0
Monday 13 Oct 2014 21:25

عوامی تحریک کا عوامی جلسہ

عوامی تحریک کا عوامی جلسہ
تحریر: طاہر یاسین طاہر
 
لاریب عام آدمی نظام کا باغی ہوچکا ہے۔ غریب، مزدور، ریڑھی بان، رکشے والا، دیہاڑی دار،کلرک، استاد، ڈاکٹرز، انجینئیرز، طلباء، سب کے لئے ایک کشش ہے، اس ایجنڈے میں جو عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پیش کیا۔ لوگوں کی توقعات کیا ہوتی ہیں؟ کیا رکشے والے کو اس بات سے کوئی غرض ہے کہ حکومت اسمبلی میں کس نوع کا بل کس طرح لا کر کیسے پاس کرانے کی حیلہ سازیاں کر رہی ہے؟ حکومت خواہ کسی کی بھی ہو؟ رکشے والے کی غرض ان اشیا کی قیمتیں ہوتی ہیں جنھیں ضروریاتِ زندگی کی اشیا کہا جاتا ہے۔ پی پی پی کی حکومت نے پانچ سال گذارے تو لوڈشیڈنگ اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ہی اس کی جان نہیں چھوڑی۔ پی پی پی کی قیادت ہمیشہ کہتی رہی کہ بجلی کا بحران اسے ورثے میں ملا ہے۔ میں نے ہمیشہ سوال اٹھایا کہ عوام نے آپ کو منتخب ہی اس لئے کیا آپ ان تمام بحرانوں کو حل کریں جو قائد اعظم لیگ کی حکومت نے ’’تخلیق‘‘ کئے۔ سوال مگر تشنہء جواب ہی رہا۔
 
کہا جاتا رہا کہ ہم نے صوبائی خود مختاری دی، اٹھارہویں، انیسویں، بیسویں ترامیم کیں۔ بھلا ایک دیہاڑی دار کو اس سب سے کیا غرض؟ موجودہ حکومت کا بھی کیا ہی کہنا۔ پنجاب، وفاق اور بلوچستان میں نون لیگ کی حکومت ہے۔ سندھ میں پی پی پی کی۔ نون لیگ کا کہنا ہے کہ اب دھرنا سیاست ہماری ترقیاتی سکیموں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ پنجاب کے ایک سابق وزیرِاعلٰی چوہدری پرویز الٰہی نے ’’خادم اعلٰی‘‘ کو اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں ہونے والی ترقی اور ’’خادم اعلٰی‘‘ کے پندرہ سالوں کے کارناموں پر مناظرے کا چیلنج دے دیا ہے۔ ٹی وی والوں کی بھی رونقیں بحال ہیں اور اخبارات کو بھی لیڈ، سپر لیڈ مل رہی ہے۔
 
اس امر میں کلام نہیں کہ دھرنوں کا سفر انقلاب لائے یا نہ لائے مگر وراثتی سیاسی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا ضرور کر دے گا۔ لوگ نام نہاد جمہوریت پرستوں کی کرپشن کہانیوں سے واقف ہوچکے ہیں۔ سب سے بڑا اور برا دھوکہ وہی ہوتا ہے جو انسان اپنے آپ کو دیتا ہے۔ نون لیگ کی قیادت اور ان کی حمایت کرنے والے کالعدم تنظیموں کے’’ساہو کار‘‘ لاکھوں کے جلسوں کو دس بیس ہزار کہہ کر اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ جو خود کو دھوکہ دے سکتا ہے وہ کسی کو بھی دے سکتا ہے۔ بے شک فیصل آباد میں پاکستان عوامی تحریک نے اپنی شیعہ سنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر امن، محبت، اتفاق، اتحاد اور وراثتی سیاسی نظام کے خلاف ایک ریفرنڈم کرا دیا ہے۔ کیا پاکستان میں مسلمانوں کی تکفیر کرنے سے امن آئے گا؟ کیا پاکستان میں کالعدم تنظیمیں نام بدل بدل کر حکومت کے حق میں ریلیاں کریں گی تو امن آجائے گا؟ بے شک پی ٹی آئی کے قیادت کو بھی اپنے منشور میں ان نقطے کو لانا چاہیے کہ کسی بھی مسلمان کی تکفیر ایک جرم تصور ہوگا۔ مجھے حیرت ہوئی اس بیان پر جو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے دیا کہ ’’اگر ٹی وی پہ کوریج ملنا بند ہو جائے تو دھرنے خود بخود ختم ہوجائیں گے‘‘ یعنی حکومت کا آج بھی مقصد دھرنے کی وجہ کو دریافت کرکے اس کا حل تلاش کرنا نہیں بلکہ اس کا مقصد ٹی وی پہ دھرنے والوں کی بات کے بجائے اپنے قصیدہ گو پسند ہیں۔
 
کہا جا رہا تھا کہ دھرنوں کا چہلم ہوگیا ہے، اب اجتماعی دعا کرکے اٹھ جانا چاہیے۔ اٹھنے والے ایسا اٹھے کہ لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ لاہور، میانوالی، ملتان اور پھر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا فیصل آباد کا جلسہ۔ کوئی انصاف پسند بتائے کیا دیہاڑی پر کسی جلسے کے لیے اتنے بندے لائے جاسکتے ہیں؟ پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں اور جلسوں میں لوگ شعوری طور پر آرہے ہیں۔ کیا یہی تبدیلی ایک بڑی معاشرتی و سیاسی تبدیلی کی اساس نہیں؟ 18 اکتوبر کو کراچی میں پی پی پی جلسہ کرنے جا رہی ہے۔ وہی شہادتوں کی داستان اور جمہوریت کی حفاظت کی قسم کھائی جائے گی۔ ایک قابلِ اعتبار ذریعے نے بتایا کہ پنجاب سے چند آدمیوں کی ایک بس پیپلز پارٹی کے کراچی جلسے میں لے کر جانے والے کو ایک لاکھ روپیہ دیا جائے گا۔ مفت ٹرین چلے گی۔ کیا کسی صاحبِ شعور نے غور کیا کہ دوستانہ فٹ بال میچز، میں بھی گو نواز گو کے نعرے کیوں لگ رہے ہیں؟ بادشاہت کیا ہے؟ ایک رویہ ہے، عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھنے کا رویہ۔ خود کو برتر سمجھنے کی خود فریبی۔ منہ سے نکلے ہوئے ہر لفظ کا حکم کا درجہ سمجھنے کی’’علت‘‘۔
 
لوگ مگر فریب کاروں کے جال میں اب کی بار نہیں آئیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنی ساکھ بحال کرنا ہے تو اسے منظور وٹو کے بجائے اپنے بنیادی سیاسی منشور کی طرف لوٹنا ہوگا۔ پنجاب کا جیالا کبھی نہیں چاہے گا کہ اسے کسی کا ’’گروی‘‘ رکھ دیا جائے اور ہرن کا گوشت کھا کر ’’جمہوریت کا ڈکار‘‘ لیا جائے۔ مزاحمت اور صرف مزاحمت۔ سابق صدر آصف علی زرداری صاحب کو یہ سوچنا ہوگا کہ لاہور میں ان کی موجودگی میں جیالے پارٹی کے صوبائی صدر کے خلاف کیوں نعرے بازی کرتے رہے؟ کیا یہ بھی کسی عوامی تحریک والے یا پی ٹی آئی والے کی سازش تھی؟ نہیں یہ وہ جرات ہے جو پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں نے لوگوں کو دی ہے۔ ذہن بدل رہے ہیں۔ اب سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر پہلے سیاسی کلچر متعارف کرانا ہوگا۔ اب نامزدگیاں قبول نہیں ہوا کریں گی، خواہ پی ٹی آئی والے ہی کسی کو نامزد کیوں نہ کریں۔ حقیقی عوامی جمہوریت کا سورج طلوع ہو کر رہے گا۔
 
فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ گراونڈ میں پاکستان عوامی تحریک کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے طاہرالقادری نے کہا ہے کہ ’’انقلاب کے لئے عوام سے مالی مدد چاہتا ہوں، کیونکہ نہ تو میں سرمایہ دار ہوں اور نہ ہی میری جاگیریں ہیں، جبکہ اسٹیبلشمنٹ کی بھی مدد حاصل نہیں ہے۔ لہذا عوام مجھے ووٹ، سپورٹ اور نوٹ دیں تو میں انہیں قائد اعظم کا پاکستان واپس لوٹا دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ 14 اگست سے اسلام آباد میں دھرنا دیا ہے، جس سے حکومت تو نہیں گری لیکن انقلاب برپا ہوگیا ہے اور اب یہ انقلاب پورے ملک آکر رہے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک کا نظام بدلنے کے لئے ہر شہری کو کھڑا ہونا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کمزور طبقات اب انقلاب کے لئے کھڑے ہوگئے ہیں، جو اپنے حقوق کے لئے طاقتور سے لڑنے کے لئے تیار ہیں، ملک سے موجودہ نظام کے خاتمے کے لئے ہر شخص کو کھڑا ہونا ہوگا، پاکستان میں اب یہ جعلی جمہوریت برقرار نہیں رہ سکتی، اگر ملک میں موجود نظام حکومت رہا تو پاکستان کی کشتی ڈوب جائے گی۔‘‘ بے شک جعلی جمہوریت کا دور ہچکیاں لے رہا ہے۔ خاندانی بادشاہتوں کی فصیلوں میں دراڑیں پڑچکی ہیں۔ قبروں اور کتبوں کی سیاست دفن ہونے والی ہے۔ فرقہ پرستوں کی ڈوریاں ہلانے والوں کے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام اس نظام سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ آزادی کی جنگیں لاکھ مصائب کے باوجود بھی اپنے ماتھے پہ فتح کا جھومر سجا کر دم لیتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 414459
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش