب اسرائیل کو فلسطین پر قابض ہوئے پینسٹھ برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، اسرائیل اور اس کی صیہونی لابی اس کوشش میں مصروف ہے کہ کسی طرح عرب لیگ اور اس کے بعد عالمی سطح پر اسرائیل کے غاصبانہ اور ظالمانہ اقدامات کو تسلیم کیا جائے اور اس کام کے لئے امریکہ میں موجود صیہونی لابی سرگرم عمل ہے اور حال ہی میں امریکی جریدوں میں شائع ہونے والی اطلاعات کے مطابق فلسطین پر قابض صیہونی اور امریکہ میں موجود صیہونی لابی فلسطینیوں کی سرزمینوں پر یہودی آباد کاری کے حق کو تسلیم کروان کی کوششوں میں مصروف عمل ہے جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے غاصب اسرائیل کے اس طرح کے اقدامات کی شدید مذمت کی جا چکی ہے لیکن امریکہ میں موجود صیہونی لابی امریکن انتظامیہ پر دبائو بڑھا رہی ہے کہ ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو منسوخ کیا جائے اور ساتھ ساتھ اسرائیل کو کھلی چھٹی دی جائے کہ وہ جس طرح چاہے او ر جب چاہے نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کو بھی جاری رکھے۔

حال ہی میں خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال اور معاملات کے بعد دیکھا جا رہا ہے کہ اسرائیلی سلامتی اور سیاسی اعلیٰ عہدیدار شدید پریشانی کا شکار نظر آتے ہیں، امریکہ اور عالمی طاقتو ں کا ایران کے ساتھ ہونیوالا معاہدہ نہ صرف ایران کے لئے بلکہ شام سمیت عراق کے معاملات پر بھی اثر انداز ہو گا اور اسی بات کی پریشانی صیہونیوں کو لاحق ہو چکی ہے، کیونکہ امریکہ اور اسرائیل دونوں مضبوط اتحادی ہیں جبکہ اسرائیل کو یہ بات ہرگز منظور نہیں کہ ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے سے ایران کو کسی طرح کا فائدہ حاصل ہو، اس کی ایک وجہ سعودی عربیہ بھی ہے کیونکہ سعودی عرب اسرائیل کے نزدیک ترین ہے جس کی بڑی وجہ اسرائیل کے ساتھ کئے جانے والے سعودی حکومت کے معاہدے ہیں تاہم اسرائیل اور سعود عربیہ کے مشترکہ مفاد میں ایران کو مفادات سے دور رکھنا ہے تاہم اوبامہ انتظامیہ نے اسرائیل اور سعودی عرب سمیت کئی ممالک کی ناراضگی اٹھا لی ہے لیکن عالمی طاقتوں اور ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کا عندیہ دے دیا ہے جس کے جواب میں ایران نے بھی مثبت جواب دیا ہے۔ دوسری جانب ایک مرتبہ پھر اسرائیلی غاصب وزیراعظم نیتن یاہو نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ خطے میں امریکہ کا انتخاب درست قدم نہیں ہے، لہذٰا اسرائیل کو اپنی سلامتی کے معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ خطے میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے باعث فلسطین پر قابض صیہونی اور امریکہ میں موجود صیہونی لابی محدودویت کا شکار ہو رہی ہے اور شام کی بگڑتی ہوئی صورتحال بھی اب دہشت گردوں کا آپس میں لڑائی کے بعد کافی بہتر ہو رہی ہے جس سے غاصب اسرائیل کو شدید پریشانی اور دشواری کا سامنا ہے۔
خبر کا کوڈ : 346508
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش