0
Monday 27 Oct 2014 01:46
جو بھی امام حسین (ع) کا پیرو ہوگا وہ مظلوموں کا ساتھی ہوگا

طالبان کے نئے چہرے داعش کو مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی مکمل آشیرباد حاصل ہے، صاحبزادہ حامد رضا

طالبان کے نئے چہرے داعش کو مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی مکمل آشیرباد حاصل ہے، صاحبزادہ حامد رضا
صاحبزادہ حامد رضا سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین ہیں، آپ سنی اتحاد کونسل کے بانی چیئرمین صاحبزادہ فضل کریم کے فرزند ہیں۔ ابتدائی تعلیم پاکستان میں اور اعلٰی تعلیم انگلینڈ میں حاصل کی۔ صاحبزادہ فضل کریم کی وفات کے بعد انہیں قائم مقام چیئرمین منتخب کیا گیا، تاہم بعد ازاں مجلس شوریٰ کے فیصلے کے بعد انہیں باقاعدہ چیئرمین سنی اتحاد کونسل بنا دیا گیا۔ تاحال سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین کے منصب پر فائز ہیں۔ اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں، تکفیریت، دہشتگردی کیخلاف شروع سے ہی ایک واضح موقف رکھتے ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم، پاکستان عوامی تحریک اور مسلم لیگ قاف کے ساتھ حکومت مخالف تحریک کا حصہ ہیں، اسلام ٹائمز نے ملکی سیاست اور پاکستان میں داعش کی سرگرمیوں پر ان سے انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ان دھرنوں سے قوم کو کیا ملا ہے، اس پر کیا کہیں گے۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ فرسودہ، کرپٹ اور ظالم نظام کے حوالے سے قوم کے اندر شعور اور ایک احساس پیدا ہوا ہے۔ 66 برسوں سے پاکستان میں جاگیردار اور سرمایہ دار اقتدار میں ہیں، آج تک پاکستان کے اندر غریبوں، مزدوروں، کسانوں کا استحصال ہوتا رہا، متوسط طبقہ اور غریبوں کو حقوق نہیں دیئے گئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کبھی بھی قوم اسٹیٹس کو اور حکمرانوں کیخلاف اس طریقے سے سڑکوں پر نہیں نکلی جتنی اس بار نکلی ہے۔ پیپلز پارٹی کا جلسہ آپ کے سامنے ہے کہ پورے پاکستان سے لوگ جمع کرنے کے باوجود ساٹھ ستر ہزار سے زیادہ لوگ جمع نہیں کرسکے۔ بی بی سی کے مطابق پاکستان کی تاریخ کا سب سے مہنگا ترین جلسہ تھا، پٹواریوں اور سرکاری ملازمین کو جمع کیا گیا۔ ایک اطلاع کے مطابق پیپلزپارٹی نے اس جلسے پر ایک ارب روپے سے زائد خرچ کئے ہیں۔ اس کے باوجود اگر لوگ باہر نہیں نکلے تو یہ ہمارے ستر دن کے دھرنے کی بدولت ہی ایسا ہوا کہ لوگ ان نام نہاد پارٹیوں کی کال پر نہیں نکلے۔ ان پارٹیوں کا اگر مزید ساتھ دیا جائے گا تو عوام کا استحصال اسی طرح جاری رہے گا۔ یہ جو انقلاب کا نعرہ ہے، تبدیلی کا نعرہ ہے، جو آزادری کا نعرہ ہے، جو گو نواز گو کا نعرہ ہے، جو پروٹو کول کے ختم ہونے کا نعرہ ہے تو یہ ایک شعور ہے جو ان 70دنوں کی محنت نے دیا ہے، یہ ان شہداء کی دین ہے جنہیں بیگناہ ماڈل ٹاون میں شہید کر دیا گیا، ان شہداء کی طرف سے یہ عطا ہے جنہیں پارلیمنٹ کے سامنے شہید کر دیا گیا۔ یہ ان کے خون کا اور پھر وہ افراد جو ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہونے کے باوجود دھرنوں میں شریک ہوئے، کافی دنوں تک بیٹھے رہے، ان کی نوکریاں گئیں، گھر بار گیا، لیکن انہوں نے پوری قوم کو جگایا، یہ شعور ان کی محنتوں کا ثمر ہے، انشاءاللہ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ یہ نظام جلد بدلے گا۔

اسلام ٹائمز: تو کیا ہم جاوید ہاشمی کی شکست کو اس بیداری کا نتیجے قرار دیں گے۔؟

صاحبزادہ حامد رضا: ذاتی طور پر میں جاوید ہاشمی صاحب کی عزت کرتا ہوں، لیکن ان کے لئے جو باغی کا نعرہ لگایا جاتا ہے، اس سے میں نے کبھی اتفاق نہیں کیا، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب ہاشمی صاحب نے پہلی مرتبہ وزارت کا حلف اٹھایا تو وہ جنرل ضیاء کی کیبنٹ میں تھے، وہ جمہوریت پسند ہوتے تو کبھی ایک آمر کی گود میں جاکر نہ بیٹھتے، وزارت نہ لیتے اور حلف نہ اٹھاتے۔ یہ نعرہ میڈیا نے جاوید ہاشمی کو دیا ہے، جو میں سمجھتا ہوں کہ ایک سیاسی ورکر کو ملنا چاہیے تھا، حبیب جالب جیسے آدمی کو ملنا چاہیے تھا جو سرعام سڑکوں پر ڈنڈے بھی کھاتا رہا، جس نے ساری زندگی ضیاء کی آمریت کے خلاف گزار دی، تو یہ لفظ ’’باغی‘‘ انہیں ملنا چاہیے تھا۔ ہاشمی صاحب نے جو کچھ بھی کیا، اس کا منطقی انجام ان کے سامنے آگیا ہے، ہاشمی صاحب نے مسلم لیگ نون کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا، جماعت اسلامی کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا، فضل الرحمن کے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کیا، ان ساری پارٹیوں نے مل کر ایک ضمنی الیکشن لڑا، بڑی حد تک پیپلز پارٹی نے بھی سپورٹ کیا، اپنا امیدوار کھڑا کیا، تاکہ ووٹ تقسیم ہو جائے، لیکن اسکے باوجود لوگوں نے ہاشمی صاحب کے خلاف ووٹ دیا۔ پہلے تو میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ انہیں الیکشن ہی نہیں لڑنا چاہیے تھا۔ وہ عمر کے جس حصہ میں ہیں، اس عمر میں ان کو خدا اور اس کے رسول ؐ کو یاد کرنا چاہیے، جو زندگی میں کوئی گناہ ہوئے ہیں ان کی توبہ کرنی چاہیے، اللہ تعالٰی ان کو صحت عطا فرمائے، بیمار بھی ہیں تو اس عمر میں ان کا الیکشن لڑنا مناسب نہیں تھا۔ خیر الیکشن لڑ کر انہوں نے باغی پن کا انجام بھی دیکھ لیا۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم، سنی اتحاد کونسل، پاکستان عوامی تحریک، مسلم لیگ قاف، اقلیتی جماعتیں، کیا ہم اس اتحاد کو اسٹریٹیجک الائنس کہہ سکتے ہیں۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: نہیں ابھی اس حوالے سے یہ نہیں کہہ سکتے، ہم اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ کیونکہ جن جماعتوں کا آپ نے تذکرہ کیا ہے یہ جماعتیں اس وقت پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ کھڑی ہوئیں، جب سانحہ ماڈل ٹاون ہوا، پنجاب حکومت نے تاریخی ریاستی دہشتگردی کا مظاہرہ کیا، الٹا مظلوموں کیخلاف ایف آر درج کرا دی گئی، ایسی صورتحال میں ایم ڈبلیو ایم، سنی اتحاد کونسل اور دیگر کچھ لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ ہم تو نظریاتی لوگ ہیں، ہم نے ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیا اور جو بھی امام حسین علیہ السلام کا پیروکار ہوگا وہ مظلوموں کا ہی ساتھ دے گا، تو اس ایک خاص صورتحال میں ہم نے ساتھ دیا اور دنیا جانتی ہے کہ انقلاب مارچ میں ہم کس انداز میں لاہور سے اسلام آباد پہنچے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک علیحدہ پولیٹیکل پارٹی ہے، وہ الیکشن بھی لڑتی ہے، اس کی اسمبلی میں نمائندگی بھی موجود ہے، سنی اتحاد کونسل بھی پولیٹیکل پارٹی ہے، ہمیشہ الگ الیکشن لڑتی ہے۔ اس الیکشن میں ریگنگ کے باوجود ہمارے 22 کے قریب امیدوار پنجاب میں دوسرے نمبر پر رہے۔ پاکستان مسلم لیگ قاف ایک بڑی پولیٹیکل پارٹی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک نے اپنے آپ کو 2012ء کے الیکشن کے بعد سیاست سے علیحدہ کر دیا تھا۔ اب وہ دوبارہ سیاست کے اندر داخل ہوئے ہیں۔ اب یہ معاملات بیٹھ کر دیکھے جائیں گے کہ مستقبل میں کیا لائحہ عمل لایا جائے۔

اسلام ٹائمز: آئے روز ایل او سی اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت پر کیا کہیں گے۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: انڈین جارحیت کی ساری دنیا گواہ ہے کہ پاکستان پرائم منسٹر کے انڈیا کے ساتھ بزنس انٹرسٹ ہیں۔ میاں صاحب کے صاحبزادے حسین نواز نے انڈین بزنس مین کے ساتھ ساؤتھ افریقہ، امریکہ اور کینیڈا کے اندر کئی ملاقاتیں کرچکے ہیں، یہ راز اب کھل کر سب کے سامنے عیاں ہوچکا ہے۔ ہم واضح طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان اپنے ذاتی مفاد کیلئے ریاست کے مفاد کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ انڈیا نے جارحیت صرف لائن آف کنڑول پر نہیں کی۔ انڈیا نے پہلے آبی جارحیت کی، اس پر بھی ہم نے احتجاج نہیں کیا، ان سے نہیں پوچھ سکے۔ اب باڈر پر جتنے بھی لوگ شہید ہو رہے ہیں، اس پر حکومت نے اس انداز میں احتجاج نہیں کیا جس طرح سے کرنا چاہیے تھا، میں اسے حکومت کی ناکامی سے تعبیر کروں گا۔

اسلام ٹائمز: داعش کے بارے میں خبریں آ رہی ہیں کہ کراچی سمیت دیگر شہروں میں وال چاکنگ کی جا رہی ہے اور اس تنظیم کی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں، اس پر کیا کہیں گے۔؟

صاحبزادہ حامد رضا: جہاں تک داعش کے حوالے سے تعلق ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان کیخلاف آپریشن کا فیصلہ بھی حکومت کا فیصلہ نہیں تھا، یہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی بات تھی کہ وزیراعظم صاحب نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں آپریشن ضرب عضب کو قبول کر لیا اور اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔ ہم پہلے دن سے کہتے آرہے ہیں کہ ان لوگوں کا حقیقی چہرہ کسی نہ کسی دن بےنقاب ہوگا۔ اب داعش کا حقیقی چہرہ جب بےنقاب ہوگیا تو سوچنے کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی نے اتنا بڑا جلسہ کیا تو ان کے جو چیئرمین بلاول بھٹو صاحب ہیں وہ طالبان اور داعش کے خلاف اتنا کچھ بولے لیکن انہوں نے چیف منسٹر کو بغل میں بٹھایا ہوا تھا، اس سے یہ نہیں پوچھا کہ صوبہ سندھ کے دارالخلافہ میں وال چاکنگ کیسے ہوگئی، اس موومنٹ کے پیچھے کون ہے، اس حوالے سے انہوں نے ان سے تاحال کچھ نہیں پوچھا، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عناصر جو پہلے بھی طالبان کے حمایتی تھے وہ مرکزی، پنجاب اور سندھ حکومت میں بیٹھے ہوئے ہیں اور انہیں سپورٹ کرتے ہیں۔ آج چونکہ طالبان پسپائی اختیار کرچکے ہیں۔ ان کا کافی حد تک نیٹ ورک اور تنظیمی سلسلہ ٹوٹ چکا ہے تو ان کو نئی شکل میں بنایا جا رہا ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی مکمل آشیر باد انہیں حاصل ہے اور یہ جو انٹرنیشنل پلان ہے اسلام کے خلاف، یہ ہمارے حکمران اس میں برابر کے شریک ہیں۔
خبر کا کوڈ : 416618
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش