1
Monday 25 Aug 2014 16:54

خضدار توتک کمیشن کی رپورٹ سے بڑھتے خدشات

خضدار توتک کمیشن کی رپورٹ سے بڑھتے خدشات
رپورٹ: این ایچ حیدری

بلوچستان کے علاقے خضدار میں توتک کے مقام پر ملنے والی اجتماعی قبروں کی تحقیقات کے حوالے سے گذشتہ مہینے عدالتی کمیشن بنایا گیا تھا۔ عدالتی کمیشن کو وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچستان ہائیکورٹ کے جج جسٹس نور محمد مسکان زئی کی زیر نگرانی مرتب کی ہوئی تھی۔ خضدار سے پراسرار طور پر ملنے والی اجتماعی قبروں کیخلاف صوبے کی سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں نے آواز بلند کیں۔ صوبے میں آباد ناراض بلوچ قبائل نے بھی اس واقعے کیخلاف شدید احتجاج کیا، تاہم وزیراعلٰی بلوچستان نے یقین دلایا کہ اعلٰی عدالتی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کروا کر واقعے میں ملوث عناصر کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ کمیشن کی رپورٹ گذشتہ ہفتے منگل کی صبح پیش کی گئی، جس نے معاملات کو مزید الجھا کر کئی سوالات و خدشات کو جنم دیا۔ بلوچستان حکومت نے خضدار کے علاقے توتک سے ملنے والی اجتماعی قبروں سے متعلق قائم جوڈیشل ٹریبونل کی انکوائری رپورٹ جاری کر دی، جسکے مطابق فوج، خفیہ ادارے اور حکومت توتک واقعے میں ملوث نہیں۔ رواں سال 17 جنوری کو خضدار کے علاقے توتک میں دو اجتماعی قبروں سے 13 افراد کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق قبروں سے برآمد شدہ لاشیں تین سے چھ ماہ اور چھ سے آٹھ ماہ پرانی ہیں۔ واقعہ سے متعلق شہادتیں اس معیار کی نہیں کہ اسے فوجداری عدالت میں کسی شخص کو قصوروار ٹہرانے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ خضدار کا ایک شخص اور اس کے ساتھی واقعے میں ملوث ہو سکتے ہیں۔

رپورٹ میں انکوائری ٹریبونل نے مارچ سے دسمبر 2013ء کے دوران غفلت برتنے پر خضدار کی سول انتظامیہ کے تمام افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے اور کہا گیا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے نڈر اور بہترین انتظامی صلاحیتوں کے حامل افسران کو تعینات کیا جائے۔ دہشت گردی کے ایسے تمام واقعات جن میں ذمہ داری کا دعوی کیا گیا ہو، ان کی تفتیش ایماندار اور اہل اہلکاروں سے کرائی جائے۔ محکمہ داخلہ بلوچستان کے مطابق توتک واقعے میں سترہ لاشیں قبروں سے برآمد ہوئی تھی جبکہ قوم پرست جماعتوں کا دعوی اس سے کئی زیادہ ہے۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چئیرمین نصراللہ بلوچ کہتے ہے کہ اس واقعے میں بھی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے، جو عرصہ دراز سے بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں اور جبری گمشدگیاں جیسی کاروائیوں میں ملوث رہی ہیں۔

حکومت یا خفیہ ادارے شاید براہ راست اس واقعے میں ملوث نہ ہو، لیکن وہ عسکریت پسند گروہ جنہیں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی یا ہمدردی حاصل ہے، انکے ملوث ہونے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اجتماعی قبروں سے ایسی لاشیں بھی ملی ہیں، جن کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں پہلے ہی درج تھا۔ عدالتی کمیشن کے مطابق چند شواہد نے مقامی قبائلی عناصر کے ملوث ہونے کی بھی نشاندہی کی ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جو آزادی کے طلبگار بلوچوں کیخلاف لڑتے اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کیلئے مُخبری کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔ عدالتی ٹربیونل اور صوبائی حکومت کو اس جانب زیادہ توجہ دینی چاہیئے تھی، کیونکہ ہائیکورٹ کا جج تو صرف ثبوتوں کی موجودگی ہی میں صحیح فیصلہ دی سکتا ہے۔ خضدار ٹربیونل کے نتائج بھی گذشتہ عدالتی تحقیقاتی رپورٹس کی طرح نامکمل ہیں۔ جیساکہ 2011ء میں صحافی سلیم شہزاد کے مبینہ قتل کی تحقیقات ٹیم بھی کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام رہی۔ اور اسی طرح ابیٹ آباد کمیشن کی رپورٹ بھی آج تک منظر عام پر نہ آ سکی۔ خضدار واقعے کے حوالے سے یہ سوال پوچھنا حق بجانب ہے کہ کس لئے اتنے لوگوں کو بربریت کا نشانہ بنایا گیا، جبکہ علاقے میں سکیورٹی انتظامیہ کی موجودگی کے باوجود حکومت اور ریاستی اداروں کا اس حوالے سے بالکل بےخبر رہنا انتظامی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔؟ جب تک ایسے واقعات کے حقائق اور اس میں ملوث‌ عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا، تب تک بلوچ پاکستان کی ریاست سے مزید دور ہوتے چلے جائینگے۔
خبر کا کوڈ : 406610
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش