8
1
Thursday 23 Oct 2014 00:52

سرزمین بوذرؓ و سلمانؓ سے اویس قرنی ؓ کے یمن تک

سرزمین بوذرؓ و سلمانؓ سے اویس قرنی ؓ کے یمن تک
تحریر: عرفان علی

ایران یعنی سرزمین حضرت سلمانؓ، جبل عامل لبنان یعنی سرزمین حضرت ابوذرؓ اور یمن یعنی حضرت اویسؓ قرنی کا وطن۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰی (ص) کے اہل بیت نبوت میں شامل یہ جلیل القدر ہستیاں۔ ایمان اوج ثریا پہ ہو تو اس کو بھی زمین پر لے آئے گی ایک قوم، قرآن شریف کی تفسیر میں یہ حدیث بھی نقل ہوئی ہے۔ دیوبندی علماء بھی اس حدیث کے قائل ہیں۔ حضرت محمد رسول اللہ (ص) نے یہ فرمایا تو صحابہ کرام نے سوال کیا، یارسول اللہ (ص) یہ کون سی قوم ہوگی۔؟ جواب آیا سلمانؓ کی قوم! طول تاریخ میں کئی ایرانی زعماء نے اسلام کے دفاع میں اپنا نام کمایا، لیکن بیسویں صدی کے آٹھویں عشرے میں جب دنیا میں اسلام کو امریکہ کی لونڈی بنا دیا گیا تھا، تب امام خمینی کی قیادت و رہبری کے نتیجے میں اسلام ناب محمدی کو اوج ثریا سے لے آئی، ملت شریف ایران یا با الفاظ دیگر سلمان فارسی (یا سلمان محمدی) کی قوم۔ 

انقلاب اسلامی ایران کو امام خمینی نے انفجار نور کہا اور پھر اس نور کی کرنیں جبل عامل کو منور کرنے لگیں۔ سرزمین لبنان پر حزب اللہ کا پرچم لہرایا۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کی سرزمین کے بعد اس نور نے یمن کا رخ کیا تو وہاں انصار اللہ وجود میں آئی۔ عربستان حجازی کا کیا تذکرہ کہ یہ تو چہاردہ معصومین علیہم السلام کی اپنی سرزمین ہے۔ عراق کو مولائے متقیان علی ابن ابی طالب نے اپنی زندگی میں ہی اپنا لیا تھا۔ یار وفادار مقدادؓ کے نام سے عراق میں مقدادیہ نامی شہر آج بھی موجود ہے۔ مالک اشتر و مختار ثقفی کی سرزمین بھی عراق ہی ہے۔ افریقہ سے اسلام ناب محمدی کے گہرے تاریخی رشتے ہیں۔ حضرت جعفر طیارؓ نے نجاشی کو اسلام کا پیغام پہنچایا۔ حضرت بلالؓ حبشی کی اذان کے بغیر تو اللہ سورج طلوع نہیں کرتا۔ حضرت عمار یاسرؓ کی شہادت نے تو اسلام کے باغیوں کی شناخت کروا دی کہ خاتم الانبیاء (ص) نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ عمار یاسر کو باغیوں کی جماعت قتل کرے گی۔ افریقہ سے ہمارا رشتہ یہاں ختم نہیں ہوجاتا بلکہ بی بی فضہؓ بھی اس تاریخی رشتے کے حوالے سے ایک بڑا اور ناقابل فراموش نام ہے۔ 

لیکن آج تذکرہ یمن کا ہے۔ پاکستان کے نظریہ ساز علامہ اقبال (ایرانیوں کے دکتر اقبال لاہوری) نے یمن کو بھی یاد رکھا اور حضرت اویسؓ قرنی کو بھی۔ مسجد قرطبہ میں بیٹھ کر نظم لکھی تو کہا کہ:
بوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے
رنگ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے
طلوع اسلام کے عنوان سے نظم میں علامہ اقبال نے ایک فارمولا بتایا، جو آج بھی عالم اسلام کے جملہ مسائل کا حل ہے۔ انہوں نے لکھا:
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا، زور حیدر، فقرؓ بوذرؓ صدق سلمانیؓ

یمن کی صورتحال واضح ہے۔ یہاں دنیا کے قیصر و کسریٰ کے استبداد کو سمجھنے کے لئے آج کے قیصر و کسریٰ کی شناخت کرنا ہوگی۔ آج دنیا میں نام نہاد جمہوریت اور آزادی کے کھوکھلے نعرے کے تحت امریکہ و یورپ نے(ضد اقبالیات) عرب بادشاہوں کو اتحادی بناکر عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطٰی و شمالی افریقہ میں استبدادی نظام مسلط کر رکھا ہے اور ان عرب بادشاہوں اور خاص طور پر تکفیریوں کے ’’گاڈ فادر‘‘ آل سعود کی وہابی بادشاہت پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے جو انہوں نے حکیم سنائی غزنوی کے مزار پر تحریر کی اور اس کا آغاز یوں کیا:
 ما از پے سنائی و عطار آمدیم 

اقبال کے الفاظ میں اگر آپ آج اسلام و مسلمین کے خائنوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں:
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذرؓ، و دلق اویسؓ و چادر زہراؑ

علامہ اقبال کو بوئے یمن مسجد قرطبہ کی ہواؤں میں محسوس ہوئی، یہ ان کا حسن ظن تھا، ورنہ اویس قرنیؓ کی خوشبو نے تو مدینۃ النبی ﷺ کی ہواؤں کو اتنا معطر کر دیا تھا کہ خاتم الانبیاء ﷺ جب حضرت اویسؓ کی یمن واپسی کے بعد شہر مدینہ پہنچے، تب بھی انہیں وہ خوشبو محسوس ہوئی تھی۔ جنگ صفین میں امیرالمومنین امام علی (ع) کو ان کی خوشبو طویل فاصلے کے باوجود محسوس ہو رہی تھی اور ان کے بغیر اپنے لشکر کو نامکمل قرار دے رہے تھے۔ وفا و عشق مجسم و منور، اویس قرنی میں متجلی!۔ صفین میں مولا علی (ع) کے دشمنوں کے زہریلے تیر کا نشانہ بن کر نبوت کے بعد ولایت و امامت پر جان نچھاور کرنے والے اویس قرنی کا یمن آج حق و باطل کی اس جنگ میں، اس عالمی صف بندی میں غیر جانبدار کیسے کھڑا رہ سکتا تھا۔
 
شام کہ جہاں حضرت زینب (س) و حضرت رقیہ (س) (ہند و پاکستان میں انہیں حضرت سکینہ ؑ کہا جاتا ہے) کے حرمین مطہر ہیں کہ جہاں حضرت عمار یاسرؓ، حجر بن عدیؓ، اویس قرنی (رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین) کے مزارات اقدس موجود ہیں، وہ سرزمین اس جنگ میں سرزمین بوذرؓ و سلمانؓ و اویسؓ قرنی سے لاتعلق کیسے رہ سکتی ہے۔ آج بھی اسلام ناب محمدی کے معصوم قائدین و رہبر اور ان کے یاران وفادار کے مزارات مقدسہ پر تکفیری دہشت گرد حملے و بمباری اسلام کے باغیوں کے مکروہ و خبیث چہروں سے پردہ ہٹا چکے ہیں۔
 
عجیب و غریب تاریخ ہے یمن کی۔ یہاں زیدی شیعوں نے حکمرانی کی تو بھی سامراج دشمن حکمرانی۔ یہاں ماڈرن تکفیریوں کے جد امجد سعودی بادشاہوں کی سامراجی اتحادی وہابیت کے خلاف مقاومت کی ایک طویل تاریخ رقم کی گئی۔ زیدی شیعہ شاہ کا یمن اس لئے بھی عجیب تھا کہ یہ فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع کرنے والے شاہ یمن تھے۔ 3 دسمبر 1947ء کو یمن کے حکمران زیدی شیعہ امام یحیٰی نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو فلسطینیوں اور عربوں کی حمایت پر شکریہ کا خط لکھا تھا۔ یہ خط اقوام متحدہ میں تقسیم فلسطین کے بارے میں منظور کی گئی قرار داد نمبر 181 کے ردعمل میں لکھا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے اس فیصلے کو غیر عادلانہ قرار دے کر اس پر صدمے اور حیرت کا اظہار کیا گیا تھا۔ جناح صاحب نے 24 دسمبر 1947ء کو اس نامہ تشکر کا جواب لکھا تھا۔ 

یمن کے خلاف سازشوں کی جدید تاریخ میں خائن سرزمین مقدس حجاز آل سعود کا قائدانہ کردار رہا ہے۔ امریکی سامراجی اتحاد کی نمائندگی کرتے ہوئے سعودی بادشاہت نے یمن کو طفیلی ریاست بنا کر رکھا ہوا تھا۔ زیدی شیعوں کے خلاف وہابیوں کی سرپرستی کی جاتی رہی۔ ملازمتوں کے بہانے یمن کے لاکھوں افراد کو سعودی عرب بلا کر انہیں وہابی بنایا جاتا رہا۔ 1950ء کے عشرے میں لکھی گئی کتابیں کہ جن کے نئے ایڈیشن 1980ء کے عشرے تک شائع ہوئے، ان میں لکھا گیا کہ یمن کی اکثریت شیعہ مسلمان ہیں۔ لیکن آج امریکی ہیئت مقتدرہ کے اہم اداروں میں طویل عرصے ملازمت کرنے والے اور مختلف امور پر ماہر تصور کئے جانے والے نامور تجزیہ نگار بروس ریڈل یمن میں شیعہ مسلمانوں کو اقلیت لکھتے ہیں۔ لیکن اس غلط بیانی کے باوجود انہیں حقیقت کا اعتراف کرنا پڑ رہا ہے۔ 12 اکتوبر 2014ء کو ان کی تازہ ترین تحریر کا عنوان ہی یمن کی صورتحال کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ: ’’یمن میں حوثیوں کی کامیابیوں نے سعودی عرب کو پریشان کر دیا ہے۔‘‘
 
حوثی یمن کے زیدی شیعوں کی قبائلی شناخت ہے۔ شمالی یمن میں اکثریت اسی حوثی قبیلے کی ہے۔ یمن کے تازہ ترین حالات آپ کو معلوم ہیں کہ ایندھن کی قیمتوں میں سو فیصد اضافے کے خلاف اور غیر نمائندہ و غیر عادلانہ سیاسی نظام کے خلاف یمن میں عوامی بیداری کی تحریک اپنے عروج پر ہے۔ عوامی بیداری یا اسلامی بیداری کی یہ انقلابی تحریک عبدالملک حوثی کی جوان قیادت کے تحت جاری و ساری ہے۔ علی عبداللہ صالح ایک سعودی پٹھو صدر تھا، اسے عوامی اسلامی تحریک نے نکال باہر کیا، لیکن امریکہ کے اتحادی بادشاہان عرب نے اصلاحات اور ٹرانزیشن کے نام پر اس کی جگہ دوسرا ایجنٹ صدر مسلط کر دیا گیا ہے۔ الیکشن میں تاخیر کے لئے سازشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ فی الوقت ایک وزیراعظم کی تبدیلی عمل میں آئی ہے۔ ایندھن کی قیمتوں میں کمی کا اعلان بھی ہوچکا ہے۔ لیکن یہ تحریک جاری رہے گی۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ اویس قرنی کی سیرت عملی کا مظہر زیدی حوثی ہیں اور صفین کی جنگ میں اسلام کے باغیوں کی جگہ آج کی جنگ میں آل سعود میدان میں ہیں۔ 

یمن پر یہ پہلی تحریر ہے۔ نومبر میں مزید اسی موضوع پر آپ کی خدمت میں حاضری دی جائے گی۔ دیکھئے آل سعود وہی شیخ حرم ہے جو انصار اللہ کے خلاف صف آرا ہوکر اویس قرنی کا درویشی لباس (دلق) چرا کر بیچ کھانے میں مصروف ہے۔ چادر زہرا ؑ کے وارث مکتب اسلام ناب محمدی کے عظیم فرزند آیت اللہ باقر النمر سمیت حجاز مقدس کے شیعہ مسلمانوں اور گلیم بوذر کے وارث لبنانی شیعوں (یعنی حزب اللہ) کے خلاف بھی امریکی صہیونی اتحاد میں اسی شیخ حرم کا چوروں والا کردار اظہر من الشمن ہے۔ لیکن آج زور حیدر، فقر بوذر اور صدق سلمانی کی طاقت یکجا ہے۔ اس دور کے قیصر و کسریٰ کے ظلم و استبداد کو یمن میں بھی عبرت ناک شکست ہوگی، انشاءاللہ۔
خبر کا کوڈ : 416015
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

اعلٰی۔
Mashalah
اقبال رہ کے ان اشعار کو بھی نہ بھولیں
؎ دیکھا تھا افرنگ نے اک خواب جینیوا
ممکن ہے کہ اس خواب کی تقدیر بدل جائے
تہران ہو گر عالم مشرق کا جینیوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
الحمد للہ اقبال کا خواب انقلاب خمینی رہ اور انقلاب مہدی عج کی صورت تکمیل ہوگا
؎ابھی جہاں میں محمدؑ کا نام باقی ہے
حق کا نور و ماہ تمام باقی ہے
اک انقلاب خمینیؒ پہ ہوگئے حیراں؟؟
ارے ابھی تو ظہور امامؑ باقی ہے
شکریہ قمر بھائی۔ آپ کو براہ راست ایک ایمیل کی تھی شاید آپ تک نہیں پہنچی۔ التماس دعا
شکریہ برادر
اقبال کے ان اشعار پر بہت پہلے ہی کافی تحریریں لکھ چکا ہوں۔ جب موضوع ایران یا انقلاب اسلامی ہوتا ہے تب یہ سب یاد رہتا ہے۔ یہاں فوکس یمن تھا۔ میں حیران ہوں کہ یمن پر یہاں آخری مضمون ۲۰۱۱ میں پوسٹ کیا گیا تھا۔ چہ عجب! بحرین پر میرے حالیہ مضمون سے پہلے آخری مضمون ۲۰۱۲میں لکھا گیا۔ مجھے اگر معلوم ہوتا تو ان پر پہلے ہی لکھ چکا ہوتا۔ بہرحال اب متوجہ ہوں۔ جو بات آپ نے کہی اس پر میرے پاس ایک اور آئیڈیا ہے۔ انشاء اللہ نومبر میں پڑھیے گا۔
التماس دعا۔۔۔عرفان
سلام عزیزم!
عرفان علی صاحب نے بڑے عمدہ انداز سے مضمون لکھا ہے، خصوصاً آخری پیراگراف کے اندر علامہ اقبال کے اشعار کو جس خوبصورتی سے برتا ہے، وہ بہت دلچسپ ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!!!!
تھوڑا بہت یمن کی تاریخ (جنوبی و شمالی یمن اور پھر اتحاد اور آخر میں جمہوری تحریک اور اس کے نتیجے) کی جانب بھی اشارہ ہو جاتا تو بہت اچھا تھا۔
ارے بھئ واقعی نہیں ملی۔ زحمت نہ ہو تو دوبارہ بھیج دیں۔ میں ایک سعادت سے محروم رہ گیا!
Pakistan
یمن پر یہ پہلی تحریر ہے۔ نومبر میں مزید اسی موضوع پر آپ کی خدمت میں حاضری دی جائے گی۔
Please wait.
آپ نے آخری پیراگراف کا یہ ابتدائی جملہ فراموش کر دیا۔ {یمن پر یہ پہلی تحریر ہے۔ نومبر میں مزید اسی موضوع پر آپ کی خدمت میں حاضری دی جائے گی.} شمالی جنوبی، مشرقی، مغربی، زمینی سمندری، سبھی رخوں پر بات ہوگی۔
ہماری پیشکش