0
Sunday 20 Apr 2014 22:32

بنت حوا کہاں ہے؟

بنت حوا کہاں ہے؟
تحریر: مجاہد علوی
mujahidalvi@gmail.com


حقیقت و خیالات کی دنیا میں الجھ کر راہ جانے والا گم شدہ وجود یا پس پردہ حقیقت جو زمانہ قدیم سے لیکر آج تک معاشرہ میں ایک ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔ نوع انسانی میں یہ عنصر ثانی آج کی نسبت قدیم زمانے میں بہت واضح اور حقیقت میں کہیں زیادہ دکھائی دیتا ہے مقام و منصب میں اسوقت حوا کی بیٹی پائیدار حیثیت میں بھی نظر آتی ہے اور کمزور حالت میں بھی ،خاص بات یہ ہے کہ اس کے باوجود عورت بحیثیت ذات عورت ہی تھی ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ معاشرہ حق میں نہ تھا یا یہ کہوں کہ قدیم زمانے میں عورت تو تھی مگر معاشرہ نہ تھا اور آج معاشرہ حق میں ہے مگر عورت نہیں ملتی۔ عورت روز اول سے دونوں پہلو میں نمایاں رہی ہے۔ حق خود ارادیت یا حاکمیت کا مسئلہ ہو تو عورت فرعون کے گھر میں بھی آسیہ بن کر سامنے آتی ہے اور اگر معاشرتی اقدار کا مسئلہ ہو تو عورت ایک عظیم تاجر بن کر جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کی صورت میں مردوں کی نسبت کہیں زیادہ معاشرے کے لیے نفع بخش ثابت ہوتی ہے ۔ اسی طرح دوسرے پہلو میں دیکھیں تو عورت پر جو ظلم کی داستاں لکھی گئی اسکی تاریخ بھی کہیں نہیں ملتی۔ نبی کی ماں مگر لوگ پاکدامنی پر انگلیاں اٹھا دیتے ہیں، یا کہیں زندہ دفن کر دیا جاتا ہے مگر اتنے عرصہ میں کہیں بھی حقیقی وجود عورت معدوم نہیں ہوا۔

آج جبکہ معاشرہ حق میں ہے پر آج جسمِ عورت تو ہے، وجودِ عورت خیالات کی بھینٹ چڑھ کر ناپید ہو چکا ہے۔ اصل ذاتِ عورت کہیں کم ہی ملے گی۔ عالمی معاشرتی انسانی حقوق کی علمبردار مبہم آزادی نے عورت کی ذات سے ایسی خیانت کی ہے کہ اب آزادیء حقوق کے نعرے میں تصویرِ جسم عورت ٹافی کے ریپر سے لیکر لاکھوں روپے مالیت کی اشیا میں لپٹی آزادی کے جدید پردے میں نظر آتی ہے۔ عورت کی آزادی کے متوالوں نے عکس مریم و تہذیب سیدہ فاطمہ (س) سے نکال کر قدامت سے جدت کا لباس اس انداز میں پہنا دیا ہے کہ اب لفظ عورت کا اپنے مصداق میں بھی نظر آنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ کل بھی عورت حاکم تھی مگر منصبِ عورت میں رہ کر نہ محکوم ہو کر، کل عورت تاجر بھی تھی لیکن خود تجارت ہرگز نہیں تھی۔ اسلام کی آفاقیت میں عورت کی آزادی اصول و منطق کی بنیاد پر ہے جو آج بھی قائم ہے۔ اسی لیے اسلام کی نظر میں ذاتِ عورت نمائش حسن نہیں بلکہ حسین سیرت کی محافظ ہے۔

حقیقی عورت کے تخت و تاج اور جاہ و جلال کی اسلام میں کہیں اسکی نفی نہیں ہے۔ حقیقی عورت کا تخت اسکا گھر، تاج اسکی پاکدامنی و عزت نفس اور جاہ و جلال اسکی وہ اولاد جنکو وہ معاشرتی تہذیب یافتہ قیمتی انسان بنا کر اپنے وجود کا صحیح اظہارکرتی ہے۔ وہ خود نظروں کی زینت نہیں بنتی بلکہ روح انسانی کی بصیرت اسے دیکھتی ہے۔ اسی کی طرف جناب سیدہ زہرا (س) کی وہ بات یاد آ گئی کہ جب کسی بزرگ نابینا کے سامنے آنا ہوا تو آپ نے پردہ فرما لیا ،کہا گیا اے سیدۃ النساءالعالمین وہ تو بصارت نہیں رکھتا تو آپ نے فرمایا کہ اسکی نہیں تو میری آنکھیں تو اسے دیکھ رہی ہیں، تبھی فرمایا عورت کا زیور اسکا پردہ ہے۔ یہ اسلئے فرمایا کہ کہیں عورت معاشرتی غربت کا شکار نہ ہو جائے اور زینتِ بازار و کاروبار نہ بن بیٹھے بلکہ عورت کی امیری اسکا پردہ ہے، کائنات کی کوئی قیمتی چیز اسکا دام نہیں لگا سکتی۔

وہ عورت کہ جسکی سلطنت اسکا عظیم مہذب گھر تھا، جس کی گود میں ہی حاکم بھی پلتے ہیں، برابر محکوم بھی دنیا کو اچھے اور تہذیب یافتہ حاکم و محکوم اسی کی سلطنت سے ملتے ہیں تو اسے پھر کس قسم کی مزید آزاد سلطنت چاہیئے؟ کیسی حاکمیت چاہیئے؟ عورت محکوم رہی کب ہے؟ کیا یہ اسکی حاکمیت نہیں کہ وہ چاہے تو زمانے کو حسین (ع ) دے دے، چاہے تو زمانے کو یزید دے دے۔ آدم و حوا (ع) سے لیکر اب تک عورت کبھی نوح علیہ السلام کے مقابل آئی تو کبھی لوط علیہ السلام سے بغاوت، تو کبھی جنگوں میں نبی کے چچا کا کلیجہ چبوایا، تو کبھی خود میدان جنگ کی زینت بنی مگر اسی طرح عورت ہی تھی جس نے انبیاء کا ساتھ دیا، ہجرتیں کیں، غربت و افلاس میں رہیں، نبی کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر سیدۃ النساءالعالمین ہو کر کبھی زخمی بابا کا مرہم بنی تو کبھی غمزدہ شوہر مولائے کائنات کے لیے ہر مشکل لمحہ میں شریک کار رہیں، حوصلہ و عزم دیا، دلجوئی کی مگر کہیں نہیں کہا کہ میں چکی نہیں پیسوں گی اور نہ ہی کبھی حقوق کا شکوہ کیا۔ انبیاء و اہلبیت کی خواتیں نے بھی اسلامی معاشرہ کے ہر شعبہ میں حصہ لیا مگر آج کی خیالی مجسم عورت سلطنت و صنعت و تجارت و سیاست و معاشرت اور تعلیم کے شعبہ جات میں اگر عورت اصل ذات عورت من حیث العورت کے حصار اور دائرہ میں، حصہ دار بنے تو ہرگز ممنوع نہیں۔

مگر ذاتِ عورت اسوقت سوالیہ نشان بن جاتی ہے جب مکمل شعبہ  تجارت ہی عورت ہو، سیاست ہی عورت ہو، تو پھر شعبہ جات و ادارے تو ہونگے حقیقی وجود عورت کہیں نہیں ملے گا۔ مربی و معلمہ معاشرہ کی موت ہو جائے گی۔ بس حقیقی عورت مشتبہ و مبہم آزادی میں ایسی گم ہو جائے گی کہ یا تو دو شادیاں کرنے نہ کرنے میں یا پردہ کرنے یا نہ کرنے یا قدامت و جدت کی اس تخریبی جنگ میں ماضی کی سرخ سطر بن جائے گی مگر اسلام کی عزت دار حاکم و تاجر و مربی عورت کا فقدان ہو جائے گا یا پھر لا نجیب صفت لوگ سرعام آزادی پسند مجسم عورتوں کی بدتہذیبی کے سبب احکام اسلام و اقدار اسلام میں بغاوت کرنے کی جرات کرتے رہیں گے اور اس بھیانک آزادی کے دھوکہ میں معصوم بچیاں غیر فطرت عمل کا کھیل بنتی رہیں گی۔ یہ سلسلہ اسباب کے مہیا ہونے تک جاری رہے گا، جہاں میں اس میں بدفطرت مرد کا قصور کہوں گا وہیں بدذات فطرت عورت کی آزادی کی غلط تشریع کو بھی نتیجہ قرار دونگا۔
خبر کا کوڈ : 374751
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش