0
Sunday 20 Jul 2014 19:26

جنسی جہاد پر عراقی خواتین کا ردعمل

نام نہاد خلافتوں نے اسلام کو مشکوک بنا دیا ہے
جنسی جہاد پر عراقی خواتین کا ردعمل
رپورٹ: ایس این حسینی

عالم اسلام میں حالیہ دنوں میں اسلام کے نام پر خلافتوں کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے، جنہوں نے اسلام کا بچا کچھا وقار بھی خاک میں ملا دیا ہے۔ داعش والوں نے عراق میں اپنی خلافت، جبکہ النصرہ نے شام میں اپنی خلافت کا اعلان کر رکھا ہے۔ اسلام کے نام پر قائم کی جانے والی ان خلافتوں کے لئے ایسے اصول وضع کئے گئے ہیں کہ جنہوں نے اسلام کے مقدس وجود کو داغدار بنا دیا ہے۔ جس سے اسلام نہ فقط غیروں کی نظروں میں بلکہ خود مسلمانوں، بالخصوص متاثرہ افراد کی نظروں میں مشکوک بن رہا ہے۔ اگرچہ یہ اسلام کا قصور نہیں بلکہ نام نہاد مسلمانوں کا قصور ہے، تاہم لوگ انجانے میں اسکو اسلام کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے اسلام ہی کو قصور وار قرار دیتے ہیں۔

خود کو مجاہدین ظاہر کرنے والے یہ گروہ جہاں کہیں بھی یلغار کرتے ہیں، انکی توجہ کا محور خواتین، اور اپنی جنسی تسکین ہی ہوا کرتی ہے۔ آج کل کے، بزعم خود، ان مجاہدین کو کفار خصوصاً اسرائیل کے مظالم نظر نہیں آرہے، انہیں اسرائیل کی کمک کرنے والے ان بے شرم عرب ممالک کی حالت بھی نظر نہیں آرہی، جن کی وجہ سے اسرائیل اور امریکہ نے عراق اور شام میں انہی مسلمانوں کے ہاتھوں یہ کھیل شروع کر رکھا ہے۔

عراق کے شمالی علاقے جہاں سنی اور کرد آباد ہیں، کے متعلق رونگٹے کھڑے کر دینے والی خبروں سے آپ واقف ہونگے۔ الداعش کے شرپسندوں نے اپنی کارروائیوں کی ابتداء میں، خوف پیدا کرنے کے لئے مقامی لوگوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا، تاکہ لوگوں پر دباؤ ڈال کر انہیں کسی بھی ردعمل کے اظہار سے عاری بنا سکیں۔ اسکے بعد انہوں نے مساجد اور صحابہ کرام کے مزارات کو مسمار کرنا شروع کردیا۔ اسکے ساتھ ہی انہوں نے خواتین کو نام نہاد جہادیوں سے نکاح سیار یا جہاد النکاح کرنے کی مہم شروع کر دی۔

چھوٹی چھوٹی بچیوں تک کو اس گھناونے فعل پر مجبور کیا گیا، 12 سے لیکر 14 سال کی نوجوان بچیوں تک کو جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک بچی سے کئی درجن افراد نے اپنا منہ کالا کیا، جنہوں نے بعد اپنی خفت مٹانے کی غرض سے خود کشی کرلی جبکہ یہ کوئی نئی بات بھی نہیں، یہ تجربات اس سے قبل شام میں دھرائے جاچکے ہیں، وہاں تو بیشتر سپلائی بیرونی ممالک سے ہوتی رہی، اس حوالے سے مراکش نے بڑا نام پیدا کیا۔

الداعش کی ان مذموم کارروائیوں کے حوالے سے عراق سے متعلقہ کچھ سرکاری اداروں اور دیگر اہم افراد کے تاثرات حاصل کرکے پیش کئے جا رہے ہیں۔
عراقی شہریوں اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی گروپوں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ الداعش عراقی خواتین پر فرسودہ اور استحصالی قوانین مسلط کرنے کے ذریعے ان پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

لبنان میں مقیم عراقیوں نے ‘‘الشرفہ’’ سے گفتگو میں کہا ہے کہ انہیں یہ جان کر سخت صدمہ پہنچا ہے کہ الداعش کی جانب سے شمالی عراق میں خواتین کو "جنسی جہاد" کے لئے اپنے جنگجوؤں سے نکاح کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ رواں ماہ کے اوائل میں عراقی وزارت برائے انسانی حقوق نے کہا تھا کہ اسے الداعش کے ہاتھوں عراقی خواتین کے حقوق کی پامالی کے متعدد واقعات کی اطلاع ملی ہے۔ وزارت کے ترجمان کمال امین نے کہا کہ ان میں متعدد خواتین کو اپنے گروپ کے جنگجوؤں کی جنسی خواہشات کی تسکین پر مجبور کرنا (جنسی جہاد) اور نہایت ہی کم عمر لڑکیوں کی اپنے جنگجووں سے شادیاں کرانا شامل ہیں۔
 
اسکے علاوہ رواں ماہ ہی اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ کے خواتین کے لئے کام کانے والے ادارے کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر فومزيل ملامبونكوكا نے کہا تھا کہ چار عراقی خواتین نے جنسی زیادتی یا الداعش کے جنگجوؤں سے جبری شادی کے بعد خود کشی کرلی تھی۔ 
اس حوالے سے مونا کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہایت ذلت اور بدنامی کا باعث ہے۔ 21 سالہ عراقی خاتون مونا جو کہ بیروت کی ایک یونیورسٹی میں ہوٹل منیجمنٹ کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور گذشتہ سات سالوں سے اپنے خاندان کے ہمراہ لبنان میں مقیم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اکیسویں صدی میں ہم دہائیوں کو اس طرف واپس نہیں موڑ سکتے جس کا پرچار الداعش کر رہی ہے۔ الداعش اور اسکی نام نہاد خلافت مذہب کا نام استعمال کرکے ہم پر حکومت نہیں کرسکتی اور نہ ہی ایسے قوانین ہم پر نافذ کرسکتی ہے جن کا انسانی حقوق سے کوئی تعلق نہیں۔ اسکے علاوہ وہ عراقی خواتین پر توہین آمیز قوانین بھی مسلط نہیں کرسکتے۔
 
وقار اور اصولوں کی خلاف ورزی
مونا کے بھائی زین، جو کہ یونیورسٹی پروفیسر ہیں، نے کہا کہ نینوا اور موصل میں الداعش کے ہاتھوں لڑکیوں سے سلوک، وقار اور اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنسی جہاد عراقی روایات کا حصہ نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ واضح طور پر عصمت فروشی ہے اور سفلی خواہشات کا ردعمل ہے۔ زین نے عراقی معاشرے پر زور دیا کہ وہ اس "بدعنوان اور گھناؤنے" عمل کی مخالفت کریں۔ انہوں نے کہا کہ الداعش ایک ایسی خلافت قائم کرنا چاہتی ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں، کیونکہ اسلام تو مردوں کا احترام کرتا ہے اور خواتین کے حقوق کا بھی تحفظ اور احترام کرتا ہے۔

بیروت میں قائم یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی میں کاروباری انتظام و انصرام کی تعلیم حاصل کرنے والی ایک طالبہ اسیل فلیح نے کہا کہ عراقی عوام ایسی خلافت کے ماتحت زندگی نہیں گزار سکتے، جو جدید زندگی کا خاتمہ کر دے اور سماجی قوانین کی عملداری کو کمزور کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے عراق کو ایسے قوانین کے حوالے نہیں کریں گے، جن میں خواتین کی تذلیل اور انکے وقار کو کمزور کیا جا رہا ہو۔ ہم اس مہذب زندگی کو ترک نہیں کریں گے جو ہم نے حاصل کی ہے۔
خبر کا کوڈ : 400562
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش