0
Saturday 22 Jun 2013 21:35

اگر سیاست کو دین سے نکال دیا تو چنگیزیت رہ جائیگی، عامر حسین نقوی

بدقسمتی سے پورے ہندوستان میں نہ کوئی سیاسی رہنما ہے اور نہ ہی کوئی دینی قائد
اگر سیاست کو دین سے نکال دیا تو چنگیزیت رہ جائیگی، عامر حسین نقوی
نئی دہلی میں سالہا سال سے فعال ترین رول نبھا کر سید عامر حسین نقوی نے اپریل 2011ء میں ادارہ ندائے حق کی بنیاد رکھی، ادارہ ندائے حق دہلی بھر میں اہم پروگرامز و سیمینارز کا انعقاد کرتا آیا ہے اور ان پرگرامز کا محور و مرکز اسلامی بیداری اور دینی شعور کو اجاگر کرنا ہوتا ہے، اس ادارے کے ساتھ ہندوستان کے اہم اشخاص جڑے ہوئے ہیں جو اپنی ہمہ جہت صلاحیتوں سے ادارے کو کم مدت میں بلندی تک پہنچانے میں کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے ادارہ ندائے حق کے سربراہ عامر حسین نقوی سے ایک خصوصی ملاقات کے دوران بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے حالات، دینی شعور، علمی پیشرفت کے ساتھ ساتھ منفی پہلووں کے بارے میں انکے خیالات جاننا چاہے جو قارئین کرام کے پیش خدمت ہیں۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: ادارہ ندائے حق کے کیا اہداف و مقاصد ہیں، انکے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟
عامر حسین نقوی: اس ادارے کے کچھ Short Term  اور کچھ Long Term ایجنڈاز ہیں، اور ادارہ کا بنیادی مقصد عوام میں دینی شعور پیدا کرنا ہے، دنیا میں اگر دیکھا جائے تو آج کل Tradition زیادہ نظر آرہا ہے، بھارت میں مسلمانوں کے درمیان ہندوئیت زیادہ حائل ہو گئی ہے، اگر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ عزاداری بھارت اور پاکستان میں ہوتی ہے، مگر آج دین کی جو شکل بگڑ گئی ہے وہ سب سے زیادہ ان ہی ممالک میں بگڑ گئی ہے، پاکستان کے ایک طبقے میں اب بیداری آ گئی ہے اور انہوں نے اپنا صحیح راستہ چن لیا ہے لیکن بھارت میں ابھی اس سلسلہ کا پہلا قدم بھی نہیں اٹھا ہے، اب بھارتی عوام کو صحیح راستے پر لیکر آنا اور لوگوں کو دین کی صحیح شناخت کروانا کہ دین صرف نماز و روزہ کا نام نہیں بلکہ دین کا مطلب ہے اسلام کو مکمل طور پر اپنے اوپر لاگو کرنا۔ بدقسمتی کہ بات ہے کہ بھارت میں دین کو سیاست سے الگ رکھا جاتا ہے اور دین و سیاست الگ سمجھا جاتا ہے، یعنی دین اپنی جگہ اور سیاست اپنی جگہ، ہماری کوشش اور ہمارے ادارے کا مقصد یہی ہے کہ لوگوں کو آگاہ کیا جائے کہ سیاست ہی دین ہے اور سیاست کو دین سے الگ نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہ علامہ اقبال (رہ)  کہتے ہیں کہ اگر آپ نے سیاست کو دین سے نکال دیا تو چنگیزیت رہ جائے گی اور اگر دین کو سیاست سے الگ کردیا تو خانقاہیت رہ جائے گی۔

اسلام ٹائمز: بیداری امت کے سلسلے میں ابھی تک آپ کا رول کیا رہا ہے۔؟
عامر حسین نقوی: دیکھئے پچھلے چند سالوں سے ہمارا یہی کام رہا ہے کہ عوام کو دینی Awareness فراہم کریں جو بھی چیزیں ہمارے ممبروں سے بیان نہیں ہوتی ہیں ان چیزوں کے بارے میں عوام کی آگاہی کے لئے پروگرامز ترتیب دیئے جاتے ہیں، قرآن کہ جو ہمارے لئے ضابطہ حیات ہے لوگ اسے بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں، اس سلسلے میں ہم نے قرآن فہمی کی کلاسز اور پروگرامز رکھے ہیں، تاکہ لوگ قرآن میں بیان کئے گئے اصولوں پر سختی سے پابندی کریں، اور اپنی زندگی قرآنی ضابطوں کے عین مطابق گزاریں، دوسرے یہ کہ ہم نے تعلیمی پروگرامز مختلف سطحوں پرکئے، ہماری قوم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے وہ western  نظام تعلیم کو ہی Modern  تعلیم سمجھتے ہیں، جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے، آج ہمارے بچوں کو قرآنی درس تو دور کی بات ہے نماز تک کی تعلیم نہیں دی جاتی ہے، اس صورت میں ہماری نئی نسلیں قرآن کے نور سے کس طرح فیضیاب ہو سکتی ہیں، اللہ نے ہر انسان پر تعلیم حاصل کرنا واجب قرار دیا ہے مگر کون سی تعلیم اور کون سا علم انسان کو حاصل کرنا ہے، کوئی بھی تعلیم اگر دین سے خالی ہے تو وہ تعلیم مشکلات پیدا کرتی ہو، میں سمجھتا ہوں کہ Islamic education  ہی ایسا تعلیمی نظام ہے جس سے ہمارا آج، ہمارا مستقبل روشن ہو سکتا ہے، اور ہماری عاقبت سنور سکتی ہے، اور راہ نجات ہمارے لئے ہموار ہو سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: دہلی میں نوجوانوں کا کیا کردار ہونا چاہیئے، اور ان کے موجودہ رول کو آپ کن الفاظ میں بیان کریں گے۔؟

عامر حسین نقوی: جہاں تک میں جانتا ہوں کہ بہت سارے نوجوان ایسے ہیں جو اپنی زندگی میں مست و مگن ہیں وہ مشقت بھری چیزوں کی طرف سوچنے کی ضرروت ہی نہیں سمجھتے، وہ اپنا انشورنس ساٹھ سال تک کروا لیتے ہیں اپنے بچوں کا انشورنس کروا لیتے ہیں جیسا کہ انہیں معلوم ہے کہ وہ ساٹھ سال تک زندہ رہیں گے، عام عوام اپنے بچوں کے بیس یا تیس سال بعد کی پلاننگ کر کے رکھتے ہیں، موت کو فراموش کیا جا رہا ہے، اس وقت ہندوستان کا نوجوان طبقہ مادیت پرست ہو گیا ہے، ہر ایک نوجوان مادی و مستقبل سازی کی طرف بھاگ رہا ہے کیونکہ اس کو یقین ہے کہ ہماری زندگی میں ایسی کوئی مشکل ہے ہی نہیں، ان کا ماننا ہے کہ اگر انہیں ان چیزوں کے بارے میں سوچنا ہے تو ساٹھ سال بعد سوچیں گے، پہلے اپنا اور پھر اپنے بچوں کا مسقبل سنوارنے کی فکر انہیں لاحق ہوتی ہے، اس کے بعد دینی ذمہ داریوں، دینی اصولوں اور اسلامی حقوق و احکامات کے بارے میں فکر کریں گے، ایک اور وجہ بھارت میں رہنے والے لوگوں کی دینی پسماندگی بھی ہے، بہت کم لوگ ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ معاشرے کے لئے کچھ کام کیا جائے، اور وہ نوجوان جو اسلامی بیداری و دینی شعور کے قائل ہیں ان کے سامنے جو دقت آتی ہے وہ لیڈر شپ ہے، جو بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے بہت بڑا المیہ ہے، ہماری بدقسمتیی ہے کہ اتنے بڑے ہندوستان میں ایک بھی مرجع تقلید نہیں ہے، اگر بھارت میں ایک مرجع، ایک دینی پیشوا ہوتا تو ہو سکتا ہے کہ یہاں کے حالات یہاں کے نوجوانوں کے حالات مختلف ہوتے۔

دوسرا المیہ یہ ہے کہ ہمارا کوئی سیاسی لیڈر بھی نہیں ہے، بھارت میں اہل تشیع کا اپنا کوئی سیاسی قائد نہیں ہے، رہنما نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے عوام الگ الگ بٹے ہوئے ہیں، اگر دیکھا جائے تو دہلی اور اطراف میں بہت ساری چھوٹی بڑی تنظیمیں ہیں جو فعال ہیں مگر ان تمام تنظیموں میں کچھ لوگ ہی Active ہوتے ہیں، باقی سب غیر فعال رہتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان سب لوگوں کا ایک لیڈر و قائد ہوتا تو وہ قائد ان سب کو اکٹھا کرکے معاشرے کو ترقی و سربلندی کی طرف لے جاتا، مگر بدقسمتی سے پورے ہندوستان میں نہ کوئی سیاسی رہنما ہے اور نہ دینی قائد، قیادت کے فقدان کی وجہ سے نوجوانوں کی صلاحیت اور شعورِ بیداری بیکار جا رہا ہے، اور ان کی ترقی و کامرانی کی امیدیں ضائع ہوتی نظر آ رہی ہیں، جس کے لئے زودتر علاج کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: کیوں ہمارے نوجوان دوسرے کلچرز کی طرف مائل ہوتے ہیں۔؟

عامر حسین نقوی: ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے پاس دین کی صحیح شناخت نہیں ہے،  اس دین مبین کی صحیح شناخت ابھی تک نہیں کرائی گئی ہے، جس کسی کو بھی دین اسلام کی شناخت ہو گی، علمیت و آگاہی ہو گی، وہ کبھی دوسرے کلچرز کی طرف یا مغرب پرست و مادیت کی طرف راغب نہیں ہو گا، لیکن یہاں دین کے معاملے میں بہت زیادہ جہالت ہے اگر ہم اسلام کے بنیادی اصولوں اور احکامات کی طرف رجوع کریں تو ہمارے تمام مسائل کا حل ضرور ملے گا، ہم نے دین مبین، احکامات اسلام، بنیاد دین، مراجع کرام، طاقت حق اور اہمیت اسلام کو نہیں سمجھا ہے، یہ وجہ ہے کہ ہماری نئی نسل بھٹک رہی ہے اور دوسرے مذاہب کی طرف راغب ہو رہے ہیں، دین اسلام اور احکامات اسلام ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا بھارتی مسلمانوں کو کسی خاص مقصد کے تحت دینی امور سے روکا جا رہا ہے۔؟

عامر حسین نقوی: اگر دیکھا جائے تو دوسرے مسلم ممالک کے مقابلے میں بھارتی مسلمان اپنے آپ کو بظاہر محفوظ تصور کرتے ہیں، یہاں قتل و غارت اتنی عام نہیں ہے کہ جتنی دوسرے مسلم ممالک میں، اور اگر بھارت میں ہمیں کبھی نشانہ بنایا بھی جاتا ہے تو بحثیت ایک مسلمان، نہ ایک خاص فرقے سے وابستگی کی بنا پر، اگر کبھی کوئی سانحہ پیش آتا ہے تو ہمیں بحیثت شیعہ یا سنی نشانہ نہیں بنایا جاتا ہے بلکہ بحیثت مسلمان، اس لئے ہمیں بھی اس مسلمان نام کی بقاء کے لئے مجتمع ہونا چاہیئے۔ دین مبین سے ہمیں کوئی منحرف نہیں کر سکتا ہے، دین مبین اسلام کی پیروی کرنا ہمارے اختیار میں ہے، بابری مسجد کا سانحہ ہو یا گجرات کا خونین واقعہ یا پھر آسام کے واقعات ان سبھی میں ہمیں بطور مسلمان، بحثیت مسلمان مارا گیا، ہم مسلمان ہیں یہی ہماری شناخت ہے۔

اسلام ٹائمز: آئندہ بیس سالوں میں آپ بھارتی مسلمانوں کو کہاں دیکھنا چاہتے ہیں۔؟

عامر حسین نقوی: دیکھئے قوم کی ڈائرکشنز تبدیل ہو رہی ہیں، قوم اب اسلام ناب کی جانب مائل ہو رہی ہے، وہ دن بھی تھے کہ جب لوگ ممبروں سے بیکار کی باتیں سن کر لذت محسوس کرتے تھے لیکن اب وہی لوگ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے ذاکرین سے دور ہی رہتے ہیں اور اپنی محافل و مجالس میں علماء ربانی کو ہی دعوت دیتے ہیں، اب لوگوں میں بیداری آ گئی ہے اور انکے شعور بلند ہو رہے ہیں، اب اس قوم کو اگر لائق اور باصلاحیت قیادت میسر ہو جائے تو کم مدت میں ہی اس قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے، اور نوجوان اگر صحیح سمت اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں گے تو بھی ہمارا معاشرہ اپنے لئے ایک نئی تاریخ رقم کر سکتا ہے،  نوجوانوں کو اس پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے 20  سال ایک اچھا وقفہ ہے کہ قوم کو بلندیوں تک لے جایا جا سکے۔

بھارت میں شیعوں کی حالت ہر شعبے میں بہتر ہونی چاہیئے، ہمیں تعلیمی، ثقافتی، تمدنی، اخلاقی، حکومتی اور ترقی کے شعبوں میں ہر ایک سے سبقت لینی چاہیئے، ہمیں حکومت میں آکر اپنے مطالبات منوانے چاہیئیں، ہمیں سیاست میں آ کر اعلی کردار کا مالک ہونا چاہیئے، سیاسی قائد ہمارے معاشرے اور ہمارے ملت کا ترجمان ہونا چاہیئے، ہمارے سیاسی رہنما میں اعلی کردار جھلکنا چاہیئے، لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا ہرگز نہیں ہے، آج ہماری ملت میں جو افراد اچھے مقام تک پہنچتے ہیں وہ اپنے آپ کو شیعہ ظاہر نہیں کرتے ہیں، یا اگر کرتے ہیں تو وہ قوم کے لئے ننگ و عار ہوتے ہیں، نہ کہ باعث فخر، جو افراد اچھے اثر و رسوخ والے بنتے ہیں وہ لبرل ہو جاتے ہیں، وہ قوم سے لا تعلق ہو جاتے ہیں، اور دین سے کوئی واسطہ ان کا نہیں ہوتا ہے۔

ادارہ ندائے حق اسی کوشش میں ہے کہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہو جو بھارت کے تمام نوجوانوں کی پیشرفت کے لئے کام کرے، اور جس کی آواز نہ صرف دہلی میں بلکہ پورے ہندوستان میں گونجے، ہم قوم کے انتشار کے قائل ہرگز نہیں ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کے تمام اہل تشیع کی آواز ایک ہو، مقصد ایک ہو، منزل ایک ہو، دشمن ایک ہو دوست ایک ہو، منشاء ایک ہو منفعت ایک ہو۔ اسی کے مدنظر ہم نے ہندوستان بھر مہں ہفتہ وار کلاسز کا اہتمام بھی کیا تاکہ پوری قوم کو بیدار کیا جا سکے۔

اسلام ٹائمز: اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے آپ کے خیالات جاننا چاہیں گے۔؟

عامر حسین نقوی: ہمارا بنیادی کام اس وقت اتحاد بین المسلمین اور حالات حاضرہ کے پیش نظر اپنے آپ کو اگلی صدی کے لئے آمادہ کرنا ہے، مسلمانوں کا کوئی بھی فرقہ بھارت میں اکیلے کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا، اسلئے اگر یہاں مسلمانوں کا کوئی بھی طبقہ ترقی و کامرانی کا خواہاں ہے تو اسے اولین منزل اتحاد و اتفاق بین المسلمین کے لئے کمربستہ ہونا ہو گا، دیکھئے مثالیں بہت ہیں پورے بھارت میں سکھ حضرات بہت کم تعداد میں ہیں، بھارت میں سکھوں کی آبادی اگر 1 یا 2 کروڑ بھی مان لی جائے لیکن بھارت کی کل آبادی 120  کروڑ ہے لیکن اس کے باوجود بھارت کا وزیراعظم سکھ ہی ہے، آج اگر بھارت میں کوئی Customer Service  شروع کی جاتی ہے تو اس میں سکھ زبان کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، انہوں نے بھارت میں رہکر ظلم و ستم سہہ کر بہت کچھ کر دکھایا، اور آپسی اتفاق کا نمونہ پیش کیا، وہ منظم ہیں اور وہ ایک ہیں، اسی لئے وہ بھارت میں کامیاب نظر آ رہے ہیں، ہم مسلمان گجرات ہو یا آسام مر رہے ہیں لیکن اس ظلم و ستم کے خلاف ہم آواز نہیں اٹھاتے ہیں، ہم متحد نہیں ہیں، اور یہاں بھارت میں مسلمانوں کی ایک آواز نہیں ہے، ہم واقعات اور سانحات کے منتظر ہوتے ہیں، واقعہ پیش آیا ہم اٹھے، احتجاج کیا، پانی پیا اور خاموش ہو گئے، یعنی ہم بہت جلدی ٹھنڈے ہو جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی شناخت نہیں کروا پا رہے ہیں، ہمارا وجود ختم ہوتا جا رہا ہے۔

ان واقعات اور خونین سانحات کے خلاف ایک مںظم تحریک کے لئے ایک سیاسی رہنما کی ضرورت ہے جو ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ملی ضرورتوں کو پیش نظر رکھے، اگر ظلم ہوا ہے تو اس کے خلاف ایک منظم تحریک وجود میں لانی کی ضرورت ہوتی ہے، اگر بھارت میں مظلوموں کے دفاع میں کوئی قانون ہے تو اس قانونی لڑائی کو لڑنے کی ضرورت ہے، اگر چہ اس کے لئے بھی ہمارے پاس افراد اور قائدین نہیں ہیں، ہمارے پاس کوئی ایسا پلیٹ فارم ہی نہیں ہے جو مظلومین کے حق میں قانونی لڑائی میں حصہ لے سکے، بھارتی مسلمانوں کے پاس پورے انڈیا کی سطح پر تو کیا دہلی سطح کی بھی ایک جماعت نہیں ہے، جو ہمارے مطالبات منوا سکے، ہماری کوشش ہے کہ ہم ایک ایسا ہی پلیٹ فارم بھارت کو مہیا کریں جہاں سے بھارت کے تمام مسلمانوں کے مسائل کا حل میسر ہو۔
خبر کا کوڈ : 275553
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش