2
0
Monday 7 Jul 2014 20:51

عراق میں دہشتگردی کی حقیقت

عراق میں دہشتگردی کی حقیقت
تحریر: عرفان علی 

شام کے بعد عراق دہشت گردی کی نئی لہر کی لپیٹ میں ہے۔ مسئلہ صرف شام و عراق کا نہیں، پاکستان، افغانستان، یمن، اور بعض افریقی ممالک میں بھی دہشت گردوں نے طویل عرصے سے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ہر ملک میں دہشت گردوں نے مختلف روپ اور مختلف نام اپنا رکھے ہیں، لیکن ان سب کا ہدف ایک ہے کہ مسلمان ممالک کو کمزور کر دیں اور ہر ملک میں ملتوں کے مختلف طبقات کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیں۔ پاکستانیوں سے زیادہ کون اس فتنے کو جانتا ہوگا۔ طالبان اور القاعدہ کے عنوان کے تحت افغانستان اور پاکستان میں بھی دہشت گردوں نے کھل کر کارروائی کی۔ سعودی عرب کے اسامہ بن لادن اور مصر کے ایمن الظواہری کو خلافت کی سوجھی تو اپنے ملکوں کے بادشاہ و آمر کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے بجائے دنیا بھر میں دہشت گردی کے لئے پاکستان و افغانستان کی سرزمین استعمال کی۔ یہی حال ان کے ہم فکر ابو مصعب الزرقاوی کا تھا، جو اردن کے شہری تھے لیکن انہوں نے عراق میں القاعدہ بنا ڈالی۔ ان تین شخصیات میں قدر مشترک یہ تھی کہ انہوں نے سعودی عرب، مصر اور اردن کی ان حکومتوں کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہیں کی، جو براہ راست اسرائیل کے سرپرست امریکہ و برطانیہ کی قریبی اتحادی تھیں۔

زرقاوی نے عراقی صوبہ صلاح الدین کے شہر سامرہ میں امام علی نقی الہادی اور امام حسن عسکری کے مزارات مقدسہ کو بھی بم سے اڑا ڈالا۔ یہ دہشت گرد تو مارا گیا لیکن اس کے ہم خیال فتنہ گروں نے مختلف نام کے گروہ بنا کر امریکہ کے لے پالک صہیونیوں کے گریٹر اسرائیل کے خواب کو عملی تعبیر دینا شروع کر دی۔ عراقیوں کی زندگی جہنم بنا کر شام گھسے، وہاں سے مار پڑی تو دوبارہ عراق آگئے۔ چھوٹے چھوٹے گروہوں نے مل جل کر ایک نئے فتنے کو مقدس نام دے دیا یعنی دولت اسلامیہ فی العراق والشام۔ پہلے یہ "داع" تھی اور شام کے اضافے کے ساتھ داعش ہوگئی، جو اس کا مخفف ہے۔ انگریزی میں اسے اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (ISIS) اور اسلامک اسٹیٹ ان عراق ایند لیونٹ (ISIL) کے نام سے شناخت کیا جا رہا ہے۔ اصل میں اردو میں ہم جس ملک کو شام کہتے ہیں اسے عرب سوریا، ایرانی سوریہ اور انگریز سیریا کہتے ہیں۔ عرب جس علاقے کو شام کہتے ہیں انگریزی میں اسے لیونٹ کہا جاتا ہے۔

امریکی کنزرویٹو ویب سائٹ ورلڈ نیٹ ڈیلی کے مطابق داعش یا ISIS یا ISIL نامی دہشت گرد گروہ کے دہشت گردوں کو امریکہ کی اسپیشل فورسز نے اردن میں دہشت گردی کی ٹریننگ فراہم کی ہے۔ عراق کے بارے میں سی این این کو انٹرویو میں ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر رینڈ پال کا کہنا تھاکہ سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ صورتحال یہاں کس طرح پہنچی، اس لئے کہ امریکہ داعش کو شام میں مسلح کرتا رہا۔ تحقیقاتی صحافت کے شعبے کے معروف امریکی صحافی، مصنف اور کالم نگار وین میڈسن نے بتایا ہے کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل جون برینن نے داعش کی تخلیق کی اور اسے عروج بخشنے میں کلیدی کردار بھی ادا کیا۔

یہ تو ہوا تصویر کا ایک رخ۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ داعش کے معاملے میں سعودی عرب، اردن، قطر اور ترکی سمیت بعض ممالک امریکہ ہی کے اتحادی ہیں۔ داعش تنہا اس پراکسی وار (نیابتی جنگ) کا حصہ نہیں۔ شام میں جبہۃ النصرہ اور فری سیرین آرمی بھی انیس بیس کے فرق سے انہی سرگرمیوں میں مصروف عمل تھے اور ہیں۔ بعض جگہوں پر یہ ایجنٹ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں اور بعض جگہوں پر ایک دوسرے کی حمایت کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ داعش کا پہلا سربراہ عمر البغدادی تھا اور اب ابوبکر البغدادی ہے۔ ملا عمر کی طرح یہ بھی اپنی شکل چھپانے کا عادی ہے۔ دبئی کے انگریزی روزنامہ دی نیشنل کے مطابق شام میں جو دہشت گرد زخمی ہوئے ان کا علاج ناجائز و غاصب صہیونی ریاست اسرائیل میں ہوا۔ ترکی میں بھی ان دہشت گردوں کی خاطر مدارات کی جاتی ہے۔ وہاں کی اپوزیشن جماعتیں ثبوت فراہم کرچکی ہیں۔ ایک زیر علاج دہشت گرد کی تصویر حریت ڈیلی نے شایع بھی کی۔ ری پبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) نے تو ترک حکومت سے وضاحت بھی طلب کی تھی۔

امریکہ اور اس کے اتحادی عرب حکمرانوں نے بہانہ یہ بنایا ہے کہ عراق میں نمائندہ حکومت نہیں ہے اور داعش کو عرب بہار کا نام دے کر اسے بھی تحریر اسکوائر کی طرح کا منظر بنانے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔ یہ ناکام اتحادی فراموش کر جاتے ہیں کہ مصر کے عرب بہار کے نتیجے میں آنے والی اخوان المسلمین کی مرسی حکومت کا دھڑن تختہ کرکے جنرل سیسی کو لانے والے بھی وہ خود ہیں، اور وہ یہ حقیقت بھی چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ وہ خود موروثی بادشاہت کے نظام کے تحت عوام پر مسلط ہیں۔ پھر یہ کہ جب ابراہیم جعفری کے سیاسی انتخابی اتحاد نے عراق کا پہلا جمہوری الیکشن جیتا تھا اور وہ وزارت عظمٰی کے امیدوار تھے، تب امریکہ ہی نے نوری مالکی کی حمایت کی تھی اور ابراہیم جعفری کو استعفٰی پر مجبور کیا تھا۔ یہ تفصیلات اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزارائس نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب نوہائیر آنر میں لکھیں اور مشہور امریکی صحافی و مصنف باب وڈ ورڈ نے عراق جنگ کے موضوع پر اپنی کتاب اسٹیٹ آف ڈینائل میں تحریر کیں۔ آج نوری مالکی اس لئے برے ہیں کہ انہوں نے شام کے خلاف امریکی و اسرائیلی اتحاد کا ساتھ نہیں دیا۔ اس الیکشن میں بھی ان کا انتخابی اتحاد جیت چکا ہے۔ سب سے زیادہ نشستیں انہوں نے جیتی ہیں۔

پھر یہ بھی ہے کہ میڈیا وار (تبلیغاتی جنگ) میں فرقہ واریت پھیلانے کی سازش پر بھی عمل ہو رہا ہے۔ عراق جب سے موجودہ جغرافیائی حدود میں ایک ملک ہے، اس کی پوری تاریخ میں یہ پہلی جمہوری حکومت ہے جو عوام کی حمایت سے وضع کئے گئے سیاسی نظام کے تحت قائم ہوئی۔ عراق میں صدر سنی کرد، ایک نائب صدر سنی عرب، ایک نائب وزیراعظم سنی کرد اور ایک نائب وزیراعظم سنی عرب ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی سنی عرب، وزیر خارجہ سنی کرد، اور کئی صوبائی حکومتوں میں بھی سنی عرب اور سنی کرد اقتدار میں شریک ہیں۔ نوری المالکی کے اتحاد میں بھی سنی عرب شامل ہیں۔ جو نوری مالکی کے ساتھ نہیں وہ ایاد علاوی کے اتحاد کا حصہ ہیں اور اس پلیٹ فارم سے سیاسی نظام میں شامل ہیں۔ عراق کے سب سے سینیئر سیاستدان و سفارتکار عدنان باجہ جی اور ان کے ہم فکر سنی عرب ہوں یا شمر قبیلے کے سنی عرب سردار غازی ال یاور یہ سب عراقی نظام کا حصہ ہیں۔ صالح ال مطلک کا سنی عرب گروہ بھی سنی مذہبی عربوں کے اتحاد قائم کرکے الیکشن لڑتا ہے اور کئی نشستیں جیتتا ہے۔ عراقی اسلامی پارٹی بھی سنی مذہبی جماعت ہے اور عراقی سیاست میں فعال ہے۔

کردستان ویسے تو چار صوبوں پر مشتمل ہے لیکن کرد کرکوک کے بھی حکمران بنے بیٹھے ہیں۔ بصرہ ہو یا دیالہ یا سامرہ، سنی قبائل نے آیت اللہ سیستانی کے فتوے کے بعد مقامات مقدسہ سمیت عراق کی حفاظت کے لئے عراقی حکومت اور شیعہ رضاکاروں کی معاونت اور جہاد کفائی میں شرکت کے لئے السنہ نام کی تنظیم بھی بنائی ہے اور کہیں بغیر تنظیمی ناموں کے خود کو رجسٹر کروایا ہے۔ عراق میں سنی شیعہ اتحاد کا یہ ناقابل انکار اظہار بتاتا ہے کہ عراق میں اسرائیل کے حامیوں اور اسرائیل کے دشمن صف آرا ہیں۔ عراق کے سنی علماء اور خاص طور پر مجلس علمائے عراق کے سربراہ خالد ال ملا نے امام خامنہ ای کے موقف کی تائید کی ہے اور سنی عربوں پر زور دیا ہے کہ وہ اتحاد امت کا مظاہرہ کریں۔ یہ وہ ناقابل تردید حقائق ہیں جن کی بنیاد پر ببانگ دہل کہا جاسکتا ہے کہ عراق میں سنی و شیعہ مسلمان متحد ہیں اور وہ امریکہ، ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل اور انکے اتحادیوں کو دہشت گردی کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔

عراق کے مختلف مقامات پر دہشت گردوں نے شب خون مارا۔ موصل میں صدام دور حکومت کا نائب صدر عزت ال دوری جو کہ عرب نسل پرستی کے نظریہ پر کاربند تھا، اب اس نے خود کو سنی عرب مذہبی ظاہر کرتے ہوئے نینوا صوبے کے علاقے موصل پر قبضہ کیا۔ بعثی باقیات نے اسلام کو بدنام کرنے کے لئے یہ روپ اختیار کیا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ بعثی نظریات پر کوئی بھی ان کا ساتھ نہیں دے گا۔ اب بھی وہ طاقت کے زور پر عوام کو زیر کر رہے ہیں۔ ان کے اور داعش کے نظریات کو عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ داعش نے شام، اردن اور سعودی سرحد پر واقع عراقی صوبے الانبار پر شب خون مارا۔ اسی صوبے میں رمادی اور فلوجہ جیسے شہر ہیں۔ یہ عراق کا بلوچستان ہے یعنی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ۔ اس کی صوبائی سرحد کربلا و نجف و صلاح الدین و نینوا صوبے کے ساتھ ملتی ہے۔ صدام کا تکریت شہر اور سامرہ بھی صلاح الدین صوبے میں ہیں۔ ایران کی سرحد پر واقع دیالہ صوبے میں بھی دہشت گرد گھسنے میں کامیاب ہوئے لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ عراقی افواج نے عوامی حمایت کے ساتھ بیشتر علاقے دہشت گردوں سے آزاد کروا لئے ہیں۔

ترکی کے مذہبی کرد بھی شام و عراق میں داعش کا حصہ بنائے گئے، تاکہ ترکی پی کے کے کے کردوں کو کمزور کرکے داخلی مسائل پر قابو پاسکے۔ لیکن عام کرد داعش سے خوفزدہ ہیں۔ سنی عرب بھی داعش سے خوفزدہ ہیں۔ داعش نے صوفیوں کو بھی قتل کیا، خواتین اور بچوں کو بھی گولیوں سے بھون ڈالا، حتٰی کہ سگریٹ پینے پر لوگوں کو سزائے موت دی۔ داعش کے اس سفاکانہ کردار کے بعد کوئی دیوانہ ہی اس کی حمایت میں بولے گا۔ انہوں نے شام میں نواسی رسول اکرم (ص) جناب سیدہ بی بی زینب، صحابی رسول اکرم (ص) حضرت حجر بن عدی اور اویس قرنی کے مزارات پر بھی حملے کئے، راکٹ مارے۔ یکم جولائی کو سامرہ میں آئمہ اہلبیت کے حرم مطہر میں راکٹ آکر گرے۔ موصل میں شیعہ و سنی بزرگان کے مزارات کو بموں سے اڑا دیا گیا۔ کوئی اسلام پسند شخص ایسے قبیح اعمال انجام دینے والوں کے لئے نرم گوشہ نہیں رکھ سکتا۔

قطر میں مقیم سلفی عالم یوسف القرضاوی، شام اور عراق میں دہشت گردوں کی حمایت کیا کرتے تھے، لیکن جب داعش نے خلافت کا نعرہ بلند کیا ہے تو قرضاوی بھی بول اٹھے ہیں کہ یہ غیر شرعی بات ہے۔ انہیں اسلام کا مفاد تو عزیز نہیں تھا لیکن کھوکھلے ہی سہی، خلافت کے اس نعرے سے قطر سمیت عرب خاندانی بادشاہتوں کی حکومتوں کو بھی جھٹکا لگا ہوگا۔ اس لئے قرضاوی اپنے آقا قطری بادشاہ کے مفاد میں داعش کی خلافت کے خلاف بولتے وقت فراموش کرگئے کہ شام میں ان دہشت گردوں کی کارروائیوں کی خود انہوں نے حمایت بھی کی تھی۔ بہرحال یہ ڈرامے کبھی کبھی اس کا اسکرپٹ لکھنے والوں کو بھی بہت مہنگے پڑتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 397917
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
.Well done
Pakistan
Superb. Factual analysis.
ہماری پیشکش