0
Friday 11 Apr 2014 06:01
سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے

بحرین کے پاس فوج اور پولیس کم ہے، پاکستانی اپنی جان پر کھیل کر بھی فرائض کو پورا کرتے ہیں، راجہ ظفرالحق

بحرین کے پاس فوج اور پولیس کم ہے، پاکستانی اپنی جان پر کھیل کر بھی فرائض کو پورا کرتے ہیں، راجہ ظفرالحق
سینیٹر راجہ ظفرالحق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین اور سینیٹ میں قائد ایوان ہیں۔ وہ مسلم لیگ نون کے سینیئر بزرگ رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ موتمر العالم الاسلامی میں بھی فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے حکومت طالبان مذاکرات، شام کے بحران اور دیگر اہم موضوعات پر راجہ ظفرالحق کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا، جس کا احوال قارئین کرام کیلئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: طالبان کیساتھ مذاکرات کا پہلا دور مکمل ہوا، کیا انکی طرف سے پیش کردہ شرائط قابل عمل ہیں۔؟
راجہ ظفر الحق: دیکھیں جی، جتنا ہوسکے گا انہیں Accomodate کرنے کی کوشش کی جائے گی، یہ طے ہے کہ ہم نے اس دہشتگردی اور خونریزی کو ختم کرنا ہے، اس کے لئے کچھ قیمت تو ہمیں ادا کرنا پڑے گی۔ اب کوشش یہی ہے کہ یہ مذاکرات کسی طریقے سے کامیاب ہوجائیں۔

اسلام ٹائمز: ہم نے دیکھا کہ طالبان کیساتھ مذاکرات کے بعد کچھ قیدی رہا کئے گئے، لیکن اس حوالے سے وفاق اور صوبائی حکومت کا موقف یکساں نہ تھا، اس کی کیا وجہ ہے۔؟

راجہ ظفر الحق: طریقہ کار پر اختلاف تھا، قیدی رہا کئے گئے، جس سے ماحول میں کچھ نرمی پیدا ہوئی۔

اسلام ٹائمز: طالبان کو کافی حد تک رعایت دی جا رہی ہے، کیا اب اس بات کی ضمانت دی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔؟

راجہ ظفرالحق: ہمارے کوشش ہے کہ ہم طالبان کو جتنا Accomodate کرسکتے ہیں کریں، ان کے جو جائز مطالبات ہیں انکو پورا کیا جائے۔ طالبان سے بھی یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ بھی اس کا مثبت جواب دیں گے۔

اسلام ٹائمز: اب تک ہونیوالے مذاکرات میں حکومت کیا سمجھتی ہے کہ طالبان کہاں تک سنجیدہ ہیں۔؟

راجہ ظفر الحق: اعتماد سازی کے لئے کافی وقت درکار ہوتا ہے، فوراً سارا کام نہیں ہو جاتا، رفتہ رفتہ فریقین ایک دوسرے کی بات سمجھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: طالبان حکومت مذاکرات کے دوران پاک آرمی کا کیا کردار رہا۔؟

راجہ ظفر الحق: آرمی کا یہ رول رہا کہ فیصلہ حکومت کرے گی، اور آرمی اس پر عمل درآمد کرے گی۔

اسلام ٹائمز: کیا آرمی کی جانب سے کوئی نمائندہ ان مذاکرات میں شریک تھا۔؟

راجہ ظفرالحق: As such تو نہیں تھا، لیکن مذاکرات سے قبل بھی آرمی سے بات چیت ہوجاتی تھی اور مذاکرات کے بعد بھی ان سے بات چیت کی جاتی تھی۔ آرمی کو ساتھ لیکر چلا جا رہا ہے۔ یہ سول حکومت کا اختیار ہے کہ مذاکرات کرے، جسے آرمی تسلیم کرتی ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ دیا گیا، جس پر کافی شور شرابہ ہوا، اسکی کیا وجہ ہے۔؟

راجہ ظفر الحق: یہ بہت افسوس ناک امر ہے، اگر کوئی آپ کو نہ دے تو آپ ناراض، اگر آپ کو کوئی دوست ملک کچھ دے دے تو آپ ناراض، سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے، تو اب یہ اچانک کیا ہوگیا۔

اسلام ٹائمز: چند رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اس تحفہ کے بدلے ہمیں بھی کچھ دینا ہوگا، کچھ لو کچھ دو کا معاملہ کہاں تک درست ہے۔؟

راجہ ظفر الحق: کوئی ایسی بات نہیں ہے، کسی قسم کی افرادی قوت وغیرہ نہیں دی جا رہی۔ مظفر آباد میں اگر زلزلہ آئے اور آپ کسی ملک سے کچھ لے لیں تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کے پس پردہ کوئی سازش ہے۔

اسلام ٹائمز: امریکی سی آئی اے چیف کا واضح بیان آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سے لوگ شام روانہ ہو رہے ہیں۔؟

راجہ ظفر الحق: دیکھیں جی اگر پاکستان سے لوگ جا رہے ہیں تو وہ القاعدہ کا عنصر کارفرما ہے۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ القاعدہ کے لوگ جا رہے ہیں یا نہیں جا رہے۔

اسلام ٹائمز: اس سے قبل بھی باقاعدہ طور پر اداروں کے ذریعہ پاکستان سے فوجیوں کو بحرین بھیجا گیا، جہاں انہوں نے مسلمانوں کے خون میں ہاتھ رنگے، اس حوالہ سے کیا کہیں گے۔؟

راجہ ظفر الحق: بحرین کے پاس فوج اور پولیس کم تھی، انہوں نے لوگ مانگے ہیں۔ صرف پاکستان سے ہی نہیں باقی ممالک سے بھی لوگ وہاں گئے اور وہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔ انہیں اعتماد ہے کہ پاکستان لوگ ہمدرد ہوتے ہیں، انہیں جو فرائض سونپے جاتے ہیں وہ انہیں اپنی جان پر کھیل کر بھی پورا کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: شام کے حوالہ سے ہماری خارجہ پالیسی کی سمت تبدیل ہوئی، اسکی کیا وجہ ہے۔؟

راجہ ظفر الحق : شام کے حوالہ سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی گئی۔ مثلاً کیا تبدیلی کی گئی۔؟

اسلام ٹائمز: اس سے قبل ہم شام میں دہشتگردانہ کارروائیوں کی مذمت کرتے اور اس معاملہ کو شام کا اندرونی معاملہ قرار دیتے لیکن اب وہ مذمت نظر نہیں آرہی۔؟

راجہ ظفر الحق: ایسی بات نہیں ہے، اس معاملہ پر جنیوا میں دو کنونشن ہوئے، سب ممبر ممالک ان مذاکرات میں شامل تھے۔ پاکستان اپنے آپ کو اس کا پابند سمجھتا ہے۔ وزارت خارجہ نے بھی یہی کہا کہ ہمارا موقف جنیوا معاہدہ کے مطابق ہے۔

اسلام ٹائمز: اسوقت شام کے بحران کے حوالہ سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا ہے۔؟

راجہ ظفر الحق: پاکستان کی خارجہ پالیسی اس وقت یہی ہے کہ اس معاملہ میں کسی طرح سے بھی بیرونی مداخلت نہ ہو۔ نہ حکومت کے حق میں اور نہ ہی لڑنے والے لوگوں کے حق میں، ہمیں اس آگ کو بجھانا چاہیے۔ اس میں فرقہ واریت کا جو پہلو شامل ہوچکا ہے، یہ آگ کہیں پوری اسلامی دنیا کو بالخصوص خلیج کو اپنی لیٹ میں نہ لے لے۔

اسلام ٹائمز: آپ موتمر العالم الاسلامی کے بھی رہنما ہیں، مسئلہ شام کی بنیاد پر عالم اسلام میں افتراق پیدا ہوا، آپکے ادارہ کا اس حوالہ سے کیا کردار رہا۔؟

راجہ ظفرالحق: پاکستان بالخصوص اور باقی اسلامی دنیا باالعموم اس فرقہ واریت کے ہاتھوں دقت کا سامنا کرسکتے ہیں۔ یہ ایک آگ ہے، اسے کسی طرح بند ہونا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 371618
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش