0
Thursday 31 Oct 2013 14:40

ایلن گریسن ڈرون کو پاکستان کی رضا مندی کہتے ہیں!

ایلن گریسن ڈرون کو پاکستان کی رضا مندی کہتے ہیں!
تحریر: طاہر یاسین طاہر

ملکوں کے درمیان تعلقات باہمی مفادات پر قائم ہوتے ہیں اور پھر ان مفادات کی بنیاد پر کوئی دلکش عمارت تعمیر ہونے کی امید نظر آئے تو ان تعلقات کو باہمی اعتماد نامی کسی غلاف میں لپیٹ کر اس رشتے اور دوستی کا چرچا کیا جاتا ہے۔ مگر پاکستان پیچیدہ صورتحال کو جنم دینے میں ثانی نہیں رکھتا۔ ہمارے ہاں سیاست کار خارجہ تعلقات کو بھی ذاتی ’’دوستی‘‘ کی عینک سے دیکھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پہلو بدل بدل کو اپنے عوام سے جھوٹ بولنے میں مہارت رکھنے والوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ اس تازہ صورتحال سے کیسے نمٹیں۔؟ وہ جو کہتے تھے کہ ہم اقتدار میں آتے ہی ڈرون حملے رکوا دیں گے اور اگر امریکہ نے نہ روکے تو ہم مار گرائیں گے۔ ڈرون حملوں پر سیاست کرنے والے لیکن اب کیا کریں گے؟ وہ جو ہر برائی کی جڑ سابق آمر جنرل (ر) مشرف اور پی پی پی کی حکومت کو قرار دیتے ہیں؟ وہ جو لوگوں کے جذبات سے کھیلتے اور کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ہم اقتدار میں آکر ’’قوم کی بیٹی‘‘ عافیہ صدیقی کو بھی رہا کرا لیں گے، ان کے لیے تو امریکی کانگریس میں ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ایک رکن ایلن گریسن نے مشکل پیدا کر دی۔
 
واقعی امریکی بڑے بے لحاظ ہوتے ہیں، ذرا خیال نہ کیا کہ وزیراعظم پاکستان ابھی ’’کل‘‘ ہی تو امریکی صدر سے ڈرون حملے بند کرنے کا ’’مطالبہ‘‘ کرکے وطن واپس لوٹے ہیں، اور پاکستانیوں کو تسلسل سے یہ بتا رہے ہیں کہ انھوں نے امریکی صدر پر ’’واضح‘‘ کر دیا کہ امریکہ کی طرف سے کئے جانے والے ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہیں۔ ایلن گریسن نے کہا کہ ’’اگر پاکستان چاہے تو ڈرون حملے کل ہی بند ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بغیر پاکستان کی منظوری کے اس طرح کے حملے نہیں ہوسکتے۔ بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کانگریس کے ڈیموکریٹ ممبر ایلن گریسن نے کہا کہ انھیں اوباما انتظامیہ کی طرف سے کسی طرح کے شواہد نہیں ملے ہیں کہ سال کے آخر تک پاکستان میں ڈرون حملوں میں کوئی کمی آئے گی۔‘‘ 

لیکن ہمیں یاد ہے کہ وزیرِاعظم نواز شریف کے امریکہ کے دورے کے بعد خارجہ امور کے لئے ان کے مشیر سرتاج عزیز نے صحافیوں سے کہا تھا کہ ڈرون حملوں کو بند کرنے کا امریکہ کی طرف سے کوئی رسمی اعلان نہیں ہوگا لیکن سال کے آخر تک ان میں کافی کمی آ جائے گی۔ ایلن گریسن کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان امریکی ڈرونز کو سہولت دے رہا ہے، اگر وہ یہ سہولت دینا بند کر دے تو کوئی وجہ نہیں کہ ڈرون حملے جاری رہیں۔ پاکستانی ایئر فورس کافی طاقتور ہے اور اس کے پاس قوت ہے، اپنی فضائی سرحد پر وہ جب چاہے پابندی لگا سکتے ہیں۔ پاکستان کی منظوری کے بغیر اس طرح کی کارروائی ممکن ہی نہیں ہے۔ انھوں نے عراق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عراق کی جنگ اسی وقت ختم ہوئی جب وہاں کی حکومت نے امریکی فوج سے وہاں سے جانے کے لئے کہہ دیا۔ ممکن ہے کہ پاکستان میں بھی ایسے حالات پیدا ہوں گے اور تبھی وہاں ڈرون حملے بند ہوں گے۔‘‘ 

مجھے نہیں معلوم کہ ڈرون حملے پاکستان کی رضا مندی سے ہو رہے ہیں یا امریکہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر ایسا کر رہا ہے، مگر مجھے یہ معلوم ہے کہ جب بھی کوئی ڈرون حملہ ہوتا تھا تو اپوزیشن جماعتیں سابق حکومت کو خوب آڑے ہاتھوں لیتی تھیں۔ آج مگر ان کی حالت قابلِ رحم ہے۔ وہ جو دوسروں کو دلیری، بہادری اور قومی غیرت وغیرہ کا سبق یاد کرایا کرتے تھے، آج امریکہ کے ڈرون حملوں کے لیے جواز تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کبھی یہی لوگ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو جواز بنا کر کہا کرتے تھے کہ سوات میں آپریشن کے نام پر انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے۔ آج جب یہ تنظیم کہہ رہی ہے کہ ’’اسے ملنے والے نئے ثبوت سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ امریکہ نے ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان میں غیر قانونی طور پر شہریوں کو ہلاک کیا، جس میں سے بعض جنگی جرائم کے زمرے میں بھی آتے ہیں۔‘‘ تو یہ آگے بڑھ کر امریکہ کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔

امریکہ نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ آنے پر کہا تھا کہ وہ عالمی قوانین پر عمل در آمد کے معاملے میں غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کرتا ہے۔ امریکی مؤقف ہماری حکومت کو اس قدر پسند آیا کہ انھوں نے امریکہ کا ’’دفاع‘‘ کرتے ہوئے سینٹ میں جو رپورٹ پیش کی، اس کے مطابق امریکہ نے 2008ء سے 2013ء کے دوران 317 ڈرون حملے کیے، جن میں 2160 دہشت گرد اور 67 عام شہری ہلاک ہوئے۔ سب سے زیادہ حملے 2010ء میں ہوئے، جن کی تعداد 115 تھی۔ اس رپورٹ میں اہم انکشاف یہ ہے کہ گذشتہ دو سالوں میں ہونے والے ڈرون حملوں میں ایک بھی عام شہری ہلاک نہیں ہوا۔ سادہ بات یہ ہے کہ پاکستان میں سنہ 2004ء سے ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری ہے، نیو امریکہ فاونڈیشن نامی تھنک ٹینک کے مطابق پاکستان میں رواں سال کے دس ماہ کے دوران بیس ڈرون حملے کئے گئے ہیں، جن میں سترہ شمالی اور تین جنوبی وزیرستان میں کئے گئے۔ 

امریکی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں 104 سے 127 افراد ہلاک ہوئے، جن میں صرف تین سے پانچ عام شہری تھے، جبکہ ایلن گریسن کہہ رہا ہے کہ ڈرون حملوں میں مارے جانے والے عام شہریوں کو معاوضہ دیا جائے۔ لیکن ہماری حکومت نے قصہ ہی تمام کر دیا، کہا دو سالوں میں کوئی عام شہری ہلاک ہی نہیں ہوا۔ سوال مگر یہ ہے کہ اگر حملے پاکستان کی اجازت سے ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی ایسے ہائی ویلیو ٹارگٹس ہیں، جنھیں پاکستان امریکی ٹیکنالوجی کی مدد کے بغیر حاصل نہیں کرسکتا، اور اگر ایسی بات نہیں تو پھر حملے کرنے کی اجازت دینے کا جواز کیا ہے۔؟
 
اگر گذشتہ دو سالوں میں کوئی عام شہری ہلاک نہیں ہوا تو نبیلہ جو کہہ رہی ہے، اور جسے امریکی ایوانِ نمائندگان کی خارجہ کمیٹی نے بڑے غور اور ہمدردی سے سنا، کیا یہ سب غلط ہے؟ درست ہے کہ ڈرون حملوں میں دہشت گرد مارے جاتے ہیں، لیکن یہ بھی اتنا ہی درست ہے کہ ان حملوں کا شکار عام افراد بھی ہوتے ہیں۔ ایک طرف وزیرِاعظم صاحب پوری دنیا میں کہتے پھر رہے ہیں کہ ڈرون حملوں میں عام شہری ہلاک ہو رہے ہیں تو دوسری طرف حکومت نے سینٹ میں ایسی رپورٹ پیش کر دی جو پاکستانی کے بجائے امریکی مؤقف کی حمایت کرتی ہے۔ جگر مراد آبادی کو کیا پڑی تھی کہ ایسا شعر کہہ گیا
پیتا بغیر اذن یہ کب تھی مری مجال
در پردہ چشمِ یار کہ شہ پا کے پی گیا
 

معاملہ ملکی و قومی خود مختاری کی پامالی کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کی ہلاکت کا بھی ہے، جس پر پاکستان کو اعتراض ہے، لیکن ایلن گریسن نے تو کہہ دیا کہ ڈرون حملے پاکستان کی خواہش پر ہی ہو رہے ہیں اور اگر پاکستان چاہے تو یہ حملے کل ہی رک سکتے ہیں۔ ایلن گریسن کے بیان کی روشی میں دیکھا جائے تو ابھی تک پاکستان یہ نہیں چاہ رہا کہ حملے رک جائیں، کیونکہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں ایک مکان کو نشانہ بنایا گیا، جس میں کم از کم تین افراد ہلاک ہوئے۔ حملے کے بعد دفترِ خارجہ کے ترجمان اعزاز چوہدری نے بیان میں کہا ہے ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت اور علاقائی خود مختاری کیخلاف ہیں اور’’ڈرون حملوں میں بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں۔‘‘

بیان میں امریکہ کو یہ یاد دہانی بھی کرائی گئی کہ ڈرون حملے دہشتگردی کے خلاف جنگ پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں اور یہ حملے خطے میں امن و استحکام کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘‘ مجھے نہیں پتہ کہ امریکیوں کو اردو سمجھ آتی ہے یا نہیں، لیکن وہ جو اٹھتے بیٹھتے کہتے ہیں ’’اے طائرِ لاہوتی‘‘ کیا وہ غالب کو بھی پڑھتے ہیں؟
شرمِ رسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں
ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے
خاک میں ناموسِ پیمانِ محبت مل گئی
اٹھ گئی دنیا سے راہ و رسمِ یاری ہائے ہائے 

امریکیوں سے کسی خیر کی توقع ہی کیوں؟ فرمایا مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا، مگر کوئی مومن ہو تو؟ حکومت سمجھ ہی نہیں پا رہی کہ ڈرون پر کیا مؤقف اختیار کرے اور دہشت گردوں سے کیسے نمٹے۔ قومی وقار، ملکی خود مختاری اور سالمیت جیسے ترلے امریکہ تو ماننے سے رہا۔ ضروری ہے کہ حکومت اس وجہ کو ختم کرنے میں دلیرانہ مؤقف اختیار کرے، جس وجہ سے یہ حملے ہو رہے ہیں۔ حکمران یاد رکھیں کہ اب وہ ایک وقت میں ایک ہی فریق کو راضی رکھ سکیں گے، یا پاکستانی عوام یا پھر طالبان اور امریکہ۔
خبر کا کوڈ : 316151
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش